ادارتی نوٹ: اس تجزیے کا پہلا حصّہ شائع کیا جا چکا ہے جسے اس لنک پر کلک کر کے پڑھا جا سکتا ہے:
عام انتخابات، ایک غیر جانبدار سیٹ ٹو سیٹ جائزہ
این اے 21 مردان
یہ علاقہ مردان شہر پر مشتمل ہے۔ یہاں کے پرانے سیاسی شہسوار ہوتی خاندان ہیں جو مختلف ادوار میں اسمبلی میں موجود رہے ہیں۔ دو ہزار دو میں یہاں سے ایم ایم اے کے شجاع الملک بھاری اکثریت سے جیتے تھے۔ آٹھ میں اے این پی کے حمایت اللہ مایار فتح یاب ہوئے تھے۔ تیرہ میں سابق وزیر اعلیٰ امیر حیدر ہوتی اے این پی کی مجموعی ناکامی کے باوجود یہاں سے کامیاب ٹھہرے تھے۔ اس دفعہ بھی وہ اے این پی کے ٹکٹ پر امیدوار ہیں۔ ان کا مقابلہ ایم ایم اے کے شجاع الملک اور پی ٹی آئی کے محمد عاطف سے ہے۔ یہاں سے ایک نئی پڑھے لکھے لوگوں پر تشکیل شدہ پاکستان فریڈم موومنٹ کے محمد سید بھی میدان میں ہیں۔ ہمارے اندازے میں ایک آسان مقابلے کے بعد اے این پی کے امیر حیدر خان ہوتی کامیاب ہوں گے۔
این اے 22 مردان
مردان کے دیہی علاقوں پر مشتمل اس حلقے سے دو ہزار دو میں ایم ایم اے کے مولانا محمد قاسم جیتے تھے۔ آٹھ میں بھی وہی اس پلیٹ فارم پر جیتے جبکہ تیرہ میں پی ٹی آئی کے علی محمد خان جیتے تھے۔ حلقوں کے ردوبدل کے بعد علی محمد کو ہی ٹکٹ دیا گیا ہے جبکہ مولانا قاسم ایم ایم اے کے ٹکٹ پر امیدوار ہیں۔ ملک امان اے این پی اور جمشید خان نون لیگ کے امیدوار ہیں۔ یہاں ایک کانٹے دار مقابلہ علی محمد اور مولانا قاسم کے درمیان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ علی محمد کی اپنی شخصیت کا متاثر کن ہونا بھی اس مہم پر بڑا اثر انداز ہوا ہے۔
ہمارے اندازے میں ایک سخت مقابلے کے بعد پی ٹی آئی کے علی محمد ظفر مند رہیں گے۔
این اے 24 چارسدہ
خان عبدالغفار خان کی جنم بھومی اتمان زئی اس حلقے میں واقع ہے۔ حیرت انگیز طور پر کچھ انتخابات میں ولی خان اور اسفند یار ولی یہاں سے ہارے ہیں۔ دو ہزار دو میں یہاں سے ایم ایم اے کے مولانا گوہر شاہ نے اسفند یار ولی کو ہرایا تھا لیکن آٹھ میں اسفند یار ولی یہ سیٹ جیتنے میں کامیاب رہے تھے۔ تیرہ میں پھر مولانا گوہر جمعیت العلمائے اسلام کے ٹکٹ پر یہاں سے کامیاب ہوئے تھے۔ اس دفعہ پھر وہ ایم ایم اے کے امیدوار ہیں۔ اسفند یار ولی کو اپنی سیاسی بقا کے لئے یہ سیٹ جیتنا بہت ضروری ہے جس کے لئے انہوں نے دن رات ایک کیا ہوا ہے۔ نون لیگ کے عامر شاہ، پی ٹی آئی کے فضل خان اور پیپلز پارٹی کے آفتاب عالم کی یہاں سے رسمی شمولیت ہے کیونکہ صحیح مقابلہ اسفند یار اور مولانا گوہر کے درمیان ہے۔
ہمارے اندازے میں ایک بہت کلوز مارجن سے یہ نشست اے این پی کے اسفند یار ولی جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
این اے 23 چارسدہ
حیات محمد خان شیر پاؤ کی بم دھماکے میں وفات کے بعد ان کے فرزند آفتاب احمد خان شیرپاؤ پیپلز پارٹی کے یہاں سے اہم رہنما ابھر کر سامنے آئے تھے۔ دو ہزار دو میں جیتنے کے بعد انہوں نے پیٹریاٹ میں شمولیت اختیار کر کے مشرف کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا۔ آٹھ میں انہوں نے اپنی پارٹی پیپلز پارٹی شیر پاؤ کے پلیٹ فارم سے فتح سمیٹی جبکہ تیرہ میں اس پارٹی کا نام بدل کر قومی وطن پارٹی رکھ دیا گیا جس سے شیرپاؤ نے جیت کر یہاں سے ہیٹ ٹرک کی تھی۔ اس دفعہ ان کے مقابلے میں نون لیگ کی طایرہ بخاری، اے این پی کے گلزار خان اور پی ٹی آئی کے ظفر علی خان مقابل ہیں لیکن یہ سب کسی مقابلے میں نہیں۔
