سُننے تو جسٹس قاضی فائز عیسی کی فُل کورٹ کے سامنے زیرِ سماعت آئینی درخواست گیا تھا لیکن جب سماعت کے اختتامی کلمات میں فُل کورٹ کے سربراہ عمر عطا بندیال نے اشارہ دیا کہ اِس کیس کے بعد لارجر بینچ نے اہم آئینی درخواستوں کی سماعت کرنی ہے تو انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹربیون سے وابستہ سینئر صحافی حسنات ملک نے کہا کہ اصل کیس کی سماعت اب ہوگی اور وہ بھی سُن کر جانا۔ دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں حراستی مراکز کیس میں وفاق کی اپیلوں کی سماعت لارجر بینچ کررہا ہے جِس میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ساتھ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی موجود ہوں گے۔ یہ سُنا تو سُپریم کورٹ میں ہی رُکنے کا فیصلہ کیا۔ قائرین کو بتاتا چلوں اپنے شوق کی خاطر بڑے کیسز کی سُپریم کورٹ میں سماعت کی کوریج کرنے جاتا ہوں، نوٹس لیتا ہوں اور وقت ملے تو خبر بھی بنا دیتا ہوں۔ جِس کیس میں دلچپسی ہو کوشش کرتا ہوں اُسکی تمام سماعتوں میں موجود ہوں۔ آج کل جسٹس قاضی فائز عیسی کی آئینی درخواستوں کی سماعت کو فالو کر رہا ہوں۔
بہرحال سُپریم کورٹ کی عمارت میں کورٹ روم نمبر ون میں آواز لگی کہ کورٹ آگئی ہے تو کمرہِ عدالت میں داخل ہونے والے ججز دیکھ کر جِسم میں سنسنی دوڑ گئی۔ پانچ رُکنی لارجر بینچ جِن ججز پر مُشتمل تھا وہ تشکیل بہت دلچسپ تھی اور شاید معنی خیز بھی۔ لارجر بینچ کے سربراہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے دائیں ہاتھ اُن کے بعد بیس دسمبر کو چیف جسٹس کا حلف اُٹھانے والے جسٹس گُلزار احمد تھے اور جسٹس گُلزار کے ساتھ اُن کی ریٹائرمنٹ پر یکم فروری دو ہزار بائیس کو چیف جسٹس بننے والے جسٹس عُمر عطا بندیال بیٹھے تھے جبکہ چیف جسٹس کھوسہ کے بائیں طرف سنیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر براجمان جسٹس مُشیر عالم اور اُن سے اگلی نشت پر سولہ ستمبر دو ہزار تیئس کو چیف جسٹس بننے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بیٹھے تھے۔ پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لیے بتاتا چلوں کہ یہ بینچ اِس لیے انتہائی دلچسپ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سُپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس آنے کے بعد اِس بینچ میں شامل تمام ججز کسی ناں کسی صورت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سامنے آکھڑے ہوئے ہیں۔
لارجر بینچ کے تین ججز چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس گُلزار احمد اور جسٹس مُشیر عالم سُپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کررہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ جو کہ لارجر بینچ کی سربراہی بھی کررہے پر اپنے خلاف تعصب کا سنگین الزام لگا کر عدم اعتماد کررکھا ہے۔ اِسی طرح لارجر بینچ کے چوتھے رُکن جسٹس عُمر عطا بندیال سپریم جوڈیشل کونسل میں زیرِ سماعت صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آئینی درخواستوں کی سماعت کرنے والے دس رُکنی فُل کورٹ کے سربراہ ہیں۔ جبکہ لارجر بینچ کے اِن چاروں ججز کے کٹہرے میں کھڑے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آج اِن ججز کے ساتھ لارجر بینچ کا حصہ تھے۔
سُپریم کورٹ کی دہائیوں سے کوریج کرنے والے مطیع اللہ جان، قیوم صدیقی، ناصر اقبال، ٹیرنس، حسنات ملک اور شہزاد خان جیسے دیوتاؤں کے سامنے خود کو ایک چھوٹی سی مورتی سمجھتا ہوں لیکن پھر بھی اپنے طور پر ججز کے ریمارکس اور باڈی لینگوئج کو رقم کر دیتا ہوں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمرہِ عدالت میں داخل ہونے سے لے کر بیٹھنے تک انتہائی سنجیدہ تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بیٹھنے کے بعد ایک نظر بائیں جانب کمرہِ عدالت پر ڈالی اور پھر ہلکا سا جُھک کر اپنے بائیں جانب کُرسی کے نیچے کُچھ دیکھنے کی کوشش کی۔ پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور وُکلا کے لیے مُختص روسٹرم پر کھڑے ہو گئے تو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مُسکراتے ہوئے پوچھا” مِسٹر اٹارنی جنرل آپ اپنے دلائل کا آغاز نوٹس موصول نہ ہونے سے کریں گے یا سیدھا پشاور ہائیکورٹ کے فیصلہ پر حملہ آور ہوں گے؟“ لیکن اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور خان نے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ظاہر کیے گئے اہداف کو نظر انداز کرتے ہوئے لارجر بینچ کے رُکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر نشانہ باندھنا مُناسب سمجھا۔
