Get Alerts

فیض حمید گرفتار، 'پروجیکٹ عمران' کی فائل داخل دفتر

فیض حمید کی گرفتاری فوجی عدالتوں کے قیام، بھٹو کی پھانسی، بینظیر بھٹو کے سرعام قتل جیسی بڑی خبر تھی اور بعض سیاسی عناصر کے لئے تو سقوط ڈھاکہ جیسی 'شاکنگ'اطلاع تھی۔ آئے روز کہا جاتا تھا کہ ہمت ہے تو انہیں پکڑ کر دکھاؤ، ملفوف انداز میں اندرونی بغاوت کی دھمکیاں تک دی جاتی تھیں۔

فیض حمید گرفتار، 'پروجیکٹ عمران' کی فائل داخل دفتر

کاکول اکیڈمی نے 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب جشن آزادی کے آغاز اور آرمی چیف کے خطاب کی جس روایت کا آغاز کیا ہے اس بار اس کی اہمیت پچھلے سالوں کی نسبت بہت زیادہ تھی، کیونکہ 12 اگست کو ہی تو آئی ایس پی آر نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو تحویل میں لے کر ایک مختصر مگر دھماکے دار بیان جاری کیا تھا، جس میں ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سکیم اسکینڈل میں سابق اسپائے چیف کی جانب سے آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اختیارات کے ناجائز استعمال کی بات کی گئی تھی۔ انہیں فوجی تحویل میں لینے کی خبر کسی دھماکے سے کم نہ تھی، مگر اگلے پیرا میں اس سے بھی بڑا دھماکہ یہ کہہ کر کیا گیا کہ ان کی جانب سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیوں کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف فیلڈ کورٹ مارشل جنرل کی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

حمید گل کے بعد آئی ایس آئی سربراہ کے طور پر جو شہرت لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید فرام چکوال کے حصہ میں آئی وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوئی۔ لیکن ان دونوں افسانوی کرداروں کی فوج سے رخصتی غیر روایتی اور متنازعہ رہی۔ فیض حمید کو 'کیوں نکالا؟' کا جواب تو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں لیکن فیض حمید تو اگلے آرمی چیف بن کر اور عمران خان کے ساتھ اگلے دس سال تک چائنہ ماڈل والے حکمران بننے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ دنیا کی بہترین جاسوسی ایجنسی کی غیر معمولی شہرت رکھنے والی آئی ایس آئی پر ان کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ ان کے ماتحت کسی خوف احتساب کے بغیر سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی تک کو 'smash' کرنے کی دھمکیاں دیتے پھرتے تھے۔ پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں اکثریت کو چند لمحوں میں اقلیت میں تبدیل کرنے پر قادر تھے اور بقول عمران خان قانونی بلز کی منظوری کے لئے اتحادیوں اور آئینی ترامیم کے لئے اپوزیشن جماعتوں کو گلے میں رسی ڈال کر آرام سے کھینچ لایا کرتے تھے۔

ایسے میں ان کی گرفتاری جمہوری نظام میں فوجی عدالتوں کے قیام، بھٹو کی پھانسی، بینظیر بھٹو کے سرعام قتل جیسی بڑی خبر تھی اور بعض سیاسی عناصر کے لئے تو سقوط ڈھاکہ جیسی 'شاکنگ' اطلاع بھی تھی۔ ان کی گرفتاری کے حوالے سے آئے روز یہ کہا جاتا تھا کہ ہمت ہے تو پکڑ کر دکھاؤ، ملفوف انداز میں اندرونی بغاوت کی دھمکیاں تک دی جاتی تھیں۔ لہٰذا صورت حال متقاضی بھی تھی کہ جس جنرل عاصم منیر کو قیدی نمبر 804 روزانہ الزامات لگا کر دھمکیاں دیتا ہے اس گرفتاری اور فیلڈ کورٹ مارشل جنرل کی کارروائی کے اعلان کے بعد اس کی بدن بولی کا بغور جائزہ لیا جائے۔ ویسے کاکول کی تقریر کے الفاظ تو اہمیت رکھتے ہی ہیں کیونکہ وہ مستقبل کی پالیسی اور سوچ کا پتہ دیتے ہیں لیکن ان کے لہجے کی گھن گرج، آواز کی مضبوطی اور چہرے کا اعتماد بتا رہا تھا کہ اس گرفتاری سے پہلے بہت سا گراؤنڈ ورک کر لیا گیا ہے۔

خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

اسلام آباد کی آزاد فضاؤں میں اڑان بھرتے ہد ہد کی اطلاع کے مطابق گرفتاری سے پہلے 4 اہم ترین سربراہوں کے اجلاس میں حالات کا مکمل اور تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ پھر زیر زمین پنپتی سازشوں کو ناکام بنانے کے ذمہ داروں سے مشاورت ہوئی اور یوں علماء اور مشائخ کانفرنس کے لئے تقریر بھی ہوئی جس میں لاکھوں عاصم منیر اور سیاست دانوں کو قربان کرنے کی بات ہوئی۔ اگلے مرحلہ میں سمارٹ اسپائے چیف کو بلا کر چارج شیٹ سے آگاہ کیا گیا، انہیں راولپنڈی والی رہائش گاہ نہ چھوڑنے کی ہدایت ہوئی اور پھر 24 گھنٹوں کے بعد تحویل میں لے لیا گیا۔

بظاہر تو برادر خورد کی وارداتیں اور ٹاپ سٹی ان کی گرفتاری نما تحویل کی بنیادی وجوہات قرار دی جاتی ہیں لیکن گہرائی سے دیکھیں تو وجوہات کچھ اور ہیں اور چارج شیٹ بہت طویل ہے، لیکن ان کی گرفتاری کا مستقبل کا منظرنامہ کیا بن رہا ہے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے۔ ہمارے دوست مبشر زیدی تو کہتے ہیں کہ؛

Arrest of Gen Faiz Hameed is the first sign of course correction by the military.

اور ان کا یہ تبصرہ ہد ہد کے بقول درست بھی ہے، اور فیصل واؤڈا بھی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ لیکن حالات کس رخ جا رہے ہیں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے۔ ہد ہد بتا رہا ہے کہ ' پروجیکٹ عمران خان' لپیٹ تو 9 مئی ہی کو دیا گیا تھا، مگر اب اس کی فائل بھی بند کر کے داخل دفتر کر دی گئی ہے، اور پھر اس دفتر کو بھی 7 تالے لگا دیے گئے ہیں۔ لیکن حالات میں موجود غیر یقینی کی وجہ بتاتے ہوئے ہد ہد کہتا ہے کہ وطن کی مٹی گواہ ہے کہ یہاں داخل دفتر فائلیں 10 سال بعد کھول دینے کی روایت بھی پختہ یے۔ اس بار بھی ایسا ہوگا یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ بس ہمیں تو اتنی عرض کرنی ہے کہ جس پروجیکٹ نے فصیلوں کے درمیاں بھونچال برپا کیے اس کی فائل داخل دفتر ہی رہے گی اور شاید امریکہ کی طرح 30 سال مکمل ہونے پر ہی وہ راز قومی منظر پر ابھر سکیں لیکن سیاست کا چسکا اور پروجیکٹس کا شوق بڑی ظالم چیز ہیں۔ اس لیے بقول شاعر؛

کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک

لیکن ہد ہد بضد ہے کہ پی ٹی آئی میں وہ جو رہائی کا لولی پاپ دیتے ہوئے دوبارہ خواب دکھانے پر مامور ہیں وہ بھی شاید ایک دن تھک کر گریں گے اور پھر شاید ان کی آنکھ کسی اور کی ٹوکری میں کھلے۔

ہد ہد کی بات سے مجھے 14 اگست کی صبح آنکھ کھلتے ہی متفق ہونا پڑا جب ایوان صدر نے بگل بجایا کہ ریاست کے سب سے بڑے منصف اور سب سے بڑے طاقتور کے گٹھ جوڑ سے پھانسی پر ہنستے ہنستے جھول جانے والے ذوالفقار علی بھٹو کو نشان پاکستان عطا کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ یہ نوید اگلے کئی سالوں تک جاری رہنے والے کورس کریکشن کی نشاندہی کرتی اور مستقبل کا پتہ دیتی ہے کہ جس اعتماد سے بعض 'خدمات' کے عوض آصف زرداری کے دوست اور ہمدم خواجہ انور مجید کے لیے ہلال امتیاز (سول) کا اعلان کیا گیا ہے اس میں عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ ویسے بھی اعتزاز احسن نے کہا تھا ریاست ہو گی ماں کے جیسی سو بن رہی ہے۔

اب کل کے مجرم آج کے معصوم ٹھہر چکے اور آصف زرداری کا ایک جملہ بینظیر بھٹو کے سوئم کے روز بلاول بھٹو نے ادا کرتے ہوئے کہا تھا؛ 'جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے'۔ لہٰذاجمہوریت اب فیض حمید اور ان کے سیاسی رفقا، کپتان اور اس کے چاہنے والوں سے انتقام لینے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ بقول شاعر؛

بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے

اعجاز احمد صحافت سے وابستہ ہیں اور کئی دہائیوں سے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