لندن میں مقیم سابق وزیراعظم نواز شریف شدید فرسٹریشن کا شکار بتائے جاتے ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق ان کے مزاج میں قدرے چڑچڑا پن آ گیا ہے، انہیں برطانیہ سمیت کسی غیر ملک سے تیمارداری کی غرض سے ملاقات کا وقت لینے کے لئے کوئی فون کرتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ سیاست پہ کوئی بات نہیں کرنا، پاکستان کی سیاست پر تو بالکل بھی بات نہیں کرنی، مجھے کوئی دلچسپی نہیں، میں بیمار ہوں، میں نے سیاست چھوڑ دی ہے۔
نواز شریف کی شدید فرسٹریشن کی وجہ شہباز شریف کی طرف سے کروائی گئیں تمام یقین دہانیوں کا پورا نہ ہونا بتایا جاتا ہے۔ ادھر نواز شریف کے بڑے صاحبزادے حسین نواز نے اپنا کاروبار سعودی عرب سے ترکی منتقل کر لیا ہے اور اپنی بزنس کمپنی "HILL METALS Est" کا پورا سیٹ اپ ترکی شفٹ کر لیا ہے جس میں ترکی کی حکومت نے حسین نواز کو ہر طرح کی سہولت کاری اور مدد فراہم کی ہے۔ یہ بات خارج از امکان نہیں کہ ترک صدر اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں پاکستانی حکام سے شریف فیملی کے مفاد میں اقدام کے لئے بات کریں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ اگر ترکی اور پاکستان کے شہریوں کو بیک وقت دونوں ملکوں کی شہریت دیے جانے کے معاہدے پر دستخط ہو جاتے ہیں تو تاجروں کے ساتھ ساتھ سیاسی شخصیات بھی اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں گی۔ ادھر شہباز شریف کے چھوٹے صاحبزادے سلیمان شہباز کی سعودی عرب میں ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کا امکان ہے جو عمرہ کی ادائیگی کی غرض سے پہلے سے ہی وہاں موجود ہیں، سلیمان شہباز لندن سے چند دیگر شخصیات کے ہمراہ سعودی عرب پہنچے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وہ چوہدری شجاعت حسین کے لئے شریف فیملی کا اہم پیغام لے کر گئے ہیں کیونکہ شریف خاندان کی خواہش ہے کہ چوہدری شجاعت شریف فیملی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان معاملات طے کروانے کے لئے پُل کا کردار ادا کریں۔
اس سے قبل سعودیہ میں شریف فیملی کے نمائندوں کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی توقع کی جا رہی تھی مگر مولانا فضل الرحمان اس دوران ن لیگ کی اعلیٰ قیادت کے رویے سے مایوس ہو کر اس سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں جبکہ پاکستان میں شریف خاندان کے خلاف صورتحال میں تناؤ آ جانے سے شریف برادران اب مقتدر قوتوں سے دوبارہ معاملہ کرنے کے لئے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق چند روز قبل اعلیٰ ترین باوردی شخصیت نے بھی اسی روز وزیر اعظم سے ملاقات کی تھی جس روز وزیر اعظم کی خواہش پر حساس ادارے کے چیف سول لباس میں وزیراعظم سے ملے تھے۔
وزیراعظم نے اہم شخصیات سے کہا کہ شریف فیملی کو جو ریلیف دینا تھا، دے چکا۔ اب مجھ پر مزید کسی رعایت کے لئے دباؤ نہ ڈالا جائے بلکہ شریف برادران اور ان کے حواریوں کے خلاف اب سخت اقدامات یقینی بنائیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے بینچ نے ایک روز قبل متاثرین کی درخواستوں پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس پر 3 ماہ میں فیصلہ سنانے کا جو حکم دیا ہے، اس کی روشنی میں مبصرین کا خیال ہے کہ اب کم از کم 3 ماہ تک تو شہباز شریف کی پاکستان واپسی کا امکان نہیں، بلکہ اس مقدمے کے فیصلے کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنااللہ کی پھر سے گرفتار کر لیے جانے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