بس ڈرائیور اور گارڈ… جمہوریت اور آمریت کی تمثیل 

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی 1947 ماڈل کی گاڑی گزشتہ 72 برسوں سے اپنی منزل کی جانب گامزن ہے۔ اس وقت وزیراعظم عمران خان ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہیں۔ یہ ہچکولے کھاتی گاڑی ناصرف اندر سے تو بھری ہوئی ہی ہے بلکہ چھت پر بھی مسافر سوار ہیں جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں اور بچوں کی ہے۔

گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر ایک گارڈ بیٹھا ہے جس کا فرض بس کو بیرونی اور اندرونی خطرات سے بچانا ہے۔ اس گاڑی کا خزانچی ڈاکہ زنی کا شکار ہو چکا ہے اور لوٹنے والوں کی تلاش جاری ہے۔ کھانے پینے کی ذمہ داری سواریوں کی اپنی ہے جب کہ صرف گارڈ کو ہی مفت کھانے کی سہولت میسر ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی یہ گاڑی سواریوں کی کلی ملکیت ہے تاہم یہ تمام سواریاں منزل مقصود پر پہنچنے کے لیے پہلے صرف ایک اچھے ڈرائیور اور اب ایک اچھے مستری کی تلاش میں ہیں۔ اس اسلامی جمہوری بس کی یہ سواریاں اس ملک کی غریب عوام ہیں جب کہ بڑے بڑے سیاست دان، جرنیل، جج، مولوی، بیوروکریٹس، میڈیا لارڈز، صنعت کار، لینڈ مافیاز اور بدمعاش اپنی لمبی لمبی گاڑیوں میں اس اسلامی جمہوری بس کے ساتھ چل رہے ہیں تاہم ان کے نمائندے ضرور اس بس میں سوار ہیں۔



سفر کی طوالت  اور راستے کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے آج کی حقیقت یہ ہے کہ اب یہ گاڑی مرمت کروائے، پیڑول ڈلوائے اور صحیح راستے کا تعین کیے بغیر منزل تک نہیں پہنچ سکتی۔ پیٹرول ٹینک کی سرخ بتی جل رہی ہے۔ تمام سواریوں کو اتر کر دھکا بھی لگانا پڑ سکتا ہے۔ درجہ حرارت کی سوئی چڑھتی جا رہی ہے، اس لیے ڈرائیور نے اے سی بھی بند کر دیا ہے۔ نوبت اچھے مستری اور تجربہ کار ڈرائیور سے شروع  ہو کر اصلی پرزہ جات اور ادھار کے پیٹرول تک پہنچ چکی ہے۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا دس ماہ میں پتہ چل گیا ہے کہ اس ڈرائیور کو بے شک منزل کا علم ہو مگر اسے نہ ہی اچھے اور موزوں راستے کی خبر ہے اور نہ ہی یہ کسی اچھے مستری کو جانتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ڈرائیور راستے کے لیے رہنمائی لے رہا ہے یا  پھر اس اسلامی جمہوری بس کے راستے اور رفتار کا تعین، گیئر کی تبدیلی کا وقت حتیٰ  کہ بریک کا استعمال فرنٹ سیٹ پر بیٹھے گارڈ کے قابو میں ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے اور کس حد تک؟ پاکستان کی اس چلتی گاڑی میں پیٹرول کی سطح اور مشینی حالت کیسی ہے؟ اس کا اندازہ سواریوں کو تو بالکل بھی نہیں، شاید ڈرائیور یا گارڈ کو اس بارے میں کچھ معلوم ہو تاہم حدود کا تعین مشکل ہے۔ 

اس طرح کے حالات میں آج کا مقبول بیانیہ یہ ہے کہ اس اسلامی جمہوری بس کی حالت زار اور منزل سے دوری کی وجہ اور ذمہ دار وہ شخص ہے جو فرنٹ سیٹ پر وردی پہنے ہتھیار سے لیس بیٹھا ہے۔

الزام یہ ہے اس نے ناصرف ماضی میں دانستہ خاموشی اختیار کی بلکہ پس پردہ ڈرائیور پر بھی اپنی مرضی مسلط کرتا رہا اور آج  نئے ڈرائیور کو بھی اپنی مرضی سے چلا رہا ہے۔



حقیقت میں اس شخص کی حیثیت ایک سواری جیسی ہے۔ فرق یہ ہے کہ وہ اگلی سیٹ پر بیٹھا ہے۔ اس نے ٹکٹ نہیں خریدا اور وہ بلامعاوضہ کھانا کھاتا ہے۔ تمام سواریاں پیسے جوڑ کر اسے تنخواہ بھی دیتی ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ سواریوں کے حالات اور طعنوں سے تنگ آ کر اس گارڈ نے ایک نہیں، تین دفعہ خود گاڑی چلانا شروع کر دی تاہم مصلحت پسندی، لاعلمی اور متعلقہ ناتجربہ کاری کی وجہ سے اسے ڈرائیونگ ترک کرنا پڑی تاہم وہ اگلی سیٹ پر سوار ہونا اپنا فرض اور حق سمجھتا ہے، چاہے ڈرائیور کیسا اور کوئی بھی ہو۔ 

