'حد عبور ہو گئی'، 'اور لوگ بھی عمران خان کے سامنے یہ لہجہ اختیار کرنے والے ہیں'

'حد عبور ہو گئی'، 'اور لوگ بھی عمران خان کے سامنے یہ لہجہ اختیار کرنے والے ہیں'
گذشتہ روز وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی اندورنی کہانی سامنے آئی جس کے مطابق وزیر دفاع پرویز خٹک اور وزیراعظم کےدرمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

اجلاس میں وزیر دفاع اور سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے کہا کہ آپ کو وزیراعظم ہم نے بنوایا ہے، خیبر پختونخوا میں گیس پر پابندی ہے، گیس بجلی ہم پیدا کرتے ہیں اور پِس بھی ہم رہے ہیں، اگر آپ کا یہی رویہ رہا تو ہم ووٹ نہیں دے سکیں گے۔

انہوں نے وزیراعظم کو کہا کہ آپ نے غیر منتخب لوگوں کو پاس بٹھایا ہوا ہے۔ شوکت ترین کابینہ میں بھی مطمئن نہیں کر سکا۔ ووٹ نہیں ڈال رہا، اجلاس سے جارہا ہوں، جس پر وزیراعظم نے کہا مجھے بلیک میل نہ کرو، نہیں ووٹ دینا نہ دو، میرے کوئی کارخانے نہیں ہیں، میری جنگ ملک کے مفاد کی ہے۔
حماد اظہر نے بیچ میں بولنے کی کوشش کی تو پرویز خٹک نے ٹوک دیا اور انہیں کہا کہ میں آپ سے نہیں وزیر اعظم سے بات کر رہا ہوں۔

ذرائع کے مطابق پرویز خٹک کی اس گفتگو پر وزیر اعظم اٹھ کر جانے لگے اور کہا کہ اگر آپ مجھ سے مطمئن نہیں تو کسی اور کو حکومت دے دیتا ہوں۔
اجلاس کے بعد وزیر دفاع پرویز خٹک نے صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ کسی سے تلخ کلامی نہیں ہوئی، میں نے اپنے حق کی بات کی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ اجلاس سے اٹھ کر باہر کیوں گئے تھے تو انہوں نے کہا کہ اجلاس سے ناراض ہو کر نہیں بلکہ سگریٹ پینے باہر گیا تھا۔

اس ساری کارروائی کے بعد حکومتی ترجمانوں نے اعلان کیا کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں تھا، پرویز خٹک نے کھل کر بات ضرور کی لیکن جس انداز میں یہ میڈیا میں رپورٹ ہوئی ایسا کچھ نہیں تھا۔ پوری پارٹی متحد ہے، ماضی میں بھی کبھی کسی نے وزیر اعظم پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں کیا، اور پرویز خٹک نے بھی ایسا کچھ نہیں کیا۔ البتہ پریز خٹک نے اس کی کھل کر تردید نہیں کی۔ اور سینیئر تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ یہ کھل کر تردید نہ کرنا بھی اتنا ہی معنی خیز ہے جتنا اس ساری خبر کا میڈیا میں رپورٹ ہو جانا۔ آج ٹی وی پر عاصمہ شیرازی کے پروگرام میں سینیئر تجزیہ کار حامد میر، فہد حسین، مظہر عباس اور مشرف زیدی موجود تھے اور یہاں حامد میر اور فہد حسین نے چند انتہائی اہم رپورٹس اور تجزیے عوام کے سامنے رکھے۔ ان تجزیوں اور اطلاعات میں کچھ ایسا تھا جس سے آنے والے دنوں میں ملکی سیاست میں کیا کچھ ہونے جا رہا ہے، اس کی کچھ جھلک دکھائی دیتی ہے۔

حامد میر نے کہا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ پرویز خٹک نے اس طرح سے بات کی ہو۔ وہ ماضی میں بھی اس طرح کی بات کر چکے ہیں۔ یاد رہے کہ پرویز خٹک نے گذشتہ برس فروری میں ایک جلسے کے دوران اعلان کر ڈالا تھا کہ عمران خان کو میں نے وزیر اعظم بنایا ہے اور جو بناتے ہیں وہ ہٹا بھی سکتے ہیں۔ تاہم، پرویز خٹک کے ان الفاظ پر اس وقت پارٹی کی طرف سے زیادہ رد عمل نہیں دیا گیا اور ٹی وی چینلز نے بھی اس کو اچھالنا ضروری نہیں سمجھا۔ تاہم، اس بار یہ خبر پورے میڈیا میں چلی۔ اس کی کیا اہمیت ہے اس پر بات آگے چل کر۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ اس اجلاس سے قبل پرویز خٹک تنہائی میں بھی وزیر اعظم سے ان کے چیمبر میں ملاقات کر کے آئے تھے اور وہاں یقیناً انہوں نے ایسا لب و لہجہ اختیار نہیں کیا تھا۔ لیکن جب اجلاس میں انہوں نے یہ لب و لہجہ اختیار کیا تو وزیر اعظم عمران خان خود بھی بھونچکے رہ گئے۔ یہ صرف پارٹی کے لئے سرپرائز نہیں تھا بلکہ عمران خان کے لئے بھی تھا کیونکہ وہ پرویز خٹک کا یکدم لب و لہجہ بدلتا دیکھ کر حیران تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے کہا کہ تم مجھے سب کے سامنے بلیک میل کر رہے ہو۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ یہ منی بل تو پاس ہونا تھا یہ ہو جائے گا لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید افراد بھی عمران خان سے اسی لب و لہجے میں بات کریں گے لیکن وہ پرویز خٹک کی طرح بات کر کے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ وہ اپنے بیانوں کی تردید جاری نہیں کریں گے۔

