حکومتی وفد ایم کیو ایم کو منانے میں ناکام، ق کے شکوے، بی این پی مینگل اور جی ڈی اے کے مشاورتی اجلاس، سلیکٹڈ حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹی‎

حکومتی وفد ایم کیو ایم کو منانے میں ناکام، ق کے شکوے، بی این پی مینگل اور جی ڈی اے کے مشاورتی اجلاس، سلیکٹڈ حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹی‎
پہلا مرحلہ کابینہ سے علیحدگی کا ہے، اور پھر دوسرے مرحلے میں ایم کیو ایم حکومت کی حمایت سے مکمل طور پر دستبردار ہو جائے گی، ایسا ہوتے ہی چار ووٹوں کی برتری پر کھڑی یہ حکومت لمحوں میں زمین بوس ہو جائے گی۔ ایم کیو ایم کی کابینہ سے علیحدگی سے پی ٹی آئی کی حکومت کو درپیش خطرات بڑھ گئے ہیں۔

اب تک کی اطلاعات کے مطابق گذشتہ روز حکمران جماعت کا وفد اسد عمر کی سربراہی میں ایم کیو ایم کو منانے میں ناکام رہا ہے، خالد مقبول صدیقی کو منانے کی تمام کوششیں بے سود رہی ہیں۔ ایم کیو ایم نے پی ٹی آئی کی حکومت کو بتا دیا ہے کہ وہ اب کسی بھی صورت میں کابینہ میں شامل نہیں ہوں گے اور اگر ان کے تحفظات دور نہیں ہوتے اور مطالبات پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو پھر اگلے مرحلے میں ایم کیو ایم حکومت سے الگ ہو جائے گی۔

ایم کیو ایم کی طرف سے وفاقی کابینہ سے علیحدگی کے اعلان کے بعد دیگر اتحادیوں بی این پی مینگل اور جی ڈی اے نے بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مشاورتی اجلاس طلب کر لئے ہیں، مینگل گروپ کا اجلاس 19 جنوری، جی ڈی اے کا رواں ماہ کے آخر میں ہو گا جس میں حکومت کے ساتھ تعلقات، اتحاد میں رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

ایم کیو ایم، مینگل گروپ اور جی ڈی اے کے کل 15 ارکان اسمبلی ہیں ان کی حکومت سے ناراضی اور تحفظات کے بعد سلیکٹڈ حکومت کے لئے مشکلات بڑھ گئی ہیں اور لگتا یوں ہے کہ اس کا جانا ٹھہر گیا ہے۔

وفاقی کابینہ سے علیحدگی کے بعد ایم کیو ایم کے پاس آپشن ہو گی کہ وہ پیپلز پارٹی کی پیش کش کا مثبت جواب دیتے ہوئے سندھ حکومت میں شمولیت اختیار کر لے۔ یاد رہے کہ گذشتہ ماہ کراچی کے علاقے لانڈھی اور کورنگی میں چار ترقیاتی منصوبوں کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے متحدہ قومی موومنٹ کو وفاق سے اتحاد ختم کر کے، پیپلز پارٹی سے الائنس کرنے اور سندھ میں وزارتوں کی پیش کش کی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وفاقی حکومت کے تمام اتحادیوں کو پاکستان بچانے کیلئے آج نہیں تو کل یہ فیصلہ کرنا پڑے گا۔ اب حالات و واقعات اس سمت میں بڑھ رہے ہیں جس میں تمام حکومتی اتحادی وسیع تر قومی مفاد میں تحریک انصاف کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں۔

وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے بھی متحدہ قومی موومنٹ کے وفاقی کابینہ سے استعفیٰ دینے کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں یہ فیصلہ بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے نہ صرف عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے اتحادیوں سے کیے گئے وعدوں کو بھی بھلا دیا ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری یہ بات بار بار کہتے رہے ہیں کہ وفاقی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں۔ وفاقی حکومت نے کراچی میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے کیے گئے اپنے وعدوں میں سے ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے لئے مختص کیے گئے 162 ارب روپے میں سے ایک روپیہ بھی نہیں دیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے لوگوں کو مہنگائی اور بیروزگاری کے سوا کچھ نہیں دیا۔

سعید غنی نے کہا کہ جب تک پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم رہے گی، تب تک کسی اچھے کام یا خوشخبری کی امید رکھنا بے کار ہے۔ ایم کیو ایم پر ان کے ووٹرز کا بہت ذیادہ دباؤ ہے، ایک تو ان کے کام نہیں ہو رہے، اب تک سلیکٹڈ حکومت سے جو معاہدات ہوئے ہیں ان کی کسی ایک شق پر بھی ایک انچ عمل نہیں ہو سکا ہے۔ کراچی کی تمام نشستیں جو پہلے ایم کیو ایم کی ہوتی تھیں، اب ان پر پی ٹی آئی کے امیدواروں کو جتوایا گیا ہے، اور اگر ایم کیو ایم مزید حکومت کا ساتھ دینے کی غلطی کرتی ہے، تو اس کے لئے ان نشستوں پر کامیابی مشکل ہوگی، ایم کیو ایم نہیں چاہے گی کہ وہ اپنے ووٹرز کو مزید مایوس کرے، اور اس کا مقدر آئندہ انتخابات میں اپنی نششتوں پر ناکامی ہو۔ لہذا اس بات کے کم امکانات ہیں کہ ایم کیو ایم آنے والے دنوں میں حکومت کی حمایت جاری رکھے۔

ادھر پنجاب میں بھی تحریک انصاف کو اپنی حکومت کے خاتمے کا خوف بڑھتا جا رہا ہے، ق سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر ہاﺅسنگ طارق بشیر چیمہ نے گذشتہ روز ایک ٹی وی چینل پر اپنی جماعت کے تحفظات اور شکوؤں کا اظہار کیا ہے۔ اس سے پہلے کہ معاملات مزید بگڑ جائیں مسلم لیگ ق کے شکوے دور کرنے کیلئے ق کی سینئر قیادت سے رابطہ کیا گیا ہے، اور اب خبریں یہ ہیں کہ رواں ہفتے میں اعلیٰ سطح کی مشترکہ بیٹھک بلانے کا فیصلہ ہوا ہے۔

ایک طرف اتحادی ناراضگی کا اظہار کر کے علیحدگی کی طرف جا رہے ہیں اور دوسری طرف ان ہاؤس چینج مسلم لیگ ن کا جنون بن چکا ہے، اور اس کے پیچھے شہباز شریف کا وزیراعظم بننے کا دیرینہ خواب ہے، جو اس جنون کو مسلسل بڑھا رہا ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی اس سال فریش الیکشن کے ذریعے حقیقی عوامی مینڈیٹ چاہتی ہے۔ ایم کیو ایم، بی این پی مینگل اور جی ڈی اے کی حکومت کی حمایت سے دستبرداری سے اگلے تین سے چھ ماہ میں معاملات ان ہاؤس چینج کی طرف بھی جاسکتے ہیں، اور یا پھر حقیقی عوامی مینڈیٹ کے لئے اس سال کو الیکشن ائیر بھی بنا سکتے ہیں۔

عوام بہرحال فریش انتخابات کے ذریعے حقیقی عوامی مینڈیٹ چاہتے ہیں، ایک سلیکٹڈ وزیراعظم کے بعد دوسرا سلیکٹڈ وزیراعظم دیرپا حل نہیں، اور نہ ہی عوام اس کو قبول کریں گے۔