ڈیل یا ڈھیل: حکومت اور اپوزیشن کی ڈبل گیم

ڈیل یا ڈھیل: حکومت اور اپوزیشن کی ڈبل گیم
نواز شریف کی ضمانت اور علاج کی غرض سے لندن روانگی کے بعد سے ایک تاثر یہ ابھر کر سامنے آیا کہ نواز شریف اور مریم نواز سمیت دیگر مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو ریلیف فضل الرحمان کے آزادی مارچ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ممکنہ دباؤ کو کم کرنے کے لئے دیا گیا۔ تاکہ ان وجوہات کو کم کیا جا سکے جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) آزادی مارچ میں بھرپور شرکت کر سکتی تھیں۔

اعتماد سازی کے اقدامات ہمیشہ دوطرفہ ہوتے ہیں، اس لئے دوسری جانب تاثر یہ بھی بنا کہ اب آرمی چیف کی توسیع کے معاملے پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی خاموشی اختیار کریں گی اور اس معاملے پر کوئی سخت ردعمل نہیں دیں گی۔ لیکن، توسیع کا معاملہ حکومت کی دانستہ یا غیر دانستہ غلطیوں کے نتیجے میں متنازع ہو گیا اور پھر اس معاملے پر سپریم کورٹ میں خاص قسم کی پٹیشن دائر کرنے والے شخص کی جانب سے رجوع کرنا اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا مدعی کی غیر موجودگی میں اور بعد میں مدعی کی پٹیشن واپس لینے کی خواہش کے اظہار کے باوجود اس پٹیشن کو غیر معمولی اہمیت دینا، اور نواز شریف کو "گارڈ فادر کہنے والی شہرت" کے برعکس اس قسم کے حساس معاملات میں دلچسپی لینا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ کیونکہ، توسیع کا معاملہ اگر متنازع نہ ہوتا تو پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی مقتدر قوتوں سے ڈیل کا تاثر سامنے نہ آتا بلکہ اس کے برعکس یہی تبصرہ ہوتا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو ملنے والا ریلیف فضل الرحمان کے دھرنے میں شرکت سے روکنے اور فضل الرحمان کو تنہا کرنے کیلئے تھا۔

اگر پیپلز پارٹی اور ن لیگ آزادی مارچ میں بھرپور شرکت کرتیں تو حکومت اور دیگر مقتدر قوتیں مل کر بھی حالات کو کنٹرول نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن توسیع کا معاملہ جیسے ہی سپریم کورٹ میں گیا اور پھر حکومت کی جانب سے نوٹیفکیشن میں پے درپے غلطیوں سے متنازع ہو کر سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں پارلیمنٹ بھیجا گیا تو اس پر عام توقع یہ کی جارہی تھی کہ حکومت کو پارلیمان کے ذریعے آرمی ایکٹ میں ترمیم کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، اور اس توسیع پر اپوزیشن کی جانب سے شدید مزاحمت اور تنقید کی جائے گی۔ لیکن، ہوا اس کے برعکس۔ اپوزیشن نے بجائے توسیع کے معاملے کو زیربحث لانے کے حکومت کی جانب سے نوٹیفکیشن میں کی گئی غلطیوں کو ہدف تنقید بنایا اور ایسا تاثر دیا کہ اپوزیشن کو تو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر کوئی اعتراض نہیں لیکن حکومت ہی اس معاملے کو متنازع بنا رہی ہے، جس کے بعد پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی مقتدر قوتوں سے در پردہ مفاہمت کا تاثر مزید گہرا ہو گیا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت دانستہ معاملہ متنازع بنا رہی تھی تو اس کی وجہ کیا تھی؟ کیا حکومت توسیع کی حمایت کے عوض اپوزیشن کو ملنے والے ریلیف سے نا خوش تھی؟ یا مستقبل میں مقتدر قوتوں کا جھکاؤ اپوزیشن کے حق میں ہوتا دیکھ کر آرمی چیف کی توسیع کو متنازع بنا کر اپنا نیا آرمی چیف لانا چاہتی تھی؟ ویسے اس بات کا امکان کم لگتا ہے۔

دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے اپوزیشن اور فضل الرحمان نے مل کر آزادی مارچ کی پلاننگ کچھ اس طرح اور ایسے وقت میں کی کہ جس سے یہ تاثر ابھرے کے اپوزیشن کو ملنے والا ریلیف دراصل توسیع کی حمایت کے عوض نہیں بلکہ آزادی مارچ سے پیدا ہونے والے دباؤ اور اس میں بھرپور شرکت نہ کرنے کے عوض ملا ہے۔ اس قسم کے تاثر سے حکومت اور مقتدر قوتوں کا کرپشن بیانیہ ناکام ہوتا دکھائی دے رہا تھا جس کی وجہ سے عمران خان پر شدید تنقید بھی ہو رہی تھی، اسی دوران توسیع کا معاملہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا یا کروا دیا گیا جس کی وجہ سے اپوزیشن کو توسیع کے معاملے پر زبان کھولنی پڑی اور توسیع کی کھل کر حمایت کرنا پڑی، اس حمایت سے تنقید کا رخ کرپشن بیانیے کی ناکامی سے ہٹ کر اپوزیشن جماعتوں خصوصاً پیپلز پارٹی کی طرف اور ن لیگ کے ووٹ کو عزت دو نعرے کی طرف مڑ گیا اور اب تک تنقید کا رخ اسی جانب ہے۔

مطلب یہ کہ توسیع کے معاملے میں پے درپے غلطیوں سے اسے متنازع بنا کر سپریم کورٹ اور پھر پارلیمنٹ سے منظوری تک کے عمل سے حکومت کو اتنا تنقید کا سامنا نہیں کرنا پڑا جتنا اپوزیشن کو کرنا پڑ رہا ہے۔ اس صورت حال میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا توسیع کا معاملہ متنازع ہو گیا تھا؟ یا کر دیا گیا تھا؟ اس بارے میں وثوق سے کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن یہ تمام عمل بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے توسیع کے معاملے پر ڈبل گیم ہو رہی تھی۔

مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