ہمارے اندازے میں قومی وطن پارٹی کے آفتاب احمد خان شیرپاو یہاں سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔
این اے 25 نوشہرہ
نوشہرہ کئی وجوہات کی بنا پر مشہور ہے۔ جماعت اسلامی کے طویل عرصہ تک امیر رہنے والے قاضی حسین احمد، مدرسہ حقانیہ کے منتظم اعلیٰ مولانا سمیع الحق اور پیپلز پارٹی کے کراچی آپریشن کی وجہ سے مشہور سابق وزیر داخلہ میحر جنرل (ر) نصیر اللہ خان بابر اور پی ٹی آئی کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک بھی یہاں سے تعلق رکھتے ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے یہاں کے پچھلے ریکارڈ کے بارے کچھ کہنا مشکل ہے۔ اس دفعہ یہاں سے پی ٹی آئی کے پرویز خٹک، نون لیگ کے سراج خان، پی ٹی آئی (گ) کی عائشہ گلالئی اور پیپلز پارٹی کے خان پرویز میدان میں ہیں۔ ہمادے اندازے کے مطابق ایک آسان مقابلے کے بعد پی ٹی آئی کے پرویز خٹک یہ سیٹ جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
این اے 26 نوشہرہ
یہ مرحوم قاضی حسین احمد کا آبائی حلقہ ہے۔ نوشہرہ کی پہلے دو سیٹیں ہوتی تھیں جو اب بڑھ کر تین ہو گئی ہیں۔ نوشہرہ کا پچھلے تین الیکشنز میں ہر دفعہ ایک نئی پارٹی کو اعتماد دینا نظر آتا ہے۔ دو ہزار دو میں دونوں سیٹیں ایم ایم اے، آٹھ میں اے این پی، پیپلز پارٹی جبکہ تیرہ میں دونوں نشستیں پی ٹی آئی کی جھولی میں گریں۔ اس دفعہ ایسی کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں۔ اس نشست سے قاضی حسین مرحوم کے صاحبزادے آصف لقمان قاضی ایم ایم اے، حاجی نواب نون لیگ، ،عمران خٹک پی ٹی آئی جبکہ فیروز جمال کاکاخیل پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر امیدوار ہیں۔ آصف لقمان اور عمران خٹک کے مابین ایک اچھا مقابلہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ہمارے اندازے میں ایک کلوز مقابلے کے بعد ایم ایم اے کے آصف لقمان قاضی یہ سیٹ جیت جائیں گے۔
این اے 27 پشاور
یہاں ایک بہت دلچسپ سچویشن دیکھنے کو مل رہی ہے۔ نون لیگ کی خاتون امیدوار سابقہ ایم پی اے ثوبیہ شاہد جو کہ دیر سے بھی امیدوار ہیں، وہ یہاں سے بھی نون کی امیدوار ہیں۔ پیپلز پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے والے متمول نور عالم خان پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں۔ پیپلز پارٹی کی تواتر سے ٹی وی شوز میں نظر آنے والی عاصمہ عالمگیر بھی یہاں سے امیدوار ہیں۔ اے این پی کے طاہر ندیم اور ایم ایم اے کے حاجی غلام علی بھی یہاں سے امیدوار ہیں۔ یہاں کا ایک دلچسپ امر ایک آزاد خاتون امیدوار سدرہ قدیم کا انتخابی نشان انار کو لینا ہے۔ یہاں سے دو ہزار آٹھ میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر نور عالم جیت چکے ہیں۔ گو کہ تیرہ کے فاتح پی ٹی آئی کے ساجد علی ٹکٹ نہ ملنے پر نالاں تھے اور ان کا گروپ الیکشن سے لاتعلق ہے لیکن پھر بھی ایک اچھے مارجن سے ہمارے اندازے کے مطابق پی ٹی آئی کے نور عالم جیت جاییں گے۔
این اے 28 پشاور
