ہمارے وزیراعظم جنہوں نے قطر سے واپسی پر سانحہ ساہیول کے متاثرین کو انصاف مہیا کرنا تھا، بالآخر واقعہ کے 82 دن بعد ان کو سانحہ ساہیوال کے متاثرین کی یاد آ ہی گئی اور ان کو وزیراعلیٰ پنجاب کے آفس میں بلا کر چیک تھما دیے۔ سانحہ ساہیوال کے دلخراش واقعہ کے بعد وزیر اعظم کئی بار لاہور آئے مگر انہوں نے متاثرین سے ملنا تک مناسب نہ سمجھا۔ اس بار بھی ان کے پاس جا کر ان کا درد بٹانے کی بجائے ان کو اپنے در پر بلا کر ملاقات کی، ایک بار پھر انصاف دلانے کی روایتی یقین دہانی کروائی اور اس واقعہ میں جاں بحق ہونے والے ذیشان کے اہلخانہ کو تو بلانا تک گوارا نہیں کیا کیونکہ ذیشان کو بغیر کسی ثبوت کے دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے۔
پہلے دن سے اس کیس کو کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ واقعہ کے بعد کئی کہانیاں گھڑی گئیں جو ایک کے بعد ایک جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوتی گئیں، مگر ہمارے ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون چلتا ہے۔ طاقت والے جس کو مجرم ثابت کر دیں اور جس کو چاہیں مظلوم ثابت کر دیں۔
قارئین کرام! جس طرح سانحہ اے پی ایس ملکی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ جس نے ہر درد دل رکھنے والے انسان کو رُلا دیا، اسی طرح سانحہ ساہیوال پر شاہد ہی کوئی سنگ دل ہو جس کی آنکھوں میں آنسو نہ آئے ہوں۔ سانحہ اے پی ایس میں دہشت گردی کرنے والے ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار تھے مگر ساہیوال میں مظلوم نہتوں پر گولیاں برسانے والے اس ملک وقوم کے محافظ تھے، جن کا کام تو دہشت گردی کے خلاف لڑنا اور عوام کا تحفظ کرنا ہے مگر وہ خود ہی عوام کی جان کے دشمن بن گئے۔
19 جنوری 2019 کو چونگی امرسدھو لاہور کی رہائشی فیملی بورے والا میں اپنے رشتے دارکی شادی میں شرکت کے لئے روانہ ہوتی ہے، جس میں خلیل، خلیل کی بیوی نبیلہ، بیٹا عمیر، بیٹیاں اریبہ، منیبہ اور حدیبہ کے علاوہ خلیل کا دوست ذیشان بھی ساتھ ہوتا ہے۔ ساری فیملی آلٹو کار میں سوار ہوتی ہے جس کو ذیشان ڈرائیو کر رہا ہوتا ہے۔
مستی کرتے بچے اور ہنستے کھیلتے یہ لوگ اپنی منزل (شادی والے گھر) کی طرف گامزن تھے مگر کسی کو کیا پتہ تھا کہ منزل بدلنے والی ہے؟ جو بچے یہ سوچ کر گھر سے نکلے کہ شادی پر جا کر اپنے ہم عمروں سے کھیلیں کودیں گے، انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ پل بھر میں ان کی دنیا ہی بدلنے والی ہے۔ ان کے علم میں بھی نہیں ہوگا کہ گھات لگائے انسان نما درندے ان کی تاک میں بھیٹے ہیں، اور ان کی خوشیاں غموں میں بدلنے والی ہیں۔
ساہیوال کے قریب پہلے CTD کے اہلکاروں کی جانب سے ان کی گاڑی کو ہٹ کیا گیا۔ جب گاڑی فٹ پاتھ سے ٹکرا کر رک کئی تو ان کی گاڑی کو گھیرے میں لے کر گولیاں برسا دی گئیں۔ عینی شاہدین کے مطابق گاڑی میں بیٹھے افراد نے اہلکاروں سے التجا کی کہ ان کے ساتھ خاتون اور بچے ہیں، انہیں جو چاہیے وہ لے لیں مگر ان کو ماریں نہ۔ مگر ان بے رحموں کو ذرا بھی ترس نہ آیا۔ وہ آگے بڑھے اور گاڑی سے چاروں بچوں کو نکال کر اپنی گاڑی میں بٹھا لیا، اور گاڑی پر گولیاں برسا دیں۔ بچے عمیر کے مطابق ان کی بڑی بہن اریبہ کو پھر دوبارہ گاڑی میں بٹھا کر گولیاں ماری گئیں۔ اتنی سفاکیت اور اتنی بربریت کی مثال تو جنگلوں میں نہیں ملتی جس سفاکیت اور بربریت کا مظاہرہ دن دہاڑے ایک شاہرہ پر کیا گیا۔
