باچاخان: ایک عہد، جدوجہد اور وژن کا نام

باچاخان: ایک عہد، جدوجہد اور وژن کا نام
تحریک آزادی کے عظیم رہنما خان عبدالغفار خان ( باچا خان) کی برسی مناتے وقت ان کی طویل، بامقصد، منفرد اور صبر آزما جدوجہد کے کئی ابواب ذہن کے سامنے کھل جاتے ہیں اور بجا طور پر اس بات پر انسان کو فخر ہونے لگتا ہے کہ ان کی جدوجہد اور تحریک کے ساتھ وابستگی کتنے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ باچاخان ایک ایسے تاریخ ساز رہبر رہے ہیں جنہوں نے اس خطے کی سیاست اور معاشرت میں نہ صرف یہ کہ غیر معمولی اصلاحات کیں بلکہ اُنہوں نے تشدد کے خاتمے، تعلیم کے فروغ اور مفاہمت پر مبنی رویوں کی ترویج کے راستے، طریقے اور فوائد بھی بتائے۔ اپنے بے مثال مشاہدے کے باعث ایک نبض شناس کی حیثیت سے اپنے عوام کی رہنمائی کا فریضہ اُنہوں نے جس استقامت کیساتھ سر انجام دیا۔ اس کا اعتراف تاریخ دانوں اور عوام کے علاوہ اب ان کے مخالفین بھی کرنے لگے ہیں۔ آج بہت سے لوگ افغان جنگ میں پاکستان کے کردار کو تنقید کا نشانہ بناتے نظر آ رہے ہیں اور ہماری افغان پالیسی کے نتائج اور منفی اثرات بھی زیر بحث ہیں تاہم باچاخان نے چالیس سال قبل اس جنگ کو دو ہاتھیوں (روس اور امریکہ) کی لڑائی کہہ کر پاکستان کو اس میں کودنے سے منع کردیاتھا۔ اس استدلال یا طرز سیاست کی پاداش میں باچاخان، ولی خان اور ان کے ساتھیوں پر کفر کے فتوے اور غداری کے الزامات لگائے گئے مگر وہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے، کیونکہ ان کو حالات کا مکمل ادراک تھا۔

وقت نے ان کے نظریے کو بعد میں درست ثابت کیا، مگر تب بہت دیر ہوچکی تھی اور جس جنگ کی بنیاد افغان سرزمین پر رکھی گئی تھی اس نے بعد میں نہ صرف پورے خطے بلکہ پوری دنیا کو لپیٹ میں لینا شروع کیا اگر ان اکابرین کی بات مانی جاتی اور پاکستان غیر جانبدار خارجہ پالیسی پر عمل پیر رہتا تو نہ صرف یہ کہ پاکستان 70کی دہائی میں ٹوٹنے سے بچ جاتا، نائن الیون کے بشمول دہشتگردی کے واقعات پیش نہ آتے، بلکہ 70 ہزار سے زائد جانیں بھی بچ جاتیں جو کہ دہشتگردی کی نذر ہوئیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اب اُنہی پالیسیوں کے تسلسل میں دیگر کے علاوہ داعش کا خطرہ بھی سر پر منڈ لانے لگا ہے۔

باچاخان اور ان کی تحریک نے امن، ترقی اور علاقائی استحکام کیلئے جو لوازمات بتائی تھیں وہ نہ صرف ماضی کے حالات سے نمٹنے کیلئے ناگزیر تھیں بلکہ ان پر عمل کرنے سے پاکستان اور خطے کے مستقبل کو محفوظ بھی بنایاجاسکتا تھا، تاہم ان کی بالغ نظری، وژن، موقف اور طرز سیاست کو غداری کا نام دیا گیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان بدترین حالات کے نرغے میں چلا گیا۔

آج دوسروں کے علاوہ نئے دور کی بعض سیاسی قوتیں بھی صوبائی خودمختاری کے ایشو پر شور مچاتی نظر آ رہی ہیں اور صوبوں کی شکایات بعض اقدامات کے باوجود اب بھی ایک بنیادی مسئلہ ہے تاہم اس مسئلے کے پائیدار حل کیلئے باچاخان اور ولی خان نے برسوں قبل جو جدوجہد کی تھی اس کو بھی شک کی نظر سے دیکھا گیا۔ اس میں دوسری رائے ہی نہیں کہ باچاخان کی تحریک اپنی مٹی اور عوام کے مفادات کے ساتھ جڑی ہوئی تھی اور اس میں انسانیت کا احترام اور برداشت کا سبق بھی بدرجہ اتم موجود تھا۔ مذہبی منافرت، عالمی کھلاڑیوں کے مفادات کے ٹکراؤ، غیر ملکی مفادات کے علاقائی تحفظ اور ملک کے اندر قومیتوں کے درمیان موجود فاصلوں جیسے ایشوز پر ان کا وژن اور ان کی مسلسل جدوجہد ٹھوس دلائل پر مشتمل وہ رویہ تھا جو حقائق پر مبنی تھا مگر اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا گیا۔ باچاخان نے اپنی مٹی، قوم اور خطے کے امن، ترقی اور استحکام کیلئے کتنی لمبی اور تکلیف دہ جدوجہد کی، اس کے لئے تاریخی حوالہ جات اور واقعات کی یاد دہانی لازمی ہے تاکہ ان سے سبق سیکھا جائے اور استفادہ کیا جاسکے۔