یہاں دو ہزار دو سے ایم ایم اے کے ٹکٹ پر فاتح صار حسین اعوان کو ایک دفعہ پھر ایم ایم اے کا ٹکٹ دیا گیا ہے۔ ان کا مقابلہ پی ٹی آئی کے ارباب عامر ایوب، نون لیگ کے انتخاب خان اور اے این پی کے شفیع اکبر سے ہے۔ پشاور شہر کی میٹرو کی نامکمل تعمیر اور اس سے ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے عوام پی ٹی آئی سے سخت نالاں ہے۔ یہاں نون لیگ اور اے این پی کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔ ہارون بلور کی شہادت سے اے این پی کو ہمدردی ووٹ کی بھی توقع ہے۔
ہمارے اندازے میں یہ سیٹ ایک کلوز مقابلے کے بعد اے این پی کے شفیع اکبر جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
این اے 29 پشاور
اس حلقے سے سب پارٹیوں نے نئیے امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ نون لیگ نے اپنے صوبائی صدر امیر مقام، اے این پی نے ارباب کمال، پی ٹی آئی کے ناصر خان اور ایم ایم اے کے نعیم جان میدان میں ہیں۔ امیر مقام پرانے سیاستدان مگر اس حلقے میں نئے ہیں۔ ان کے پاس مگر جوڑ توڑ کا وسیع تجربہ ہے۔ اسی تجربے کے پیش نظر ہمارے اندازے کے مطابق نون لیگ کے امیر مقام یہاں سے فاتح ٹھہریں گے۔
این اے 30 پشاور
اس حلقے سے دو دفعہ منتخب ہو کر وفاقی وزیر بننے والے پیپلز پارٹی کے ارباب عالمگیر ایک دفعہ پھر پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں۔ ایم ایم اے کے ارباب نجیب اللہ جبکہ پی ٹی آئی نے ارباب شیر اللہ کو میدان میں اتارا ہے۔ نون لیگ نے ایک غیر معروف محمد جنید کو ٹکٹ دیا ہے۔ اس حلقے میں ارباب قبیلے کی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے اس لئے سب پارٹیوں نے اپنے امیدوار اسی فیملی سے لانے کی کوشش کی ہے۔ گذشتہ انتخابی تجربے اور پی ٹی آئی کی شہر میں ناقص پرفارمنس کی وجہ سے ہمارے اندازے میں یہ سیٹ پیپلز پارٹی کے ارباب عالمگیر کو جائے گی۔
این اے 31 پشاور
یہ وہ مشہور حلقہ ہے جہاں سے عوامی نیشنل پارٹی کے غلام احمد بلور بڑے بڑے قومی لیڈران بشمول بے نظیر بھٹو کو بھی شکست دیتے رہے ہیں۔ صرف دو ہزار دو اور تیرہ میں انہیں ایم ایم اے اور عمران خان کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن تیرہ میں صرف دو مہینے بعد ضمنی الیکشن میں انہوں نے یہ سیٹ جیت لی۔ اس دفعہ یہاں سے اے این پی کے غلام احمد بلور پی ٹی آئی کے شوکت علی، نون لیگ کے محمد ندیم، صدیق الرحمان ایم ایم اے کے اور نقاب پوش تحریک لبیک کی امیدوار یاسمین بھی میدان میں ہیں۔ ایک آسان مقابلے کے بعد ہمارے اندازے میں یہ سیٹ اے این پی کے غلام احمد بلور جیت جائیں گے۔
این اے 32 کوہاٹ
درہ آدم خیل اور ملحقہ کوہاٹ ضلع پر پھیلے ہوئے اس علاقے سے پی ٹی آئی نے اپنے سابقہ ایم این اے شہریار آفریدی کو دوبارہ ٹکٹ دیا ہے۔ دو ہزار دو میں یہاں سے ایم ایم اے کے مفتی ابرار اور آٹھ میں اے این پی کے پیر دلاور شاہ منتخب ہوئے تھے۔ اس دفعہ نون لیگ کے عباس آفریدی، ایم ایم اے کے گوہر بنگش، پیپلز پارٹی کے بسم اللہ خان میدان میں ہیں۔ شہریار آفریدی دو ہزار دو سے انتخابی مہم کا حصہ بن رہے ہیں اور انتخابات کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں؛ ان کے مقابلے میں نون لیگ کے عباس آفریدی بھی ایک متمول اور مضبوط امیدوار ہیں۔ آفریدیوں کے ووٹ تقسیم ہونے سے ایم ایم اے بھی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ یہاں ایک اچھا مقابلہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
