متنازع لکھاری خلیل الرحمان قمر جو کہ عورت مخالف باتوں اور ٹی وی شوز میں عورتوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی کارکنان کے ساتھ حد درجہ بد تمیزی سے پیش آنے کے حوالے سے بدنام ہیں، جب موٹروے زیادتی کے واقعے پر احتجاج میں شرکت کے لئے پہنچے تو ان کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔ معلومات کے مطابق جب وہ میڈیا سے بات کرنے لگے تو انہیں ان کے عورتوں کے بارے میں ریمارکس اور ان پروگراموں کا حوالہ دیا گیا اور اس حوالے سے ان کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ انہیں یاد دلایا گیا کہ وہ عورتوں کے گھر میں رہنے اور بیٹھنے کے حوالے سے تلقین کرتے رہے ہیں۔ نعرے سن کر خلیل الرحمٰن نے نعرے بازی کرنے والے شخص کو جیو کا صحافی قرار دیا اور اسے بے شرم قرار دیا۔ اور ایسے صحافیوں پر لعنت بھیج دی۔
یاد رہے کہ یہ نعرے لگانے والا کوئی اور نہیں بلکہ سٹوڈنٹس کلیکٹو طلبہ تحریک کے اہم رکن حسنین جمیل تھے۔
https://twitter.com/HaiderKaleemB/status/1304486744889397248
حسنین آج کل کسی میڈیا چینل سے منسلک نہیں ہیں، اور خلیل الرحمان قمر صاحب کے بالکل آگے جیو نیوز کا مائیک بھی موجود تھا لہٰذا یہ ممکن نہ تھا کہ کوئی جیو کا صحافی ان کے خلاف نعرے بازی کر رہا ہو، وہ بیچارہ یا بیچاری تو ان کی اس کوشش میں شریک جرم رہے ہوں گے جو خلیل الرحمان قمر خود کو عورتوں کے حقوق کا داعی بنا کر پیش کرنے کے لئے کر رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے خصوصی طور پر جیو کا نام لیا۔ اس کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جیو نے ان کی خواتین سے متعلق انتہائی نازیبا گفتگو کے بعد ان کے ساتھ کانٹریکٹ ختم کر دیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے دماغ پر اب تک اس شرمندگی کا بوجھ ہو۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ موصوف کے چاہنے والے ہجوم میں اکثر وہی کلاس ہے جو سمجھتی ہے کہ جیو نیوز اور میر شکیل دشمن کے ایجنڈے پر ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ تو انہوں نے اس الزام کے ذریعے اپنے مداحوں کو بس یہ احساس دلایا ہو کہ میں تو بڑا نیک آدمی ہوں، یہ تو ملک دشمن عناصر میرا پیچھا نہیں چھوڑتے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے کبھی عورتوں کو گھروں میں بیٹھنے کا نہیں کہا۔ میں اپنی عورت کے لئے فاختہ کی طرح اڑنے کی خواہش رکھتا ہوں۔ خلیل الرحمان قمر نے اس موقع پر بھی اپنی روایتی بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے بجائے خود پر لگے الزامات کا جواب دینے کے، ایسے صحافیوں پر لعنت بھیجی جو ان پر تنقید کر رہے تھے۔ تاہم، ہمیں ان کی بدزبانی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جو شخص عورتوں کے کردار کو اپنے ڈراموں کے ذریعے نشانہ بناتا ہو، ٹی وی پر بیٹھ کر انہیں غلیظ گالیاں دیتا ہو، عوام کے سامنے بیٹھ کر کون عورت ہے اور کون نہیں ہے کی خود ساختہ تعریف کر کے slut shaming کی راہ ہموار کرتا ہو، پریس کانفرنس میں ایک اداکار پر یہ تنقید کرے کہ وہ خواجہ سرا جیسا دکھتا ہے، ایک قومی سطح کے لیڈر سے متعلق بات کرتے ہوئے اس پر تنقید کرے تو اس کو عورت سے تشبیہ دے، وہ کہتا ہو کہ میں تو عورت کو اڑتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں، تو اس سے بڑا منافق کون ہوگا؟
اب وہ اپنا کردار دھونے کے لئے ایک عورت ہی کی مشکل کا سہارا لے رہے ہیں تو یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ خلیل الرحمان قمر جیسے لوگ اپنی ذات کے تحفظ میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اور اس موقع کو بھی اپنے لئے کیش کروانے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اور بھلا ہو ایک نظریاتی سیاسی کارکن کا جو اس موقع پر موجود تھا اور اس نے کم از کم ان کی منافقت کو چیلنج کیا، وگرنہ ہمارا بے اصول میڈیا تو وہاں بھی ان کی میڈیا سے بات چیت سنوا کر ان کو موقع فراہم کرنا چاہتا تھا کہ وہ اپنا دامن صاف کر لیں۔ یہیں سے میڈیا کی اپنی منافقت کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ایک طرف تو ایک عورت کے ساتھ ہونے والے ظلم پر اس کی آواز بننے کی اداکاری کر رہا ہے تو دوسری طرف عورتوں کو سرِ عام گالیاں دینے والے سے کسی ایک صحافی نے بھی کوئی چبھتا سوال نہیں کیا۔ وہ آیا، اس نے ایک چینل کے خلاف ہرزہ سرائی کی، اور یاد رہے کہ اس چینل کے رپورٹر یا کیمرہ مین نے بھی اس سب کے باوجود اس میڈیا ٹاک کا بائیکاٹ نہیں کیا، اس نے عورتوں کے حقوق کے لئے خود اپنی جدوجہد کی تعریف کی، خود پر تنقید کرنے والے صحافیوں پر لعنت بھیجی اور چلا گیا لیکن اس سے کسی نے یہ سوال کرنے کی زحمت نہیں کی کہ آپ تو عورت مارچ میں شریک ہونے اور اسی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والی عورتوں کو گالیاں دیا کرتے تھے، ان کے کردار پر سوال اٹھایا کرتے تھے، کم از کم اس کے لئے تو معذرت کریں۔ لیکن میڈیا وہاں خاموش تماشائی بنا یہ سب ہوتا دیکھتا رہا۔ جس معاشرے میں میڈیا جو کہ واچ ڈاگ کی حیثیت رکھتا ہو، وہ یا تو اس طرح کے لوگوں کو پلیٹ فارم مہیا کرتا ہو کہ وہ اپنا دامن صاف کر لیں اور ان سے کوئی سوال نہ کیا جائے، یا اس حد تک نااہل ہو کہ اسے پتہ ہی نہ ہو کہ عورتوں کے ساتھ ماضی میں بدتہذیبی کرنے والے شخص سے ایسے موقع پر کیا سوال کرنا ہے جب وہ خود کو عورتوں کے حقوق کا چیمپیئن بنا کر پیش کر رہا ہو تو اس معاشرے میں بہتری کی امید رکھنا کارِ بیکار سے زیادہ کچھ نہیں۔