اٹارنی جنرل گویا ہوئے کہ ”مائی لارڈ شِپ مُجھے آپ کے بینچ پر اعتراض ہے“۔ اٹارنی جنرل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نام لیے بغیر کہا کہ ”بینچ کے ایک رُکن نے میری ذات پر، وزیراعظم اور صدر پر سنگین الزامات لگا رکھے ہیں“۔ ہم سب کی نظریں بے اختیار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر جم گئیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چہرے پر کوئی تاثرات نہیں تھے وہ انتہائی سنجیدہ چہرے کے ساتھ اپنے سامنے موجود فائلوں پر نظریں جمائے ہوئے تھے اور اٹارنی جنرل کی طرف نہیں دیکھ رہے تھے۔ اٹارنی جنرل نے لارجر بینچ کی طرف سے کوئی ری ایکشن نہ پا کر ایک اور وار کیا۔ اب اٹارنی جنرل کا کہنا تھا ”بینچ کے رُکن جج کا میرے خلاف، وزیراعظم اور صدر کے خلاف واضح تعصب ایک پیٹیشن کی صورت میں موجود ہے۔“
اب لارجر بینچ کے سربراہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دئیے کہ ایک کیس کی بُنیاد پر آپ کسی جج کی نیت پر شک نہیں کرسکتے۔
جسٹس مُشیر عالم نے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ لارجر بینچ جِس کیس کی سماعت کررہا وہ کسی شخصیت یا عہدیدار کے خلاف نہیں ہے بلکہ وفاق کے خلاف ہے تو اگر کوئی شخصیت یا عہدیدار کیس میں فریق نہیں تو آپ کیوں اعتراض کر رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے اپنا الزام دہراتے ہوئے پاک فوج کا بھی ذکر کر ڈالا اور کہا کہ بینچ کے رُکن جج کی جانب سے مُجھ پر، پاک فوج، صدر اور وزیراعظم کے خلاف سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔
اب کی بار جسٹس گُلزار احمد نے جواب دیا اور کہا کہ ہمارے سامنے موجود کیس آپ کا کوئی ذاتی معاملہ نہیں ہے جو آپ ایسی بے چینی کا اظہار کریں۔
اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور پھر بولے کہ جی نہیں میں بہت تکلیف محسوس کر رہا ہوں، کیونکہ یہاں بینچ کے ایک رُکن کا میرے اور مُلک کے وُزرا کے خلاف واضح تعصب موجود ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آبزرویشن دی کہ بینچ کے کسی رُکن پر اعتراض کر کے اُس کو بینچ سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ رُکن جج خود بینچ سے الگ ہونے کا فیصلہ نہیں کرتا۔
اٹارنی جنرل کے اپنے خلاف جُملے سُنتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سنجیدہ چہرے کے ساتھ خاموش بیٹھے تھے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اِس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی لارجر بینچ میں موجودگی کی وضاحت دیتے ہوئے بتایا کہ جب جنوری میں چیف جسٹس ثاقب نثار کے الوداعی ریفرنس سے میں نے خطاب کیا تھا تو اپنا وژن بیان کرتے ہوئے میں نے تب ہی بتا دیا تھا کہ آج کے بعد اہم آئینی امور کی سماعت کے لیے سُپریم کورٹ کے سینیئر ترین ججز کا لارجر بینچ بنا کرے گا۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دئیے کہ جِس جج پر اعتراض کیا جاتا ہے اگر اُس کو لگے کہ کیس سُنتے ہوئے اُس کو کسی قسم کی شرمندگی کا سامنا ہے تو وہ بینچ سے علیحدہ ہو جاتا ہے لیکن یہاں انوکھا معاملہ ہے اٹارنی جنرل شرمندگی کا اظہار کر رہا ہے۔
اٹارنی جنرل نے اپنے اعتراض پر اصرار کرتے ہوئے دہرایا کہ بینچ کے رُکن ایک جج کا ذہن پہلے سے ہی میرے خلاف بنا ہوا ہے اور وہ میری اہلیت پر بھی سنگین الزامات لگا چُکے ہیں کہ میں نے غلط بیانی کی۔
اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ جِس جج نے مُلک کے وزیراعظم اور صدر کے خلاف مُقدمہ کر رکھا ہو، وہ کیسے کُھلے ذہن کے ساتھ کیس سُن سکتا ہے۔
اٹارنی جنرل کو ڈٹا دیکھ کر جسٹس گُلزار احمد نے سوال پوچھا کہ اگر ہم آرڈر پاس کر دیں کہ یہی لارجر بینچ کیس سُنے کا تو آپ کا ردِعمل کیا ہو گا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ اعتراض کے ساتھ اپنے دلائل کا آغاز کریں گے۔
