جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بیان میں کہا گیا کہ آئین پاکستان میں آرٹیکل 184(3) اس لیے رکھا گیا تھا کہ کمزور، پسے ہوئے اور بے آواز شہریوں اور گروہوں کے بنیادی حقوق کو تحفظ دیا جا سکے۔
پچھلے ہفتوں سے بارہا آئین کے اس آرٹیکل کا سیاسی گرما گرمی کے ماحول میں ذکر ہو رہا ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر یہ آئینی آرٹیکل نظرانداز کیے ہوئے، پسے ہوئے اور کمزور شہریوں اور گروہوں کی فلاح اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے تھا تو آج تک یہ آواز عدالت عظمیٰ تک کیوں نہ پہنچ پائی؟ کیوں ان بے شمار روتی سسکتی، چیختی چلّاتی دُہائیوں کی دستک ہماری عدالت عظمیٰ کے دروازے تک نہ پہنچ پائی؟
ہمارے آئین کا آرٹیکل 20 تحفظ دیتا ہے، اپنی مرضی کا مذہب اختیار کرنے اور مذہبی عقائد کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے اور مملکت خداداد میں یہ حال کہ احمدی اپنی زندگی کی سانس بھی اس ڈر سے لیتے ہیں کہ اس کی آواز ہی ان کے جان سے جانے کا سبب نہ بن جائے۔ ان کو سڑکوں پر روک کر نام پوچھنا اور 'احمد' نام بتانے پر ایک خوفزدہ شخص کے گرد “سر تن سے جدا کے نعرے” اور یہ کہنا کہ یہ تمہارا نام نہیں، تم یہ نام نہیں رکھ سکتے۔ کیا یہ ویڈیو ہمارے چیف جسٹس تک نہیں پہنچی ہو گی جس طرح سیاسی ٹِکر آناً فاناً پہنچ جاتے ہیں؟ جب احمدی شہریوں کو تدفین کے حق سے محروم کیا جا رہا ہوتا ہے اور ان کی قبریں مسمار کی جا رہی ہوتی ہیں تب بھی اس خبر کے کلپ چیف جسٹس یا عدالت عظمیٰ کے کسی بھی جسٹس تک پہنچا کے 184(3) کی روح کو کوئی کھرونچ آتی ہے؟
کیا جنید حفیظ بارے بھی چیف جسٹس کو آج تک نہ پتہ چلا کہ کیسے ایک جوان اور انتہائی قابل استاد کیوں سالوں سے جیل میں سڑ رہا ہے کہ اس پر جھوٹا بلاسفیمی کا کیس بن گیا جس کے وکیل کو سرعام گولی مار دی گئی۔ کوئی اس کا کیس لینے کو تیار نہیں۔ جج سماعت کرنے کو تیار نہیں تو اس کا حق کیا 184 (3) میں شامل نہیں؟ اس کی اور اس کے والدین کی آواز سننا اور اس کے بنیادی حقوق کا تحفظ کس کے ذمے ہے؟
آئین کی ایک اور شق ہے 10 جس کے مطابق کسی بھی شہری کو اپنے گرفتار ہونے پر اس کی وجہ پتہ ہونے کا، وکیل کرنے اور فیئر ٹرائل کا حق حاصل ہے۔ تو کیا میں یہ بھی مان لوں کہ لاپتہ افراد خاص طور پر بلوچ اور قبائلی علاقے سے جن کے وارث مارے مارے پھر رہے ہیں اور سالوں سے دہائی دے رہے ہیں، ملک کے ایک کونے سے دوسرے میں مارچ کرتے پھر رہے ہیں، ان کی آواز بھی کبھی جوں بن کر عدالت عظمیٰ کے کان پر نہیں رینگی۔ ان سے متعلق کوئی کلپ بھی منصفان پاکستان کے واٹس گروپ تک نہیں پہنچا؟کیا ان کے کیس میں ذمے داروں کا تعین اور جھاڑ پھٹک اسی طرح نہیں ہونی چاہئیے جیسے 184 (3) کے تحت آج کل سیاست دانوں کی ہو رہی ہے؟
آئین کی شق 25 کے مطابق تمام شہری برابر کے حقوق رکھتے ہیں اور بنا کسی صنفی امتیاز کے برابر کے تحفظ کا حق سبھی کو حاصل ہے۔ ہمارے ملک میں ٹرانس جینڈرز اور خواجہ سراؤں کے ساتھ سماجی اور قانونی لحاظ سے جو تذلیل آمیز سلوک کیا جاتا ہے کیا یہ سلوک اس آئینی حق کی روح پر پورا اترتا ہے؟ کتنے خواجہ سراؤں کو سرعام بہیمانہ تشدد سے لے کر قتل کیا گیا مگر ایک گھنٹہ کی بھی ہیڈ لائن نہ بن پائے۔ پولیس بجائے قتل کی تفتیش کرنے کے الٹا ان کا استحصال کرتی ہے اور انہیں ذلیل کیا جاتا ہے۔ ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ ہار جاتے ہیں کیونکہ یہ تعین نہیں ہو پاتا کہ ان کو کس وارڈ میں رکھنا ہے۔ تعلیم، صحت، نوکری، عزت ان کے لیے خوابوں کی جیسی کوئی چیزیں ہیں۔ خواہ وہ ان کا گھر ہو، معاشرہ یا ریاست، اب ان سے خواجہ سرا کی پہچان رکھنے کا حق بھی ان کی زندگی کو ان کے برابر کے شہری ہونے کے حق کو ان سے چھین رہا ہے۔ تو کیا ہوا؟ اس کمزور، بے آواز طبقے کے لیے اس 184 (3) کے عدل کی گھنٹی ہونے کے زُعم کا؟
آئین کی شق 18 تحفظ دیتی ہے آزادی کاروبار، تجارت اور پیشہ رکھنے کی مگر جب ریاست کی جانب سے چھوٹے کسانوں کے کام کے حق پر راوی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے تو کیوں ایوان عدل کو ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے 184 (3) کا استعمال یاد نہیں آتا؟
آئین کی شق 25A کے مطابق 5 سے 16 سال کے بچوں کو مفت تعلیم کا حق یقینی بنانا ریاست پاکستان پر فرض ہے۔ پھر بھی 25 لاکھ سے زائد بچے سکولوں میں داخل نہیں ہیں۔ کروڑ ہا بچے چائلڈ لیبر سے وابستہ ہیں جو آئینی شق 11 سے متصادم ہے پر ان معصوم، کمزور بچوں کی نہ آواز اور نہ ان کے ننھے منے ہاتھوں کی دستک 184(3) تک پہنچ پائی ہے۔
خواتین ریاست پاکستان کی 50 فیصد شہری ہیں مگر اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کے حق سے لے کر مرنے تک سے محروم ہیں۔ کیا آئین کی شق 9 جو یہ کہتی ہے کہ کسی بھی شہری کو اس کی زندگی اور آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا، اس کا اطلاق خواتین پر نہیں ہوتا؟ عورتوں پر گھریلو تشدد کی نہ گھر میں شنوائی ہوتی ہے اور نہ قانون میں کہ اسے “گھریلو معاملہ” قرار دے کر نمٹا دیا جاتا ہے۔ مرضی کی شادی تو آوارگی کے زمرے میں آتی ہے حتیٰ کہ ان کا اپنے نکاح نامہ پر بھی کنٹرول نہیں۔ وراثت کا حق گناہ کبیرہ ہے اور سڑکوں پر ہراسان ہونے سے ریپ ہونے تک وہ خود ہی قصور وار ہیں۔
ایسے میں جب عمران خان کو عید کی چھٹیوں میں 'ہراساں' نہ کرنے کا عدالتی حکم سامنے آئے گا تو 11کروڑ عورتیں کیا یہ پوچھنے میں حق بجانب نہ ہوں گی کہ ہمارے حقوق کا کیا ہوا؟ ہمارے ہراسانی، ریپ، کم عمری کی شادی کے واقعات کیا آئین میں درج بنیادی حقوق کے زمرے میں نہیں آتے؟ کیا نور مقدم، سارہ انعام اور ایسی اور بچیوں کو قبروں سے اٹھ کر چیف جسٹس کے خواب میں آ کر پوچھنا ہو گا کہ میری زندگی اتنی ارزاں تھی کہ میرے قاتل 90 دن کی بھی سزا نہ پا سکے۔ سالوں میرے والدین عدالتی چکر لگائیں اور ظاہر جعفر اور شاہنواز امیر جیسے بھیڑیے اپنے پیسے کے زور پر 184 (3) کے منہ پر تھپڑ رسید کر کے آگے چلے جائیں۔
آئین کی 50 ویں سالگرہ پر ان سب مثالوں کو سامنے رکھوں تو بنیادی حقوق کا ہونا تو درکنار، ان کا شائبہ ہونا بھی پریوں کی کہانی جیسا لگتا ہے۔ کیا مجھے اس بات کی توقع بھی رکھنی چاہئیے کہ 184 (3) کبھی مظلوم کی آواز اس طرح بن پائے گا جیسا کہ آئین پاکستان لکھنے والوں نے سوچا تھا کہ یہ مظلوموں، بے کسوں اور ناکسوں کے لئے عدل کی گھنٹی بنے گا۔ شاید کبھی نہیں۔
فوزیہ یزدانی سابق بیوروکریٹ اور پالیسی ایکسپرٹ ہیں۔ فوزیہ سیاسی و سماجی موضوعات پر قلم کشائی کرتی ہیں۔ نیا دور پر ان کی ویڈیوز بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