https://www.youtube.com/watch?v=XG3nf66FDtU
CTD اہلکاروں نے جب گاڑی پر فائرنگ کی تو ماں نے اپنے بچوں کو گود میں سمیٹ لیا۔ ماں کی پوری کوشش تھی کہ بچوں کی طرف بڑھنے والی ہر گولی اپنے جسم پر روک لے، بچوں کو آنچ تک نہ آئے لیکن اس کے باوجود وہ ماں اریبہ، عمیراور منیبہ کو گولیاں لگنے سے نہ بچا سکی۔ اریبہ کو چھ گولیاں ماری گئیں، عمیر کی ٹانگ پر گولی لگی جبکہ منیبہ کے ہاتھ پر گولی لگی۔ گولیاں مارنے کے بعد ان بچوں کو اہلکار اپنی گاڑی میں ساتھ لے گئے اور ایک سڑک پر بے یار و مددگار چھوڑ کر بزدلوں کی طرح وہاں سے بھاگ نکلے۔ جہاں ان معصوم و مظلوم بچوں کو چھوڑا وہاں قریب ہی موجود ایک پٹرول پمپ کے عملے نے ان بچوں کو ہسپتال پہنچایا۔
اس واقعہ کے بعد حکومت اور CTD کی جانب سے تقریباً 14 بیان بدلے گئے اور ہر بیان جھوٹا ثابت ہوا۔ کیونکہ جب یہ افسوسناک سانحہ رونما ہو رہا تھا تو اردگرد کھڑے لوگوں میں سے کئی عینی شاہدین نے اپنے موبائل کیمروں پر ویڈیو ز بنا لی تھیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہونا شروع ہو گئیں، اور آخر میں حکومت اور CTD کی جانب سے خلیل کے دوست اور گاڑی ڈرائیو کرنے والے ذیشان کو دہشت گرد ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر کوئی بھی ٹھوس ثبوت پیش نہ کیے جا سکے جس سے یہ ثابت ہو کہ ذیشان کا تعلق کسی دہشت گرد گروہ سے تھا۔
حسب روایت اس معاملے کو لٹکانے کے لئے جے آئی ٹی بنا دی گئی اور جاں بحق ہونے والوں کی فیملیز کی طرف سے پہلے دن سے ہی جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ لواحقین کا کہنا تھا کہ اس المناک واقعہ پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ انہیں جے آئی ٹی پر بالکل بھی اعتماد نہیں۔ اور جے آئی ٹی نے جس طریقے سے تفتیش کی ہے اس سے بھی یہی لگتا ہے کہ جے آئی ٹی نے اس واقعہ میں ملوث افراد کو بچانے کی بھر پور کوشش کی۔
سانحہ ساہیوال کے متاثرہ خاندانوں کے لواحقین آج بھی انصاف کے لئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں مگر نئے پاکستان میں بھی پرانے پاکستان کی طرح ان مظلوموں کو انصاف ملتا دکھائی نہیں دیتا۔ عینی شاہد ڈاکٹر ندیم کا کہنا ہے کہ انہیں گواہی دینے سے روکا جا رہا ہے، دھمکیاں دی جارہی ہیں، ان پر جھوٹے مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے انصاف دلانے کے بلند و بانگ دعوے ابھی تک تو زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھے۔ اس المناک واقعہ پر حکومت اور سکیورٹی اداروں کی بے حسی سمجھ سے بالا تر ہے۔ ماضی کے کئی کیسوں کی طرح اس کیس کو بھی فائلوں میں دبا دیا جائے گا۔
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
مگر یہاں تو مدعی بھی ہے اور شہادت بھی ہے۔ پھر بھی خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا۔