باچاخان 1890ء کو ضلع چارسدہ کے گاؤں اتمانزئی کے محمد زئی قبیلے کے بہرام خان کے ہاں پیدا ہوئے، ان کی تاریخ پیدائش ان کی والدہ صاحبہ کی یاداشت پر درج کی گئی ہے۔ باچاخان نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر حاصل کرنے کی بعد میونسپل بورڈ سکول پشاور اور مشن ہائی سکول میں زیر تعلیم رہے۔ یہاں سے میٹرک کے بعد فوج میں بھرتی کر لیا گیا مگر انگریزی افسر کا مقامی سپاہیوں کے ساتھ ذلت آمیز سلوک دیکھا تو اُنہوں نے فوج میں جانے کا اپنا ارادہ ترک کیا۔ باچاخان نے سماجی اصلاحی تحریک کا آغاز 1921ء میں کیا تھا ان کے پیش نظر اپنی قوم کی اصلاح اور زیور تعلیم سے آراستہ کرنا تھا اس سلسلے میں اپنے قریبی ساتھیوں کی مدد سے انجمن اصلاح الافاغنہ کے نام سے ایک انجمن کی بنیاد ڈالی۔ یکم ستمبر 1929ء میں باچاخان اور ان کے ساتھیوں نے اتمانزئی میں افغان یوتھ لیگ کے نام سے ایک تنظیم بنائی، افغان یوتھ لیگ میں صرف تعلیم یافتہ لوگ شامل ہوسکتے، اس لئے باقاعدہ رضاکاروں کی بھرتی کا پروگرام بنایا گیا اور ایک ایسی تنظیم کی بنیاد ڈالی گئی کہ تعلیم یافتہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ وہ اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا نہایت غور وخوض سوچ و بچار کے بعد اس تنظیم کا نام خدائی خدمتگار رکھا گیا ان کی بنیاد اس تنظیم میں نظم و ضبط کی خاطر سپاہی سے لیکر جرنیل تک عہدے ہوتے تھے۔

باچاخان نے 1930ء میں خدائی خدمتگار تحریک کی ابتداء کی تھی۔ اس تحریک میں شامل ہونے والے ہر رضاکار کو حلف اُٹھانا پڑتا۔ باچاخان نے جدوجہد کے دوران تیس سال جیل کاٹی اور آٹھ سال جلاوطن رہے۔ اس دوران اُنہوں نے اصلاح عامہ کے دیگر کاموں کے علاوہ پختونخوا میں 130سے زائد سکول قائم کیے تاکہ لوگوں میں تعلیم عام ہو۔

باچاخان نے فرنگی دورِ حکومت میں برصغیر کی آزادی کے لئے جو جنگ لڑی اس میں کامیاب ہوئے اور انگریز برصغیر چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور اس طرح دو ملک معرضِ وجود میں آئے۔ 14 اگست کو پاکستان اور 15اگست کو ہندوستان، قیام پاکستان کے بعد ملک میں لوٹ کھسوٹ، سماجی ناانصافی اور ظلم کے خاتمے اور ایک ایسے معاشرے کے قیام کیلئے جس میں غریب بھی آسودہ حال ہو کے لئے طویل جدوجہد جاری رکھی جس کی بناء پر انگریز دور حکومت کے بعد پاکستان میں بھی قید و بند کی صعوبتیں اور اذیتیں برداشت کرنا پڑیں۔ آزادی کے بعد بھی ان کی تکالیف کم نہیں ہوئیں اور پاکستان کے حکمرانوں نے حقوق کی جدوجہد کی پاداش میں ان کی زندگی مشکل بنا دی۔

