پانامہ لیکس کے بعد اب ہر طرف پنڈورا لیکس کا ڈھنڈورا مچا ہوا ہے۔ تقریباً ایک کروڑ انیس لاکھ کے قریب فائلوں پر مشتمل پنڈورا پیپرز اسکینڈل میں 200 سے زائد ممالک کی 29000 آف شور کمپنیوں کا راز افشاں کیا گیا جن کی ملکیت 45 ممالک سے تعلق رکھنے والی 130 ارب پتی شخصیات کے پاس ہے۔اور ان کمپنیوں میں چھپے اثاثوں کی مالیت 5.6 ٹریلین امریکی ڈالر سے لے کر 32 ٹریلین امریکی ڈالر کے قریب ہے۔
ان چھپی ہوئی کمپنیوں میں دنیا کے کئی ممالک کی نامور شخصیات مثلاً برطانیہ کے ٹونی بلئیر،دبئی کے محمد بن راشد وغیرہ کے نام ہیں مگر صرف پاکستانیوں کی ہی بات کی جائے تو سات سو(700) کے قریب پاکستانی بھی اپنی کمپنیوں کی وجہ سے پنڈورا لیکس کا حصہ ہیں۔ اس سے پہلے تحریک انصاف اپوزیشن کا حصہ تھی جب پانامہ لیکس کا شور مچا تھا اور اس شور کا خاتمہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے خاتمے اور نواز شریف کی نااہلی پر جا کر ہو ا تھا۔
اب تحریک انصاف کی حکومت ہے اور شومئی قسمت کہ پنڈورا لیکس میں چند حکومتی وزرا کے نام بھی زیرگردش ہیں مثلاً فیصل واوڈا، مونس الہی اور شوکت ترین وغیرہ۔ اس کے علاوہ ملک کا سب سے زیادہ بجٹ اپنے نام رکھنے والے ادارے یعنی فوج کے چند اہم ریٹائرڈ افسران اور ان کے اہل خانہ کے نام بھی اس لیکس کی زینت ہیں۔
اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ جب چھپا کر ایسی کمپنیاں بنائی جائیں تو ان کی اکثریت اس پیسے کی ہوتی ہے جو اپنی عوام سے لوٹ کر یا ملکی اداروں سے چھپا کر رکھا ہوتا ہے۔اگر پاکستان کی ہی صرف بات کی جائے تو پاکستان کا شمار ترقی پزیر ممالک میں ہوتا ہے اور جب یہاں سے دولت لوٹ کر دوسرے ممالک میں چھپائی جائے گی تو ملک میں غربت اور زیادہ بڑھے گی جب کہ وہ لٹیرے اپنے اثاثے بڑھاتے جائیں گے۔ اس لوٹ مار کو روکنے کے لیۓ بدقسمتی سے عالمی سطح پر بھی کوئی خاص قانون سازی نہیں ہے کیوں کہ زیادہ تر اثاثے غریب ممالک سے امیر ممالک میں منتقل ہوتے ہیں اس لیۓ امیر اور طاقتور ممالک اس پر چپ سادھ لیتے ہیں۔
پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت اس نعرے کی وجہ سے ہی منتخب ہوئی تھی کہ ملک سے کرپشن اور لوٹ مار کا خاتمہ کر کے لوٹی ہوئی دولت کو دوسرے ممالک سے واپس لایا جائے گا۔ ابھی تک تو اس سلسلے میں کوئی خاص پیشرفت ممکن نہیں ہو سکی اور پانامہ لیکس میں بھی سوائے نواز شریف کے باقی کسی پاکستانی کا کوئی خاص احتساب ہوتا نظر نہیں آیا۔اب پنڈورا لیکس تو پانامہ سے بھی بڑا اسکینڈل ہے جس میں بیوروکریٹ،سیاست دان اور فوجی افسران تک کے نام شامل ہیں۔
ابھی تک کی اطلاعات تو یہی ہیں کہ حکومتی وزیروں میں سے جن کے بھی نام سامنے آئے ہیں ان سب نے اپنے ان اثاثوں کو جائز قرار دے دیا ہے جو کہ چھپا کر دوسرے ملک میں رکھے گئے تھے۔ اگر عمران خان اپوزیشن میں ہوتے تو کیا وزیروں کے اتنا کہنے سے خان صاحب نے ان کی بات مان لینی تھی؟ ہرگز نہیں بلکہ خان صاحب نے ان کے استعفوں اور تحقیقات پر زور دیتے رہنا تھا۔ ابھی کچھ یہ بھی کہنا چاہیۓ کہ اپوزیشن میں بھی اتحاد نہیں ہے اس لیے وہ بھی ایسے قومی معاملات پر چپ سادھ لیتی ہے اور اپنے پارٹی لیڈران کی نااہلی اور مقدمات کے دفاع میں متحد ہو جاتی ہے۔
پنڈورا لیکس میں آئے پاکستانی ناموں کی تحقیقات کے لیۓ وزیراعظم نے تین رکنی سیل تشکیل دیا ہے جو یہ جائزہ لے گا کہ ان افراد نے ٹیکس دے کر جائز آمدن سے یہ اثاثے منتقل کیۓ تھے یا پھر ٹیکس چوری کر کے یہ اثاثے بنائے تھے۔اس کے علاوہ اس امر کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ یہ اثاثے منی لانڈرنگ کر کے تو نہیں بنائے گئے تھے۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کم وبیش ہر اہم ادارے کے افراد کے اثاثوں کا ذکر موجود ہے تو کیا یہ افراد آزادانہ تحقیقات کر سکیں گے یا پھر اپنے بھائی بندوں کو بچانے میں لگ جائیں گے۔
کیا عمران خان صاحب پنڈورا لیکس میں بھی ویسی ہی سنجیدگی دکھائیں گے اور واویلا مچائیں گے جیسا انہوں نے پانامہ لیکس کے وقت مچایا تھا؟ اگر پینڈورا پیپرز میں ملوث تمام افراد کے اثاثوں کی چھان بین کر کے اس کی تحقیقات کو عوام کے سامنے منظر عام پر نہ لایا گیا تو خان صاحب کا کرپشن فری پاکستان کا نعرہ محض ایک سیاسی نعرہ ہی تصور ہوتا رہے گا۔
احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