تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان، جو کہ حال ہی میں پاکستانی سکیورٹی اداروں کی تحویل سے فرار ہو گئے تھے، کے ایک مبینہ فیسبک اکاؤنٹ سے ایک کاغذ پر لکھا معاہدہ اپلوڈ کیا گیا ہے۔ اس اکاؤنٹ کی حقیقت کا ثبوت تو فی الحال کوئی نہیں لیکن چند باخبر صحافیوں کا ماننا ہے کہ یہ اکاؤنٹ لیاقت علی عرف احسان اللہ احسان کا ہی ذاتی اکاؤنٹ ہے۔
اس اکاؤنٹ سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ احسان اللہ احسان نے خود کو پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے حوالے کچھ شرائط کی بنیاد پر کیا تھا، اور یہ مبینہ شرائط نامہ انہوں نے فیسبک پر بھی شیئر کیا ہے۔
احسان اللہ احسان اور حکومتِ پاکستان کے درمیان معاہدہ
اس کی رو سے احسان اللہ احسان کے خلاف کاٹی گئی تمام ایف آئی آرز قانونی طریقے سے خارج ہونا تھیں۔ اس میں لکھا ہے کہ انہیں پاکستان آنے پر کسی ٹارچر سیل یا جیل میں نہیں رکھا جائے گا بلکہ ایک محفوظ مقام پر رکھا جائے گا، بلکہ پاکستان آنے پر خوش آمدید بھی کہا جائے گا۔
معاہدے کی تیسری شق کہتی ہے کہ احسان اللہ احسان کا گاؤں میں جو اپنا گھر تھا اور جو آپریشن کے دوران مسمار ہو چکا تھا، اسے یا تو دوبارہ تعمیر کیا جائے گا یا پھر اس کا معاوضہ ادا کیا جائے گا۔
مبینہ معاہدے کی چوتھی شق میں ابہام دکھائی دیتا ہے۔ پرنٹ کیے گئے الفاظ میں حوالگی کے بدلے میں احسان اللہ احسان کو روز مرہ کی زندگی گزارنے کے لئے ماہانہ وظیفہ دیا جائے گا لیکن پھر اس لائن کو کاٹ کر لکھا گیا ہے کہ انہیں مختلف مرحلوں میں ایک کروڑ روپیہ ادا کیا جائے گا۔
اس معاہدے کی رو سے احسان اللہ احسان کی سکیورٹی کی ذمہ داری حکومتِ پاکستان کی ہوگی۔ معاہدے میں نظر آنے والی آخری شق کہتی ہے کہ انہیں موبائل فون یا انٹرنیٹ وغیرہ استعمال کرنے کی مکمل آزادی ہوگی۔
احسان اللہ احسان کے مبینہ اکاؤنٹ سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ اس معاہدے کے تمام کرداروں اور مکمل ڈرافٹ کو آنے والی ویڈیو میں جاری کریں گے۔
معاہدے کی فریقین کون ہیں؟
یہ مبینہ معاہدہ احسان اللہ احسان اور حکومتِ پاکستان کے درمیان طے پایا۔ معاہدے میں فریق اوّل حکومتِ پاکستان کو بتایا گیا ہے اور فریق دوئم لیاقت علی عرف احسان اللہ احسان ہیں۔
حکومت کو اس معاہدے سے کیا ملا؟
اس معاہدے کے مطابق احسان اللہ احسان نے اوپر بیان کی گئی شرائط کے بدلے میں حکومتِ پاکستان کے سامنے ہتھیار ڈالنے اور مستقبل میں پاکستان کے قانون اور آئین کی پاسداری کا وعدہ کیا۔ لیاقت علی نے یہ بھی وعدہ کیا کہ وہ پاکستان کے اندر یا باہر کسی قسم کی تخریبی کارروائی میں حصہ دار نہیں ہوگا اور نہ ہی کسی تخریبی کارروائی کی حکمتِ عملی کا حصہ بنے گا۔ معاہدے میں لکھا ہے کہ احسان اللہ احسان اپنی بقایا زندگی ایک پرامن شہری کی طرح گزارے گا۔
واضح رہے کہ احسان اللہ احسان سے متعلق گذشتہ جمعرات یعنی 6 فروری کو یہ انکشاف سامنے آیا تھا کہ وہ پاکستانی سکیورٹی اداروں کی تحویل سے فرار ہو چکا ہے۔ بعد ازاں دی نیوز میں چھپنے والی ایک خبر کے مطابق احسان اللہ احسان نے دی نیوز کو بتایا کہ وہ سکیورٹی اداروں کی تحویل سے فرار ہوا ہے اور کسی معاہدے کے تحت نہیں باہر نکلا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ وہ ترکی پہنچ چکا ہے اور وہاں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خیریت سے ہے۔
حکومتِ پاکستان کی جانب سے تاحال اس خبر کی کوئی تردید یا تصدیق نہیں کی گئی۔