باچاخان 21 سال کی عمر میں مدارس کھولنے کے حوالے سے حاجی ترنگزئی صاحب کے ساتھ تھے۔ 1919ء میں پہلی بار باچاکان کو جیل میں جانا پڑا اور 1920ء تک جیل میں رہے۔ یہ رولٹ ایکٹ کے خلاف تحریک کا زمانہ تھا۔ 1920ء میں باچاخان اپنے ساتھیوں سمیت تحریک ہجرت کے سلسلے میں افغانستان چلے گئے بعد ازاں واپس آئے ان کو پھر گرفتار کر لیا اور دسمبر 1924ء تک جیل میں رہے۔ باچاخان 1925ء سے انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاسوں میں ذاتی حیثیت سے شرکت کرتے تھے۔ جب دسمبر 1929ء کو لاہور میں انڈین نیشنل کانگرس کا سالانہ اجلاس ہوا، اجلاس کی صدارت جواہر لعل نہرو کررہے تھے تو باچا خان کو اس اجلاس میں ساتھیوں سمیت شرکت کا موقع مل گیا اور اس طرح وہ قومی تحریک کا حصہ بن گئے اور جب کانگریس نے عدم تعاون کی تحریک شروع کی تو اس میں پختونوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

23اپریل 1930 کو پرامن شہریوں پر انگریز فوجیوں نے گولیاں برسائیں جس میں سینکڑوں افراد شہید ہو گئے اور اسی روز باچاخان کو سینکڑوں ساتھیوں سمیت اس وقت گرفتار کر لیا گیا، جب وہ چارسدہ اتمانزئی سے جلسے میں شرکت کیلئے آ رہے تھے۔

 

مئی 1930ء میں ضلع مردان گاؤں ٹکہ میں 1931ء میں باچا خان اور ان کے 15 ہزار خدائی خدمتگار ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا اور 1934ء تک پابند سلاسل رہے۔ رہائی کے بعد پختون علاقوں میں ان کا داخلہ بند کر دیا گیا۔ 1935ء تک اپنے علاقے سے بدر رہے۔1939ء میں کانگریس نے جنگ عظیم دوئم کے موقع پر بعض شرائط پر انگریزوں کی حمایت کی تو انگریز سامراج بڑے دشمن اور آزادی پر مرمٹنے والے باچاخان نے کانگریس سے احتجاجاً اپنا راستہ الگ کیا جب بعد میں کانگریس اپنے فیصلے پر پشیماں ہوئے تو باچاخان نے دوبارہ کانگریس سے اتحاد جاری رکھا۔

1942ء میں ماہ اگست کو بمبئی میں مولانا ابوالکلام آزاد کی زیر صدارت اجلاس میں ”ہندوستان چھوڑدو“ India quit کی تجویز پاس ہوئی۔ ہندوستان چھوڑدوں تحریک کے دوران باچاخان کو حکومت وقت نے مردان آنے سے روک دیا، باچاخان نے کہا کہ میں کسی بھی قیمت پر واپس نہیں جاؤں گا اس پر فوجیوں نے زبردستی اُنہیں واپس جانے پر مجبور کرنا چاہا اور اس دوران پولیس کے ایک افسر نے میروس ڈھیری کے مقام پر رک کر کے باچا خان کی پسلیاں توڑ ڈالیں اور تمام کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ لہولہان جسم کے ساتھ باچاخان کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان کو پہلے مردان پھر رسالپور اور بعد میں ہری پور جیل بھیج دیا گیا۔

1944ء کے انتخابات میں باچا خان ہندوستان کے مرکزی دستور سازاسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے جبکہ پاکستان بننے کے بعد 1947 میں بھی وہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے ممبر رہے تھے۔

پاکستان بننے کے  بعد کے حالات نے ان کو کبھی چین سے بیٹھنے نہیں دیا کیونکہ قیام پاکستان کے بعد ان کو انتہائی منفی رویے اور پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا گیا تاہم وہ آخری دم تک اپنی جدوجہد کے ذریعے اپنے اُصولوں پر ثابت قدم رہے۔ 15جون 1948ء کو باچاخان کو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی پاداش میں تین سال کے لئے جیل بھیج دیا گیا اور بعد میں اس میں دوسال کی توسیع کی گئی اور ان کو جنوری 1954ء میں رہائی ملی۔

1955ء کو ون یونٹ معرض وجود میں آیا اس کے خلاف خدائی خدمتگار وں احتجاجی تحریک شروع کر دی اور 16جون 1956ء کو باچاخان کو گرفتار کرلیا گیا۔10جولائی 1956ء کو صوبائی حکومت خدائی خدمتگار تنظیم کو غیر قانونی قراردیا۔1957ء میں باچاخان اور ان کے ساتھیوں کو رہائی ملی۔1958ء میں باچاخان نے ون یونٹ کے خلاف رائے کو منظم کیا تو ایوب خان نے ملک میں مارشل لاء نافذ کیا اور باچاخان کو گرفتار کر لیا گیا کچھ عرصے کے بعد 1959ء میں علالت کے باعث باچاخان کو رہا کر دیا گیا لیکن 1961ء میں ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا او ر تین سال جیل میں گزارنے کے بعد 30جنوری 1964ء کو خراب صحت کے باعث رہا کیا گیا۔

