جس دن سے موٹروے ریپ کا واقعہ سامنے آیا ہے، سوشل میڈیا اور عوامی سطح پر ایک غم و غصے کی لہر ہے۔ سی سی پی او لاہور عمر شیخ کے بیانات نے اس غصے کو مزید انگیختہ کر دیا کہ جب آپ اتنے بڑے سانحے پر اسی انسان کو موردِ الزام ٹھہرانے لگیں کہ جو دراصل اس بربریت کا نشانہ بنا ہو تو پھر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آپ اس معاملے میں مجرموں تک پہنچ بھی جائیں، معاشرے میں ایسے مزید جرائم کا راستہ تو بہرحال آپ نے کھول ہی دیا ہے۔ جب پست ذہنیت کے لوگوں کو یہ لگنے لگے کہ رات کے وقت اکیلی خاتون کا گھر سے باہر ہونا دراصل اس خاتون کی غلطی ہے اور وہ جرم کو خود دعوت دے رہی ہے اور پولیس کے سربراہ بھی یہی بیان دے رہے ہوں تو پھر ایسے واقعات ہونا تو منطقی نتیجہ ہے۔
لیکن ساتھ ہی ساتھ سوشل میڈیا پر یہ بحث بھی جاری تھی کہ وہ لوگ جو عام طور پر قوم کی اصلاح کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ ایسے موقع پر غائب کیوں ہو جاتے ہیں۔ بالآخر ایسے ہی ایک صاحب نے اپنے یوٹیوب چینل پر ویڈیو اپلوڈ کر دی ہے۔ واقعہ پیش آنے کے دس روز بعد جاری کی گئی اس ویڈیو میں مولانا طارق جمیل نے ایک مرتبہ پھر مسئلے کا حل پیش کرنے کی بجائے وہی بات کی ہے جس کی ان سے توقع تھی۔ انہوں نے ساری ذمہ داری پاکستان کے مخلوط نظامِ تعلیم پر ڈال دی ہے اور کہا ہے کہ جب لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے پڑھیں گے تو پھر موٹروے جیسے واقعات ہونا تو لازمی سی بات ہے۔ طارق جمیل کا کہنا تھا کہ مخلوط تعلیم کے نظام نے یقیناً معاشرے میں بے حیائی پھیلائی ہے۔
https://twitter.com/AsadAToor/status/1306911035392249856
جس دن سے یہ واقعہ پیش آیا ہے، حیرت انگیز طور پر سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا پر ایک بہت بڑی تعداد نے مسئلے کی جڑ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والی کم از کم دو ارکانِ اسمبلی نے بھرپور انداز میں خواتین کا مقدمہ پیش کیا۔ شندانہ گلزار خان نے ببانگِ دہل ٹی وی پر بیٹھ کر کہا کہ زیادہ تر واقعات میں گھر کے مرد ہی خاتون کا ریپ کرنے میں ملوث ہوتے ہیں۔ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی بھرپور انداز میں قومی اسمبلی میں آواز اٹھائی اور کہا کہ خواتین کو گھر بٹھانے کی بات کرنے والے مرد خود کیوں گھر نہیں بیٹھ جاتے۔ اس بات پر سپیکر اسد قیصر ہنسے تو انہوں نے ان کو کہا کہ آپ ہنس رہے ہیں، آپ بطور ایک خاتون کے میرے غصے کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف مسلم لیگ نواز کے نوجوان رہنما عطااللہ تارڑ نے ٹی وی پر کہا کہ ہماری تو گالیاں بھی خواتین سے ہمارے رشتوں کی بے حرمتی پر مبنی ہیں، ہم ریپ سے متعلق مذاق کرتے ہوئے ذرا نہیں کتراتے۔ دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے ارکان کی طرف سے ایسی باتیں آنا اس افسوسناک واقعے میں سے نکلنے والا ایک غیر منفی پہلو تھا۔
لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ لوگ جن کے لاکھوں کی تعداد میں یوٹیوب فین ہیں اور جو مسجدوں کے منبروں سے دن میں پانچ مرتبہ لوگوں کی اصلاح کر سکتے ہیں، ان کی سوئی آج بھی وہیں کی وہیں اٹکی ہوئی ہے۔ طارق جمیل کا یہ کہنا کہ مخلوط نظامِ تعلیم ریپ کی وجہ ہے، ایسے ہی ہے جیسے وزیر اعظم کا بیان کہ بالی وڈ کی وجہ سے ریپ تعداد میں بڑھ گئے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی و سماجی رہنما کس حد تک سطحی ذہنیت رکھتے ہیں۔ امریکہ جیسے ملک میں جہاں پورن دیکھنے کا رجحان گذشتہ 20 سالوں میں کہیں زیادہ بڑھا ہے اور مخلوط نظامِ تعلیم شاید ہمیشہ ہی سے رائج ہے، وہاں بھی ریپ کی تعداد میں 50 فیصد سے زیادہ کمی اسی عرصے کے دوران آئی ہے۔ تو پھر دیکھنا ہوگا کہ وہاں کیا ٹھیک ہو رہا ہے جو یہاں نہیں ہو رہا۔ فرانس میں سیکس ایجوکیشن کی وجہ سے نابالغ لڑکیوں کے ریپ کی شرح دنیا میں سب سے کم ہوئی ہے تو کھوج لگانا ہوگا کہ ایسا کیسے ممکن ہو پایا ہے۔
مولانا صاحب یہ بھی بتانا بھول گئے کہ مدارس میں کوئی مخلوط تعلیم رائج نہیں اور یہاں بھی ریپ کے واقعات عام ہیں تو پھر یہ بے حیائی کون پھیلا رہا ہے؟ کیا یہاں بھی وہ کالجوں کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے؟ یا پھر یہ بالی وڈ کی فلموں کا قصور ہے؟
اس کے علاوہ طارق جمیل صاحب کا کہنا تھا کہ چنگیز خان ایک بہت بڑا حکمران گزرا ہے۔ اس کے یہاں سخت سزاؤں کا رواج تھا۔ منگولوں میں زنا کی سزا موت تھی، چوری کی سزا بھی موت تھی، جھوٹ بولنے کی سزا بھی موت تھی۔ گو کہ چوری اور جھوٹ کے معاملے میں طارق جمیل صاحب بالکل غلط کہہ رہے ہیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ بھی وزیر اعظم عمران خان کی طرح سخت سزاؤں کو اس مسئلے کا حل سمجھتے ہیں۔ یہ ایک مرتبہ پھر مسائل سے متعلق ان کے سطحی علم کی غمازی کرتا ہے۔ سخت سزائیں دراصل تشدد کو فروغ دیتی ہیں۔ پاکستان جو کہ پہلے ہی ایک انتہائی متشدد معاشرہ ہے، وہاں پر سخت سزائیں، خصی کرنے اور سرعام پھانسیاں مزید تشدد ہی کو جنم دیں گی لیکن اس ملک کے بڑے اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کی بجائے ایسی باتیں کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جو عوام میں بہت مقبول ہوں۔
طارق جمیل صاحب کو چاہیے کہ اس موضوع پر اچھی کتابوں اور جدید تحقیق سے استفادہ کریں، دنیا نے ان مسائل پر قابو پانے کے کیا کیا طریقے اپنائے ہیں، ان کو سمجھیں اور پھر سوشل میڈیا پر رائے زنی کریں۔ آپ کو لوگ سنتے ہیں، آپ کی بات کو مانتے ہیں، تو ان کی گمراہی کی ذمہ داری بھی آپ پر ہی ہوگی۔