الیکشن 2024: فوجی اسٹیبلشمنٹ مان لے کہ وہ ہار چکی ہے

یہ تاثر کہ مسلم لیگ ن فوجی اسٹیبلشمنٹ کی اولین ترجیح تھی، ووٹرز میں خاص مقبولیت نہ پا سکا۔ اس کی وجہ سے ن لیگ کے انتخابی امیدوار بھی سہل پسندی کا شکار ہو گئے۔ یہ الیکشن مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جیسی پرانی جماعتوں کے لیے ایک انتباہی اعلان ہے کہ خاندانی سیاست کا دور ختم ہونے کو ہے۔

الیکشن 2024: فوجی اسٹیبلشمنٹ مان لے کہ وہ ہار چکی ہے

مضحکہ خیز انتخابات نے استحکام کا راستہ دکھانے کے بجائے پاکستان کو ایک گہرے بحران میں دھکیل دیا ہے۔ بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات نے پورے انتخابی عمل کو مشکوک بنا چھوڑا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی زیر قیادت اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت سے بننے والی نئی مخلوط حکومت شدید معاشی بحران اور قانونی حیثیت کے مسائل سے دوچار ہو گی۔

الیکشن کی حقیقی فاتح جماعت پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اس کا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے ورنہ اسے مرکز اور پنجاب میں واضح اور خاطر خواہ اکثریت حاصل تھی۔ پی ٹی آئی کے امیدوار انتخابی نشان کے بغیر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے تھے، اس کے ساتھ ساتھ انہیں جبر، انتظامی اور قانونی رکاوٹوں کا بھی سامنا تھا مگر اس کے باوجود وہ سب سے بڑا پارلیمانی گروہ بن کر ابھرے ہیں۔ یہ بذات خود فوجی اسٹیبلشمنٹ اور اس کی موجودہ اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ ن لیگ ایک ایسی پارٹی کے طور پر بے نقاب ہو گئی جو ماضی میں پھنس کر رہ گئی ہے اور پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک اگرچہ بڑھا مگر وہ پنجاب میں بڑی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ 2024 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی واضح طور پر فتح یاب رہی ہے اور یہ کامیابی آنے والے دنوں میں اس کے لیے اچھی خبریں لائے گی۔

رپورٹس بتاتی ہیں کہ اگر رات گئے مداخلت نہ کی جاتی تو انتخابات میں جیتنے والے 90 سے زیادہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے علاوہ اور بھی سیٹیں پی ٹی آئی جیت چکی ہوتی۔ پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ اسلام آباد، کراچی، لاہور اور ملک کے دیگر حلقوں کے نتائج میں 9 فروری کی صبح ہیرا پھیری کی گئی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور عدلیہ بالآخر ان دعوؤں کی سچائی سے متعلق فیصلہ کریں گے، لیکن یہ فیصلہ مستقبل قریب میں آتا دکھائی نہیں دیتا۔

پی ٹی آئی کے ووٹرز نے بے پناہ جذبے اور لچک کا مظاہرہ کیا اور اپنا احتجاجی ووٹ کاسٹ کرنے میں بڑی حد تک پرامن رہے۔ عمران خان کے خلاف مضحکہ خیز مقدمات، خاص طور پر بدنام زمانہ عدت کیس کے فیصلے نے عوامی غصے میں اضافہ کیا۔ یہ صرف غصہ ہی نہیں تھا، بلکہ ٹیکنالوجی کا سٹریٹجک استعمال بھی تھا جس نے پارٹی کے امیدواروں، عوامی اجتماعات اور انتخابی مہم پر سخت پابندیوں کے باوجود اپنے ووٹرز کو متحرک کیے رکھا۔ مسلم لیگ ن کو اپنے مضبوط سمجھے جانے والے علاقوں یعنی صوبہ پنجاب میں لاہور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد میں بھی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