1962ء میں ایوب خان نے جب نیا آئین دیا تو باچاخان نے نئے آئین کے تحت ملک میں مکمل جمہوریت کی بحالی اور ون یونٹ کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ اس دوران باچاخان اور ان کے ساتھیوں کو ایک بار پھر سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا اور اس طرح بالاآخر آمریت نے مات کھائی اور ایوب کے زوال کے ساتھ ان کو رہائی ملی۔ وہ علاج کے لئے برطانیہ گئے، برطانیہ میں ڈاکٹروں نے اُنہیں امریکہ میں علاج کا مشورہ دیا لیکن امریکہ نے انہیں علاج کے لئے ویزہ جاری نہیں کیا۔ حکومت افغانستان کی درخواست پر وہ علاج کے لئے دسمبر 1964ء میں برطانیہ سے براستہ مصر پھر افغانستان گئے۔ 24 دسمبر 1972ء کو آٹھ سالہ جلاوطنی کے بعد وہ پاکستان آئے ان کا فقیدالمثال استقبال کیا گیا۔ 1973ء میں باچاخان کو ایک پھر گرفتار کیا گیا اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی منتخب حکومت کو ختم کر دی گئی اور احتجاجاً یہاں کی صوبہ پختونخوا کی حکومت بھی مستعفی ہو گئی جس سے لوگوں میں شدید بے چینی پھیل گئی اور لوگ سڑکوں پر نکلنا شروع ہو گئے۔ حکومت نے دونوں صوبوں میں آرمی آپریشن شروع کیا۔ 1974ء میں باچاخان کو اپنے گاؤں میں نظر بند کر دیا گیا اس دوران باچاخان نے محسوس کیا کہ اُنہوں نے پاکستان آ کر غلطی کی ہے۔ جب 13اپریل 1975ء کو طور خم کے راستے باچاخان افغانستان جا رہے تھے ان کو بارڈر پر گرفتار کر لیا گیا۔ اگست 1976ء کو رہائی مل گئی۔

مسلسل قیدوبند اور انتھک جدوجہد او ر تکالیف اور صعوبتیں برداشت کرنے کی وجہ سے ان کی صحت انتہائی خراب ہو گئی ان کو فوری آرام کی ضرورت تھی جو پاکستان میں ممکن نہ تھا اس سلسلے میں ایک بار پھر افغانستان چلے گئے اس دوران میں دو دفعہ بھارت گئے۔ جبکہ 1980ء میں دو مہینے روس میں بغرض علاج گزارے۔ 1981ء میں پھر بھارت گئے تاکہ وہاں علاج کراسکیں۔ جنوری 1982ء میں افغانستان واپس آ گئے اور اپریل 1982ء میں باچاخان پاکستان لوٹ آئے، ضیاء الحق کا مارشل لائی دور تھا۔ اُنہوں نے اپنی تحریک کو جاری رکھتے ہوئے عوامی رابطہ مہم پھر سے شروع کی مگر ضیاء الحق نے اُنہیں ایسا کرنے نہیں دیا اور گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ ان دنوں ان کی صحت روز بہ روز بگڑتی جلی گئی ان کے ایک پاؤں میں ہڈی ٹوٹنے کی وجہ سے شدید درد تھا اس کے علاج کیلئے باچاخان چیکو سلوا کیہ 1984میں تشریف لے گئے۔ زندگی کے آخری دنوں میں کالاباغ ڈیم کے حوالے سے منظم جدوجہد کی اس سلسلے میں صحت کی خرابی اور دونوں ٹانگوں کی معذوری کے باوجود ویل چیئر پر ایک مفصل دورہ کیا اور صوبے بھر کے چپے چپے کے علاوہ میانوالی اور اٹک کے اضلاع کا بھی دورہ کیا۔

