محل میں ظل سبحانی اپنے درباریوں کے ہمراہ مشاورت کر رہے ہیں۔ وہیں کوئی بھیدی بھی اپنے کانوں میں ان کے احکامات کو محفوظ کر رہا ہے۔ جب وہ یہ بھید اقتدار کے ایوانوں سے بغاوت کے تہہ خانوں تک پہنچاتا ہے تو ایک ہلچل برپا ہوتی ہے۔ محل کی دیواروں پر کان لگانے والے اس بھیدی کو دھر لیا جاتا ہے اور ایک اذیت ناک سزا سنائی جاتی ہے۔ پندرھویں صدی میں پرنٹنگ پریس اور اشاعت کا تصور نہیں تھا۔ سب کچھ زبانی تھا۔ لیکن جب چھاپہ خانہ ایجاد ہوا تو پھر اشاعت پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ کتاب اور اخبار شائع ہونا شروع ہوئے تو الفاظ پر کڑی نگاہ رکھنے والا محکمہ بھی ساتھ ہی بن چکا تھا۔ غرض اقتدار اور 'جوں کی توں' صورت حال کو برقرار رکھنے کے لیے کئی ایک قوانین بنائے گئے اور ضابطے تراشے گئے۔
تاریخ کے اوراق کو اپنی درست صورت میں باقی رکھنے والی رپورٹس اور ان کو لکھنے والوں کو ہمیشہ یاد رکھا گیا ہے۔ آج خبر کے ماخذ جہاں سے پھوٹتے ہیں، وہاں چنگاریاں نکلتی ہیں۔ آگ برستی ہے اور موت کے پروانے منڈلاتے ہیں۔ ریلی جا رہی ہے، جلوس آ رہا ہے، کچھ دیر میں خطاب ہونے والا ہے، وہاں موقع پر موجود میڈیا ہائی الرٹ ہے لیکن ان سب ظاہری عوامل کے پس پردہ ڈرائنگ روم، بند کمروں اور غلام گردشوں میں کیا سرگوشیا ں ہو رہی ہیں اور کیا کچھ طے پایا جا رہا ہے یا طے پا چکا ہے، وہی ان کہی ہے۔ ہم جو کچھ دیکھ اور سن رہے ہیں، وہ حقیقت نہیں ہے۔ حقیقت وہ ہے جو نظر نہیں آ رہی، اسی کی کھوج ایک ذمہ دار صحافی اور تحقیقاتی خبر نگار کی پہچان ہوتی ہے۔ بین الاقوامی طور پر ایسے کئی رپورٹرز کی رپورٹس جب منظرعام پر آئیں تو ایک تہلکہ مچ گیا۔ تردید و تصدیق کا طوفان برپا ہوا۔
سفید رنگ، روشن آنکھیں اور نکلتا ہوا قد، تیز رفتاری سے موٹر سائیکل کو بھگاتا ہوا اپنے متعین راستوں پر رواں دواں۔ وہ اسم بامسمٰی ہے۔ اخلاق احمد باجوہ جو سر تا پا خلوص و دوست نواز ہے۔ اپنی تعلیم لاہور میں مکمل کی۔ پی آر سکول سے میٹرک کرنے کے بعد دیال سنگھ کالج سے انٹر کا امتحان پاس کیا اور پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ تلاش روزگار کے لیے پانچ ممالک، ہانگ کانگ، سنگا پور، جاپان، تائیوان اور امریکہ گئے۔ کاروبار میں بھی قسمت آزمائی لیکن کہیں ان کے نہاں خانہ دل میں ایک صحافی کروٹیں لے رہا تھا۔ چنانچہ 1988 میں ظفر یاب مرحوم اور سینیئر صحافی حسین نقی نے پنجابی اخبار 'سجن' کا اجرا کیا تو اخلاق احمد باجوہ نے اس اخبار کے لیے بطور رپورٹر کام کیا۔