یہ تاثر کہ مسلم لیگ ن فوجی اسٹیبلشمنٹ کی اولین ترجیح تھی، ووٹرز میں خاص مقبولیت نہ پا سکا۔ اس کی وجہ سے ن لیگ کے انتخابی امیدوار بھی سہل پسندی کا شکار ہو گئے۔ یہ الیکشن مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جیسی پرانی جماعتوں کے لیے ایک انتباہی اعلان ہے کہ خاندانی سیاست کا دور ختم ہونے کو ہے، جیسا کہ ہندوستان میں ہو رہا ہے جہاں کانگریس پارٹی غیر متعلقہ ہوتی جا رہی ہے اور اس کی واپسی کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ایک خاندانی کمپنی کی طرح کام کرنے والی سیاسی جماعتیں پریشان حال، بڑھتے ہوئے متوسط ​​طبقے اور شہری ووٹروں کو راغب نہیں کر سکیں گی۔ مکمل تبدیلی تو ایک طرف، نوجوان آبادی کی نظر میں قومی سیاست کے پرانے محافظ غیر متعلق ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ ماضی میں فوجی اسٹیبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو بدنام کرنے میں بڑا کردار ادا کیا، اب ان کے پاس بھی آئیڈیاز کا فقدان نظر آتا ہے کیونکہ انہیں مقبولیت کی ایک نہ تھمنے والی لہر کا سامنا ہے جسے معاشی بدحالی، مہنگائی اور معاشرے میں بڑھتی عدم مساوات نے اور بھی بڑا خطرہ بنا دیا ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اس تمام منظرنامے سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ پولنگ ڈے کے فوراً بعد جی ایچ کیو کی جانب سے ایک پیغام جاری کیا گیا جو بہت واضح تھا؛ سیاسی قوتوں کو ایک 'اتحادی' حکومت تشکیل دینی چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب تھا کہ پی ٹی آئی کو نکال کر ملک کی دیگر بڑی اور چھوٹی جماعتیں مل کر حکومت بنائیں۔ یعنی اپریل 2022 سے اگست 2023 تک ملک پر حکمرانی کرنے والی پی ڈی ایم حکومت کا پھر سے قیام۔ اس پیغام کی تابعداری میں بڑی جماعتوں نے مذاکرات شروع کر دیے اور اقتدار کی لوٹ مار کے سودے واضح ہونا شروع ہو گئے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں پی ٹی آئی کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کر کے پارلیمانی جمہوریت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک کی خلاف ورزی کر رہی ہیں؛ حکومت اکثریت کی ہونی چاہیے اور عوامی منشا کا احترام کیا جانا چاہیے۔ قلیل مدتی اقتدار کے مفادات یہاں کام دکھا رہے ہیں جبکہ ملک میں جمہوری سیاست کا مستقبل ایک بھیانک تصویر بنتا نظر آ رہا ہے۔

پاکستان کو ایک مستحکم حکومت، عوام کی مرضی تسلیم کرنے اور معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے جو انتہائی امیر اور طاقتور طبقے کو ملنے والی مراعات کم کرے اور وسائل کا رخ انسانی ترقی کی جانب موڑ دے۔ مالی مشکلات کے حل کے لیے بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر انحصار کم کرنے کے لیے کفایت شعاری کے اقدامات پر زور دینے کی ضرورت ہے کیونکہ بے تحاشا سرکاری اخراجات کے بعد بڑے پیمانے پر عوامی بہبود اور ترقیاتی منصوبوں کے امکانات کم رہ جاتے ہیں۔ آنے والی حکومت کو ممکنہ طور پر مہنگائی کے دباؤ، سست معاشی نمو اور بڑھتی بے روزگاری کی وجہ سے عوامی غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ حکومت کی کمزور قانونی حیثیت اشتعال انگیز سیاست کے لیے ایک مثالی میدان فراہم کرے گی، خاص طور پر اس وقت جب پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان جیل سے باہر آئیں گے۔ اور وہ دن زیادہ دور نہیں، خاص طور پر 8 فروری کی تبدیلی کو اگر دیکھا جائے۔ ججز بھی رائے عامہ سے لاتعلق نہیں ہیں اور وہ بھی بہت جلد انتظامیہ کے حکم کو چیلنج کرتے نظر آئیں گے۔

فوجی اسٹیبلشمنٹ شاید فی الحال ہار گئی ہو، لیکن اس کی تاریخ پھر سے ابھر کر آنے والے یونانی پرندے فینکس جیسی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے لیے بہترین انتظام ایک کمزور اور لچکدار سویلین حکومت ہے جو فوج کی بالادستی کی حفاظت کرتی رہے۔ لیکن فوج کی، خاص طور پر ان کے ہوم گراؤنڈ صوبہ پنجاب میں گھٹتی ہوئی مقبولیت ان کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ اس لیے ادارے کو عمران خان سے متعلق پالیسی پھر سے مرتب کرنی پڑے گی۔ عمران خان پہلے ہی متعدد مواقع پر اعلان کر چکے ہیں کہ وہ فوج کے ساتھ بات کرنے کو تیار ہیں۔ اب وہ وقت آ گیا ہے اور ایک سال کے اندر اندر یا اس سے بھی پہلے عمران خان اور فوج کے مابین مذاکرات کے بعد تصفیہ ہونے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

پچھلے سال کے واقعات بھی اس بات کا ثبوت ہیں کہ جبر، تشدد اور عوامی جذبات کو پامال کرنے کے پرانے حربے ڈیجیٹل دور میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ درحقیقت سیاسی معاملات اور پالیسی سازی میں ہونے والی دخل اندازیاں اب ناقابل برداشت ہو چکی ہیں۔ جرنیلوں کو جتنی جلدی اس کا احساس ہو جائے، فوج اور ملک کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔

**

رضا رومی کا یہ تجزیہ The Friday Times میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لیے ترجمہ کیا گیا ہے۔

مصنّف نیا دور میڈیا کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ اس سے قبل وہ روزنامہ ڈیلی ٹائمز اور فرائڈے ٹائمز کے مدیر تھے۔ ایکسپریس اور کیپیٹل ٹی وی سے بھی منسلک رہ چکے ہیں۔