حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں جنرل (ر) امجد شعیب صاحب ایک تعلیمی ادارے میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ "بھارت سے ہماری دشمنی ہے لیکن ہم اس کے ساتھ تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل سے ساری دنیا تعلقات بڑھا رہی ہے، ہمارے یہاں لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں"۔ یعنی اب پیمانہ یہ ہے کہ ساری دنیا ایسا کر رہی ہے تو ہم بھی کر لیتے ہیں۔ آگے چل کر فرماتے ہیں کہ "میں زمبابوے میں تھا۔ ایک شخص میرے پاس آیا اور پوچھا آپ پاکستان سے ہیں؟ میں نے کہا ہاں، تو اس نے بتایا کہ وہ وہاں اسرائیل کا سفیر تھا۔ اس نے پوچھا کہ آپ ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ اگر عربوں کی وجہ سے کرتے ہیں تو انہوں نے تو سب نے تعلقات رکھے ہوئے ہیں، خواہ غیر رسمی ہی ہوں۔" اب تو خیر عرب ممالک کی جانب سے اعلان بھی کیا جا رہا ہے۔
حصہ اوـل یہاں پڑھیے: امجد شعیب اپنے باس پرویز مشرف کا دفاع کرتے ہوئے جھوٹ بولتے پکڑے گئے
اسرائیلی سفیر نے امجد شعیب کو کہا کہ اسرائیل بہت سے معاملات میں پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔ اگر رسمی تعلقات نہیں بھی رکھنے کہ دونوں ملکوں کے سفرا ایک دوسرے کے ملک میں موجود ہوں تو غیر رسمی تعلقات، مثلاً آنا جانا وغیرہ تو شروع کریں۔
پھر موصوف نے قوم کو بھاشن دیتے ہوئے کہا کہ فوراً مخالفت کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات نہیں بنانے کہہ دینا آسان ہے لیکن ٹھنڈے دل و دماغ سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
"مولانا کے پیچھے چلنا ہے تو 70 سال میں تو ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچے۔ اگر آج کی دنیا اور آج کے حالات کے مطابق سوچیں تو اس پر اتفاقِ رائے قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ میری ذاتی رائے میں سفیر نہ بھی بھیجا جائے، تجارت شروع کردینی چاہیے۔ امریکہ میں ہر اچھا ڈاکٹر یہودی ہے۔ وہاں علاج بھی کرواتے ہیں، کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ یہودی مجھے ہاتھ نہ لگائے"۔
https://twitter.com/mughalbha/status/1451200886173310977
یاد رہے یہ وہی لیفٹننٹ جنرل (ر) امجد شعیب صاحب ہیں جو مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر سیاستدانوں پر فتوے جاری کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ کرپٹ ہیں، اسٹیبلشمنٹ کو بار بار اقتدار میں آنے کی دعوت دیتے ہیں، ہر بار اسٹیبلشمنٹ ان کی وجہ سے اقتدار میں آتی ہے اور ان کی اپنی کمزوریاں ہیں جن کی وجہ سے حکومت کے اہم ترین امور میں اسٹیبلشمنٹ گھسی چلی آتی ہے ورنہ ایسا کبھی نہ ہو۔ افسوس کہ یہ 'دفاعی تجزیہ کار' صاحب ایسی ایسی قبیح حرکتوں کا بھی دفاع کرتے ہیں جو ان پر واجب بھی نہیں۔ ایسا اسی صورت میں ہوتا ہے جب آپ دل سے جمہوریت اور انسانی حقوق کی پاسداری پر سرے سے یقین ہی نہ رکھتے ہوں۔
پاکستان کا فلسطین کے حوالے سے ایک اصولی مؤقف ہے جو آج سے نہیں، دہائیوں سے جوں کا توں ہے کہ پاکستان کو اسرائیل سے تعلقات اس لئے قائم نہیں کرنے چاہئیں کہ یہ فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کر کے بنایا گیا ایک ملک ہے اور بین الاقوامی قوانین کے لحاظ سے کسی صورت اس کو جائز ریاست نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس سے بھی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ ملک محض فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کر کے بنایا ہی نہیں گیا بلکہ 1948 سے اب تک مسلسل انہیں ان کی زمینوں سے بے دخل کر کے یہاں ایک مخصوص نسل کے یہودیوں کی آبادکاری کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیل کو دنیا بھر میں جب بھی اس ظالمانہ پالیسی پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کی جانب سے یہی جواب دیا جاتا ہے کہ یہ افراد اسرائیل چھوڑ کر عرب ملکوں میں چلے جائیں اور عرب ممالک انہیں قبول کر لیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ یہاں کے مقامی باشندوں کی زمین ہے جس سے انہیں بے دخل کرنا کسی صورت جائز یا قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق یہ ناجائز اور غیر قانونی ہے۔
اب تو یورپی یونین اور عام امریکی پبلک بھی اسرائیل کی اس غیر قانونی پالیسی کے خلاف صف آرا ہونے لگی ہے۔ مئی 2021 میں ہوئی جبری بے دخلیوں کے خلاف امریکہ اور یورپ میں جتنا شدید ردِ عمل آیا، یہ فلسطین کی تاریخ میں بھی پہلی مرتبہ تھا کہ اسرائیل کی ان بے رحمانہ پالیسیوں پر ان کے حق میں بڑے بڑے مظاہرے دیکھنے میں آئے اور انہیں بین الاقوامی حمایت میسر آئی۔
ایسے میں امجد شعیب صاحب ان تمام سوالات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے چاہتے ہیں کہ پاکستان اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر لے جو کہ بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کے فرمان کی بھی نفی ہے کیونکہ محسنِ پاکستان نے واشگاف الفاظ میں کہہ رکھا ہے کہ "اسرائیل مغربی طاقتوں کا ناجائز بچہ ہے۔ ہم انشا اللہ کبھی اسے تسلیم نہیں کریں گے"۔
یہ جنرل صاحب آئے روز دوسروں پر الزامات لگاتے ہیں کہ انہیں امریکہ سے پیسے مل رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنے سابق باس اور لیڈر جنرل (ر) پرویز مشرف کے نقشِ قدم پر عمل کر رہے ہیں۔ پرویز مشرف نے بھی اپنے دورِ صدارت میں اسرائیل سے پاکستان کے سفارتی تعلقات بنانے کی کوششیں کی تھیں۔ اس سلسلے میں 2005 ستمبر میں اسرائیلی وزیرِ خارجہ کی اس وقت کے پاکستانی وزیرِ خارجہ خورشید محمود قصوری سے استنبول میں ملاقات بھی ہوئی تھی۔ اور اس میں کس کو شک ہے کہ پرویز مشرف کی ہر پالیسی امریکہ کے حکم پر بنتی تھی، خواہ وہ ڈرون حملوں کی اجازت دینا ہو، ڈالرز کے عوض CIA کو پاکستانی شہری بیچنا ہو یا پھر مشرف دور کا سب سے بڑا فیصلہ افغان جنگ میں امریکہ کا اتحادی بننا ہو۔ اس سب کے لئے پرویز مشرف دور میں بے تحاشہ رقم امریکہ کی جانب سے دی گئی اور یہ امریکی پیسے لے کر ملک کی پالیسیاں ہی امریکیوں کی منشا کے مطابق بنائی گئیں۔ سیاستدانوں، سول سوسائٹی پر بیرونی فنڈنگ کا الزام لگانے والے سابق جرنیل اپنے گریبان میں جھانکیں۔ براڈشیٹ کا قصہ تو ابھی باقی ہے۔ اگلی بار صحیح۔۔۔
(جاری ہے)