20جنوری 1988ء کو باچاخان مالک حقیقی سے جاملے۔ ان کے انتقال کی خبر ملک بھر کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی انتہائی رنج و غم کے ساتھ سنی گئی۔ باچاخان بابا کا تابوت آخری دیدار کیلئے کھنگم پارک میں رکھا گیا، لاکھوں کی تعداد میں لوگ دیدار کیلئے پارک میں موجود تھے۔ تقریباً 48 گھنٹے تک بابا کی میت آخری دیدار کیلئے پڑی رہی، بوڑھے، جوان اور بچے مرد وزن دھاڑیں مار مار کر زاروقطار روتے رہے۔ باچاخان تمام پختونوں کے بابا تھے، آزادی کے علمبردار تھے، امن کے پیامبر تھے۔ ان کی وفات سے تمام مظلوم طبقات اور بالخصوص پختون قوم اپنے ایک انتہائی بے لوث خدمت گار، غمخوار اور شفقت کرنے والے عظیم رہنما سے محروم ہو گئی۔ باچاخان کی وصیت کے مطابق ان کو جلال آباد افغانستان میں دفن کیا گیا۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ میں انسان ہوں مجھے بھی ایک دن مرنا ہے جب بھی میں اس دارفانی سے رخصت ہوجاؤں تو مجھے جلال آباد میں دفن کیا جائے اسی میں پختون قوم کے اتحاد کا راز مضمر ہے۔

 اُنہوں نے اپنی موت کے ذریعے یہ پیغام اپنی قوم کو دیا۔ مختلف ادوار میں غیر اقوام کے حملوں اور حملہ آوروں کی راہ میں پڑے پُرامن پختونوں کو انگریزوں نے اپنے استعماری فوائد کے لئے جنگجوؤں کے طور پر پیش کرنے کے لئے فکری و عملی چالیں چلائیں اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پختونوں کی قبائلی ذہنیت نے اپنے آپ کو متشدد تسلیم کیا۔

 باچاخان نے پختونوں میں اُن کے تاریخی، تہذیبی اور روایتی عدم تشدد کا نئے سرے سے احیاء کیا اور  عدم تشدد کو تاریخ میں پہلی بار ایک نظریاتی اور سائنسی بنیاد فراہم کی اور ہر حال میں پختونوں کو عملی طور پر اس فلسفے پر اتنا کاربند بنایا کہ دنیا دنگ رہ گئی اور اسی فلسفے کی بنیاد پر انگریز جیسی جابر قوم کو برصغیر سے جانا پڑا۔

 


جتنی ضرورت عدم تشدد کے فلسفے کی آج ہے اس سے قبل شاید کبھی نہ تھی۔ عدم تشدد کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دشمن اور ظلم کے مقابلے سے دست برداری اختیار کی جائے بلکہ اپنے جائز قومی حقوق اور انسانیت کی بقاء کیلئے میدان میں ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں۔ تشدد کا جواب تشدد سے نہیں بلکہ دلیل، مکالمے اور اجتماعی سیاسی عمل کے ذریعے کیا جائے۔ باچاخان نے عدم تشدد کی جو بنیاد رکھی تھی اے این پی آج بھی اُسی فلسفے پر گامزن ہے۔

جن قوتوں نے ان پر کفر اور غداری کے فتوے لگائے تھے ان میں سے بعض نے بعد کے ادوار خصوصاً نائن الیون کے بعد باچا خان کے پیروکاروں کے خلاف کھلی جنگ لڑی جس کے نتیجے میں ہزارون پشتونوں کے علاوہ اے این پی کے سینکڑوں کارکن بھی شہید ہوئے تاہم اے این پی باچاخان اور ولی خان کے طے شدہ اُصولوں پر ڈٹی رہی اور امن، تعلیم اور قومیتوں کے حقوق کیلئے قربانیاں دیتی رہی۔ آزمائش اور تکالیف کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے تاہم اکابرین کی وارث جماعت کی حیثیت سے ہماری جدوجہد ان مقاصد کی حصول تک جاری رہے گی جن کا تعین ان عظیم لیڈروں نے کیا ہوا تھا۔

آج اس ملک میں پارلیمان اور دوسرے اداروں کو اپنے اپنے آئینی کردار ادا کرنے کے لئے خود مختار بنانے کا چیلنج درپیش ہے۔ حقیقی جمہوریت کے لئے اجتماعی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں امن کے قیام اور اس کے لئے سیاسی ماحول سازگار بنانے کی ضرورت ہے۔ جنگ کی تباہ کاریوں سے عوام کو آگاہ کرنا ہے۔ امریکہ اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی بے چینی کا ادراک اور خطے پر اس کے اثرات کے حوالے سے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔یہ سب مسائل خواہ وہ مقامی ہوں، ملکی ہوں یا بین الاقوامی، باچا خان کے وژن کی مدد سے حل ہو سکتے ہیں جس کے اجزائے ترکیبی  عدم تشدد، بقائے باہمی اور اجتماعی سیاسی عمل ہیں۔