اخلاق احمد باجوہ نے بیرون ملک سے واپسی کے بعد روزنامہ 'انصاف' کو جوائن کیا۔ اس کے بعد کچھ عرصہ ایک ہفت روزہ میگزین میں کام کرنے کے بعد لاہور ہی کے ایک روزنامہ 'سرزمین' میں بھی کام کیا۔ اس کے بعد روزنامہ 'اساس' میں کام کرتے ہوئے ان کا شوق اور لگاؤ انتہا کو چھونے لگے۔ روزنامہ آج کل، پنجاب ٹی وی اور ڈبلیو ٹی وی سے ہوتے ہوئے پیشہ ورانہ امور سے مکمل طور پر لیس اخلاق احمد باجوہ نے ایک بڑے میڈیا گروپ 'لاہور نیوز' کو جوائن کر لیا اور اسی گروپ کے اخبار میں سینیئر سیاسی رپورٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ یوں وہ چھوٹے چھوٹے دائروں سے نکل کر ایک بڑے دائرے میں آ گئے۔ ان کی رپورٹس پذیرائی حاصل کرنے لگیں۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی آویزیش، جلوس، بڑے اعلانات، پراکسی وار، پس پردہ حقائق پر ان کی تیز نگاہ نے ان کے قلم اور آواز کو جلا بخشی۔
سوال: آپ کے خیال میں خبر کیسے ملتی ہے؟
اخلاق احمد باجوہ: آپ کو اپنا ذریعہ یعنی source بھی دینا ہوتا ہے کہ وہ کتنا معتبر ہے، ہوا میں تیر نہیں چلانا ہوتا، نہ ہی کوئی ایسی بات زبان یا قلم کے سپرد کی جا سکتی ہے جس کا حقیت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہ ہو۔ کاؤنٹر چیک آپ کریں وگرنہ وہ خود بخود ہو جاتا ہے جو غلط ثابت ہونے پر آپ کے کریئر کو ڈبو سکتا ہے۔
س: سب سے بہتر خبر کون سی ہوتی ہے؟
ج: میرے خیال میں ڈیٹا بیس خبر سب سے بہتر ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں رپورٹر کا قلم کیمرے کی تصویر کی مانند ہوتا ہے۔ خیال آرائی یا مفروضہ ایک رپورٹر کے پیشے کو ختم کر دیتا ہے۔ خواہش کبھی خبر نہیں بنتی۔ سچ اور حقیقت کے ماسوا کسی کا ترجمان بننا ایک صحافی کے لیے زہر ہوتا ہے۔ آج صحافت 100 فیصد کاروبار بن چکا ہے۔ ایک بڑے میڈیا مالک کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ صحافت کاروبار ہے۔ میرے خیال میں 1970 کی دہائی تک صحافت ایک مشن تھا۔ آج اس 'میڈیا منڈی' میں معدودے چند صحافیوں نے صحافت کو کاروبار نہیں بلکہ مشن بنایا ہوا ہے۔
س: اتنا عرصہ جرنلزم کرتے ہوئے کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟
ج: میں گاڑی پر آیا تھا۔ آج موٹر سائیکل پر ہوں۔ میری فیملی اور بچے ہیں۔ ان کی ضروریات میری عمدہ خبروں سے پوری نہیں ہوتیں۔ ہمیں سوشل سکیورٹی کی ضرورت ہے۔ ہر فرد کی معاشی طور پر خوشحال زندگی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ یہاں 'لفافہ جرنلزم' یا 'زرد صحافت' کا تذکرہ ضروری ہے۔ سیاست اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر کوئی تحقیقاتی رپورٹر اپنی وابستگی کو ظاہر کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ 'لفافہ جرنلزم' کا شکار ہو چکا ہے۔ کل تک میڈیا ہاؤسز کے نیوز رومز میں تحفے تحائف جاتے تھے۔ آج کا نوجوان صحافی بہت بڑے جذبے کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ اسے اپنی صلاحیتوں کو منوانے کا جنون ہے۔ ان کے قدم کبھی نہیں ڈگمگاتے۔ میں نام نہیں گنوانا چاہتا۔ ان کے نام ہی ان کے ایمان کی گواہی ہیں۔