ہمارے اندازے میں ایک اچھے مقابلے کے بعد پی ٹی آئی کے شہریار آفریدی یہاں سے فتح یاب ہوں گے۔
این اے 33 ہنگو
اعتزاز شہید سے منسوب ہنگو بھی ماضی میں ہولناک جنگی دور سے گزرا ہے۔ اس سے ملحقہ اورکزئی ایجنسی اور کرم ایجنسی خونریز جنگ کے دور دیکھ چکے تھے۔ دو ہزار دو میں یہاں سے ایم ایم اے کے اخونزادہ محمد صادق جیتے تھے، آٹھ میں اے این پی کے حیدر علی شاہ جبکہ تیرہ میں پی ٹی آئی کے خیال زمان اورکزئی جیتے تھے۔ پی ٹی آئی نے اس دفعہ پھر خیال زمان کو ہی ٹکٹ دیا ہے۔ اے این پی نے سابقہ ایم این اے حیدر علی شاہ کو ٹکٹ دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے الفت حسین اور ایم ایم اے کے عتیق الرحمان بھی میدان میں ہیں۔ دہشت گردی پر پی ٹی آئی کا واضح مؤقف نہ ہونے کی وجہ سے یہ سیٹ پی ٹی آئی کے ہاتھ سے سرکتی دکھائی دے رہی ہے۔
ہمارے اندازے میں اس حلقے سے اے این پی کے حیدر علی شاہ فتحیاب ہوں گے۔
این اے 34 کرک
کرک آئل فیلڈ اور گیس کے وسیع ذخائر کے ہوتے ہوئے انتہائی پسماندہ ضلع کرک میں اس دفعہ ایک دلچسپ صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے۔ دو ہزار دو میں یہاں سے ایم ایم اے کے شاہ عبدالعزیز (لال مسجد فیم) جیتے تھے۔ اس الیکشن میں عمران خان نے بھی یہاں سے الیکشن لڑا تھا اور نو ہزار ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے تھے۔ آٹھ میں ایم ایم اے کے مفتی اجمل خان جبکہ تیرہ میں پی ٹی آئی کے ناصر خٹک جیتے تھے۔ پی ٹی آئی نے اس دفعہ اپنا امیدوار تبدیل کیا ہے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے شاہد خٹک کو ٹکٹ دیا ہے۔ شاہد موٹر سائیکل پر اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں نون کےرحمت سلام خٹک، جیپ کے سوار شمس الرحمان خٹک، جمعیت العلمائے اسلام س کے شاہ عبدالعزیز مقابلے میں ہیں۔ حالیہ دنوں میں عمران خان کے یہاں جلسے اور اس میں شاہد خٹک کو پڑنے والے تھپڑ کی گونج پورے ملک میں سنی گئی۔
ہمارے اندازے میں بھاری اکثریت سے یہ سیٹ پی ٹی آئی کے شاہد خٹک جیت جائیں گے۔
این اے 35 بنوں
ہاکی کے مشہور کھلاڑی قاضی محب اور بنوں وولن ملز سے شہرت رکھنے والے اس حلقے سے دو ہزار دو میں ایم ایم اے کے مولانا نصیب علی شاہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے۔ آٹھ میں ایم ایم اے کے ہی مولانا فضل الرحمان جبکہ تیرہ میں بھی مولانا بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ مولانا کا آبائی علاقہ ڈی آئی خان ہے مگر وہ یہاں سے مسلسل جیتتے آئے ہیں۔ اس دفعہ مولانا کی بجاے سابق وزیر اعلیٰ اکرم درانی ایم ایم اے کے امیدوار ہیں۔ ان کے مقابلے میں پی ایس پی کے عبدالصمد خان، پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان، پیپلز پارٹی کی یاسمین صفدر مد مقابل ہیں۔ اکرم درانی نے اپنے دور حکومت میں یہاں بہت ترقیاتی کام کرائے جن کی وجہ سے ان کی حلقے میں اچھی شہرت ہے۔ عمران خان نے اس حلقے کو اپنے ایک بھی دورے کے قابل نہیں سمجھا جس کی وجہ سے ان کی یہاں سے شکست نوشتہ دیوار ہے۔
ہمارے اندازے کے مطابق یہاں سے ایم ایم اے کے اکرم خان درانی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جائیں گے۔
این اے 36 لکی مروت