فہد حسین سے عاصمہ شیرازی نے فہد حسین سے پوچھا کہ وزیر اعظم نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ میں چھوڑ دیتا ہوں، آپ کسی اور کو وزیر اعظم بنا لیں، تو اس پر آپ کیا کہیں گے۔ فہد کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے کہ دباؤ آ گیا ہے اور دباؤ اتنا شدید ہے کہ اسے ریلیز کرنے کا اور کوئی طریقہ نہیں سوائے اس کے کہ اس طرح کی باتیں کی جائیں۔

فہد حسین نے کہا کہ اس خبر کے اتنے پہلو ہیں کہ مجھے تو سمجھ نہیں آ رہی کہ شروع کہاں سے کروں۔ سب سے پہلے تو اس کا صحافتی زاویہ دیکھ لیتے ہیں۔ یہ بات پرویز خٹک نے کی اور فوراً میڈیا میں آ گئی۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی نے اندر ہی سے بھیجی کیونکہ رپورٹرز تو اجلاس میں موجود نہیں تھے۔ جس کسی نے بھی خبر بھیجی اس نے سب چینلز کو بھیجی۔ کیونکہ یہ خبر کسی چینل کی ایکسکلوژو نہیں تھی بلکہ سب چینلز پر چل رہی تھی۔ عاصمہ شیرازی نے معنی خیز انداز مین اضافہ کیا کہ سب سے پہلے ARY پر چلی۔ یہ بات انہوں نے شاید اس لئے کہی کہ ARY کی PTI اور اسٹیبلشمنٹ سے محبت کسی سے ڈھکی چھپی تو نہیں۔

فہد حسین نے مزید اضافہ کیا کہ پرویز خٹک کوئی عام کھلاڑی نہیں ہیں، وہ بہت منجھے ہوئے سیاستدان ہیں، کمزور شاٹ نہیں کھیلتے لیکن ان کی تردید بھی مبہم تھی اور رپورٹ ہوئی گفتگو پر انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔ فہد حسین کا کہنا تھا کہ PTI میں ایک لمبی فہرست ہے loose shot کھیلنے والوں کی لیکن پرویز خٹک ان میں سے نہیں۔

انہوں نے ایک انتہائی اہم نکتے کا اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ تحریکِ انصاف میں ہر بندا ہر ایک سے لڑتا ہے لیکن آج ایک نئی حد عبور کی گئی ہے کیونکہ اس سے پہلے کبھی کسی نے وزیر اعظم پر بات نہیں کی۔ آج ان کی ذات پر تنقید ہوئی ہے اور یہ PTI کے لئے بھی نیا ہے۔

حامد میر جمعہ کو اپنے کالم میں لکھ چکے ہیں کہ PTI میں بہت سے لوگ دوسری جماعتوں سے رابطوں میں ہیں۔ فہد حسین بھی جمعرات کے کالم میں بہت اہم اشارہ کر چکے ہیں کہ ایسے ہی گھپ اندھیروں میں – جب رات سب سے گہری ہوتی ہے اور سایوں سے بھی خوف آنے لگتا ہے – ایسی چیزیں جنہیں نہیں ہونا چاہیے، کسی صورت نہیں ہونا چاہیے، اور نہیں ہو سکتیں – ہو جاتی ہیں۔ سرنگ میں داخل ہوتی ایک ٹرین کی طرح، پاکستان کی سیاست ایک اندھیر نگری میں داخل ہونے جا رہی ہے اور اس سرنگ کے دوسرے سرے سے اس کو کچھ عرصے بعد نکلنا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وقت کی یہ پٹڑی دو ماہ تک جاری رہے گی، کچھ کے نزدیک اس کا عرصہ تین ماہ ہے، لیکن سب کا اتفاق ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں فیصلہ ہو جائے گا کہ یہ بے نیام تلواریں نرم گوشت میں پیوست ہوں گی یا واپس اپنے ٹھنڈی نیاموں میں جائیں گی۔