س: آئندہ دور صحافت کے لیے کس حد تک سودمند ثابت ہو گا؟
ج: میرا خیال ہے کہ اگلا دور سوشل میڈیا کا دور ہے۔ مین سٹریم میڈیا پر نہ آنے والی خبر اب سوشل میڈیا کی زینت بنتی ہے۔ ٹوئٹر، یوٹیوب، فیس بک اور اب ٹک ٹاک۔ یہ مختلف میڈیم ہیں جن پر اظہار رائے کی آزادی ہے، جو کسی بھی پابندی کو خاطر میں نہیں لاتے۔
س: ایک پیشہ ور صحافی اور آج کی صحافت کے بارے میں آپ کا نقطہ نظر کیا ہے؟
ج: اگرچہ صحافت ایک پُرکشش پیشہ ہے، اسے آئیڈیلائز کیا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ باقاعدہ پراسس ہو کے ایک اچھا صحافی بنتا ہے۔ اردو اور انگریزی صحافت میں بہت فرق ہے۔ 'یہ اچھا ہے' اور 'وہ برا ہے' والی بات نہیں ہے۔ زبان کا طاقتور ہونا معنی کی کئی پرتوں کو اجاگر کرتا ہے۔ حقیقت تک پہنچنے، پیچیدہ صورت حال اور کسی شخصیت کی سوچ اور فکر کو بیاں کرنے کے لیے زبان اہم رول ادا کرتی ہے۔ میرے خیال میں انگریزی میدان میں بہت بامعنی اور عمدہ صحافت ہو رہی ہے۔
س: کون سی کتابیں اور شخصیات آپ کے زیر مطالعہ رہتی ہیں؟
ج: مجھے ذاتی طور پر حبیب جالب کی شخصیت اور شاعری بہت پسند ہے۔ فیض احمد فیض کو بہت پڑھا اور ان کی کرشماتی شخصیت کا مطالعہ کر کے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔ صحافیوں اور کالم نگاروں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے آمرانہ اور کٹھن ادوار میں صحافت کو اپنے لہو سے سینچا ہے۔
س: آپ کی ترجیحات کیا ہیں؟
ج: میری ترجیحات میں سب سے پہلے پاکستان، اس کے بعد ادارے، اقلیتیں، اور بطور خاص وہ ادارہ جس میں آپ کام کر رہے ہیں، از بس اہم ہیں۔ ان کی پالیسی اور نظریات کے ساتھ میرا عہد اور یقین ہمیشہ قائم دائم ہے۔
س: کیا پیش گوئی کر سکتے ہیں؟
ج: میں ایک تحقیقاتی رپورٹر ہوں، کوئی ڈاکٹر نہیں ہوں اور نہ ہی کوئی سیاسی ورکر ہوں۔ میں اپنا ووٹ ظاہر نہیں کر سکتا اور نہ ہی مجھے کرنا چاہئیے۔ یہ میرے پیشے کے حلف سے روگردانی کے مترادف ہو گا۔ افسوس ناک خبریں بہت ساری آتی ہیں۔ 1960 کی دہائی میں پاکستانیوں نے مڈل ایسٹ اور یورپ کا رخ کیا اور 1947 میں جن لوگوں نے کسی اچھے مستقبل اور ایک خواب کی تعبیر پانے کے لیے اپنی دھرتی پر قدم رکھا، وہ آٹے کی طویل قطاروں میں لگنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ میرے ایک معتبر صحافی نے بہت خوب کہا ہے کہ قوم ہمیشہ سے کسی نہ کسی دیدہ ور کی منتظر رہی ہے۔ مگر میں کہتا ہوں بہ زبانِ فیض؛
دل ناامید نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
اپنی طویل اور غیر مختتم مصروفیت میں اکثر خود کو فراموش کر دینا پڑتا ہے۔ میں صحافت کو ایک مشن سمجھتا ہوں اور اس پر ہمیشہ کاربند رہنا میرا عہد ہے۔