صوبے کے سب سے بڑے ضلع ڈی آئی خان سے ملحقہ چھوٹا سا ضلع لکی مروت بھی قبائلی ایجنسی ساؤتھ وزیرستان کا ہمسایہ ہے۔ سابق صدر اسحاق خان کے داماد سیف اللہ خاندان کا یہ آبائی ضلع ہے۔ دو ہزار دو میں یہاں سے ایم ایم اے کے مولانا امان اللہ جیتے تھے، آٹھ میں قاف لیگ کے ہمایوں سیف اللہ جبکہ تیرہ میں مولانا فضل الرحمان منتخب ہوئے تھے۔ اس دفعہ یہاں سے پی ٹی آئی کے اشفاق احمد خان، پیپلز پارٹی کے انعام اللہ، نون لیگ کے عمران اللہ خان جبکہ ایم ایم اے کے محمد انور یہاں سے امیدوار ہیں۔
ہمارے اندازے میں یہ سیٹ ایم ایم اے کے محمد انور جیت جائیں گے۔
این اے 37 ٹانک
نواب آف ٹانک کی ایک زمانے میں دہشت سے خوفزدہ اس سیٹ سے دو ہزار دو میں ایم ایم اے کے مولانا فضل الرحمان جیتے، آٹھ میں ایم ایم اے کے ہی عطاالرحمان جبکہ تیرہ میں مولانا فضل ارحمان ایک بار پھر جیتے تھے۔ اس دفعہ یہاں سے حیرت انگیز طور پر اپنا حلقہ اور پارٹی چھوڑ کر سابق ڈپٹی سپیکر اسمبلی فیصل کریم کنڈی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے حبیب اللہ خان، ایم ایم اے نے مولانا فضل الرحمان کے صاحبزادے اسعد محمود، نون لیگ نے سمیع اللہ برکی کو ٹکٹ دیا ہے۔ ایک جیپ سوار محمد ایوب خان بھی یہاں سے امیدوار ہیں۔ یہاں کافی حد تک ایک یکطرفہ مقابلہ ہے اور ہمارے اندازے میں یہاں سے ایم ایم اے کے اسعد محمود با آسانی جیت جائیں گے۔
این اے 38 ڈی آی خان
مولانا فضل الرحمان کا یہ آبائی علاقہ ہے جہاں سے دو ہزار دو اور تیرہ میں وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے۔ آٹھ میں پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی یہاں سے منتخب ہو کر ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ اب یہ حلقہ دو میں تقسیم ہو چکا ہے۔ اس دفعہ نون لیگ کے اختر سعید، (شہد فیم) علی امین گنڈا پور پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں، پیپلز پارٹی کے فیصل کنڈی، ایم ایم اے کے مولانا فضل الرحمان جبکہ حفیظ اللہ تحریک لبیک کے امیدوار ہیں۔ یہاں ایک یکطرفہ مقابلہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
ہمارے اندازے میں یہاں سے ایم ایم اے کے مولانا فضل الرحمان جیت جاییں گے۔
این اے 39 ڈی آئی خان
یہ نیا حلقہ ہے۔ ادھر بھی حیرت انگیز طور پر فیصل کریم کنڈی نے پیپلز پارٹی کی بجائے آزاد لڑنے کو ترجیح دی ہے۔ گو پی ٹی آئی کے یعقوب شیخ، جیپ سوار عصمت اللہ بھی میدان میں ہیں لیکن ہمارے اندازے میں یہ سیٹ ایم ایم اے کے مولانا فضل الرحمان با آسانی جیت جائیں گے۔
این اے 40 سے 49 قبائلی علاقہ جات
ادھر آخری دفعہ قبائلی حد بندیوں کے تحت الیکشن ہو رہے ہیں۔ اگلی دفعہ سے ضلعی بنیادوں پر ہوا کریں گے۔ یہاں آزاد امیدواران ہی جیتتے ہیں۔ پچھلی دفعہ حیرت انگیز طور پر نون لیگ کے دو اور پی ٹی آئی کے ایک امیدوار بھی یہاں سے کامیاب ہوئے تھے۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہی پوزیشن اس دفعہ بھی رہے گی۔ نون لیگ دو، پی ٹی آئی ایک اور سات آزاد۔
ٹوٹل
پی ٹی آئی 13
مسلم لیگ نواز 12
ایم ایم اے 9
آزاد 8
اے این پی 6
قومی وطن پارٹی 1
(جاری ہے)
سید جواد احمد لاہور میں مقیم محقق اور تجزیہ نگار ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقوں پر دو کتب لکھ چکے ہیں۔