پس یہ ثابت ہوا کے اس گارڈ کو اگرچہ منزل کا پتہ ہے مگر یہ منزل تک کے راستے سے مکمل واقفیت نہیں رکھتا۔ نہ ہی اسے گاڑی کی حالت کا پورا اندازہ ہے اور نہ ہی یہ کسی اچھے مستری کا پتہ جانتا ہے۔ اس کا قصور یہ ہے کہ پیٹرول کی گرتی سوئی اور درجہ حرارت کی چڑھتی سوئی دیکھ کر یا انجن اور بریک کی آواز سن کر یہ ڈرائیور اور سواریوں سے اس بارے میں مشورے شروع کر دیتا ہے جسے بعد میں مرضی مسلط کرنے سے منسوب کیا جاتا ہے حالانکہ گزشتہ گیارہ سال سے اس گارڈ نے اپنے ہتھیار کی گولیاں ڈرائیور کو ضمانت کے طور پر جمع کرا رکھی ہیں۔

آج کے پاکستان کی اس گاڑی میں جہاں ’’کریمینل لا‘‘ کا ترجمہ فوج داری قانون ہے وہاں زمینی حقائق بہت مختلف ہیں۔ اس نظام میں ملزم اور مجرم کے درمیان فیصلہ ختم ہوتے جج اور حکومتیں ہی نہیں، نسلیں بھی بدل جاتی ہیں۔ اس اسلامی جمہوری گاڑی میں حکمرانی اور انصاف کی کرسی پر براجمان ہونے کے لیے جن راستوں اور ایوانوں سے ہوکر گزرنا پڑتا ہے وہاں احسان اور نوازشیں لازم و ملزوم ہیں۔ کمزور مقدمے، جھوٹی گواہیاں، وقتی مجبوریاں، دانستہ نااہلی اور تاخیری حربے منہ چڑاتے ہیں۔



جھگڑا چاہے حمزہ شہباز اور عائشہ احد کا ہو یا حیات رجینسی کے مسائل، شریف برادران اور پسران کی کرپشن ہو یا ضمانتیں یا  پھر زرداری صاحب کی کرپشن کی آواز یا لینڈ مافیا کو ریلیف کی مد میں اربوں کا فائدہ فراہم کرنا ہو، ہمارا نظام نہ کوتاہی کرے گا اور نہ ہی دیر۔

آج کے پاکستان کی اس گاڑی میں جہاں ذاتی، خاندانی اور پارٹی مفاد کی جنگ جاری ہے وہاں عزیر بلوچ، رائو انوار اور عابد باکسر جیسے لوگ کولمبیا اور میکسیکو کے کریمینل مافیاز کا تاثر دیتے ہیں۔ یہ بازی بڑی گاڑیوں میں سوار وہ حضرات کھیل رہے ہیں جن کے مفادات اس وقت خطرے میں ہیں۔ میڈیا پر لگی اخلاقی پابندیوں پر شور اور ردعمل اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ورنہ حقیقت میں ڈرائیور نے ہی گارڈ سے سواریوں کو خاموش کرانے کا کہا ہے تاکہ اس چلتی گاڑی کے انجن سے آنے والی آواز سے اصل مسئلے کا اندازہ لگایا جا سکے۔

بنیادی طور پر آج کے پاکستان میں سہولت کاری، رہنمائی، اختیار اور تسلط  کے زمینی حقائق کو سمجھنے کی ازحد ضرورت ہے۔



اسلامی جمہوری بس کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے سواریوں کو چاہئے کہ شور مچانے کی بجائے ڈرائیور پر بھروسہ کریں اور اس کی بات مانیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، ڈولتی ہوئی معیشت اور لڑھکتا ہوا روپیہ، کیا محض 10 ماہ کی پیداوار ہیں؟ اگر گارڈ کو پتہ ہوتا تو پہلے دو ڈرائیور ہی گاڑی کو منزل تک لے جاتے، وہ تو تب بھی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا۔ وہ صرف رہنمائی کر سکتا ہے، حکمرانی نہیں۔ اگر فرنٹ سیٹ پر بیٹھا شخص ڈرائیور کو قابو کر سکتا تو دنیا میں حادثات کی شرح دس فی صد سے بھی کم ہوتی۔

گارڈ کو چاہئے کہ وہ کسی لٹیرے، دادا گیر یا بدمعاش کو اس بس میں داخل نہ ہونے دے تاہم فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر حاصل تجربے کی بنیاد پر منزل یا راستے کی نشان دہی یا اچھے مستری کے بارے میں معلومات دینے سے گریز کرے۔



ڈرائیور کی ذمہ داری ہے کہ پہلے اچھے مستری سے انجن کی ضروری مرمت کروا لے۔ اُڑتے جہاز اور چلتی گاڑی کی مرمت ہمت اور ہوش سے کرنی پڑتی ہے ورنہ تباہ کن نتائج کا خطرہ ہوتا ہے۔ یہ گارڈ سواریوں کے لیے ہے جب کہ سواریاں گارڈ کی وجہ سے نہیں ہیں۔ اس حقیقت کا علم گارڈ کو تو ہے مگر بد قسمتی سے سواریوں کو کچھ معلوم نہیں۔