اٹارنی جنرل کے ساتھ سُپریم جوڈیشل کونسل کے رُکن تینوں ججز تو مکالمہ کررہے تھے لیکن جسٹس عُمر عطا بندیال اپنے ساتھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دفاع میں ایک لفظ نہیں بولے۔
قارئین کی دِلچسپی کے لیے بتاتا چلوں کے جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل مُنیر اے ملک نے جسٹس عُمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم لارجر بینچ کے دو ججز پر اعتراض کیا تھا تو جسٹس عُمر عطا بندیال نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے قریباً نصف گھنٹے تک اپنے ساتھی ججز کی بینچ میں موجودگی کا بھرپور دفاع کیا تھا لیکن آج جسٹس عُمر عطا بندیال خاموشی سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اٹارنی جنرل کے اعتراضات سُنتے رہے۔
اٹارنی جنرل کے مُسلسل اعتراضات کے بعد جسٹس مُشیر عالم نے چیف جسٹس سے آہستہ سے کان میں کُچھ کہا جِس کے بعد لارجر بینچ کے سربراہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ جُھک کر اپنے بائیں ہاتھ پر موجود جسٹس مُشیر عالم تک آئے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے بظاہر اٹارنی جنرل کے الزمات پر ردِعمل پوچھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ معمولی سا چیف جسٹس کی طرف جُھکے اور واضح طور پر دیکھا جاسکتا تھا کہ انہوں نے دو سے تین الفاظ میں جواب دیا اور سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔
چند سیکینڈ کی اِس مُشاورت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے چہرے پر کوئی اضطراب نہیں تھا۔ چیف جسٹس سیدھے ہوئے اور انہوں نے اٹارنی جنرل کو مُخاطب کر کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ سُنا دیا۔
چیف جسٹس نے اعلان کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینچ سے علیحدہ نہیں ہونا چاہتے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ایسی صورت میں وہ درخواست کریں گے کہ سماعت مُلتوی کر دی جائے۔ چیف جسٹس نے ردِعمل دیا کہ یہ اہم آئینی درخواست ہے اور اگر آپ آج دلائل نہیں دینا چاہتے تو ہم دیگر درخواست گزاروں کو دلائل کا موقع دے دیتے ہیں آپ کو بعد میں سُن لیں گے۔
پھر خیبر پختونخوا میں حراستی مراکز کے خلاف درخواستگزار سابق سینیٹرز فرحت اللہ بابر، افراسیاب خٹک اور بُشریٰ گوہر کے وکیل کو روسٹرم پر آنے کی دعوت دی گئی۔ ڈیڑھ گھنٹے کی سماعت کے دوران بشمول جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تمام ججز نے اعتماد کے ساتھ ریمارکس دئیے اور سوالات پوچھے۔
سماعت کے اختتام پر لارجر بینچ کے سربراہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل کو خصوصی طور پر روسٹرم پر بُلا کر ریمارکس دئیے کہ مِسٹر اٹارنی جنرل! آپ دوبارہ یہ اعتراض مت کیجئیے گا کہ فلاں جج نے کیس کر رکھا ہے، ہم ججز نے آئین کے تحت حلف لے رکھا ہے کہ ہم کسی بھی ذاتی تعصب اور وابستگی کا اَثر لیے بغیر صرف آئین اور قانون کی بُنیاد پر فیصلہ کریں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اٹارنی جنرل کا حملہ ناکام ہو چُکا تھا لیکن میرے لیے دِلچسپی کی بات یہ تھی کہ جِس چیف جسٹس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بیانِ حلفی داخل کر رکھا ہے، اُنہیں تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اپنے بینچ میں شامل کرنے سے مسئلہ نہیں لیکن وفاق کے نمائندہ کو لارجر بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی موجودگی پر اعتراض تھا۔
شاید اٹارنی جنرل آج یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ اگر مُستقبل کے تشکیل دئیے گئے مبینہ خاکے کے مطابق اگر صدارتی ریفرنس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہٹانے میں ناکام بھی رہا تو وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اعتراضات کر کے اُنکو وفاق کے تمام کیسز سے علیحدہ کرواتے رہیں گے لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی اپنی ثابت قدمی سے واضح کر دیا کہ وہ خود کو زِچ کرنے کی کسی بھی حکومتی کوشش کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