Get Alerts

گلگت بلتستان کے اضلاع میں چائلڈ لیبر کی شرح اتنی زیادہ کیوں ہے

گلگت بلتستان کے اضلاع میں چائلڈ لیبر کی شرح اتنی زیادہ کیوں ہے
گلگت بلتستان کے ضلع شگر میں کام کرنے والے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اگلے 5 سالوں تک اس تعداد میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر بچے اجرت کے بغیر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ عالمی ادارہ یونیسف اور محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی جانب سے 2019 میں ایک سروے کروایا گیا تھا اور 2021 میں اس کی رپورٹ سامنے آئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں کم تعداد میں یعنی 5.8 فیصد کام کرنے والے بچے پائے گئے۔ واضح رہے کہ محکمہ تعلیم کے مطابق ضلع دیامر میں سکولوں کی تعداد اور شرح خواندگی گلگت بلتستان کے دیگر ضلعوں کی نسبت انتہائی کم ہے جبکہ ضلع شگر میں سکولز بھی زیادہ ہیں اور شرح خواندگی بھی دیامر سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود بھی کام کرنے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہے یعنی 27.8 فیصد بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ بلتستان ڈویژن کے دیگر ضلعوں میں کام کرنے والے بچوں کی شرح کچھ اس طرح ہے؛ سکردو 16.1، گنگچھے 23.7 جبکہ کھرمنگ میں 9.2 فیصد بچے کم عمری میں کام کرتے ہیں۔

محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے مطابق سب سے زیادہ کام کرنے والے بچے ضلع شگر میں ہیں جن میں سے زیادہ تر بچے بغیر کسی اجرت کے کام کرتے ہیں۔ اس وجہ سے پلاننگ ڈیپارٹمنٹ نے یونیسف کے ساتھ مل کر اس ضلع پر توجہ مرکوز کی ہے اور پوسٹ چائلڈ سروے ریسرچ پروجیکٹ شروع کیا جس کا مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ ضلع شگر میں چائلڈ لیبر سب سے زیادہ ہونے کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں۔ محمد ندیم ڈپٹی چیف پلاننگ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق شگر میں ہم ریسرچ کریں گے اور ہماری ٹیمیں تمام دیہاتوں اور گاؤں میں جائیں گی۔ یہ ٹیمیں لوگوں سے انٹرویو کریں گی اور دیگر تکنیک بھی استعمال کرکے تجزیاتی سروے مکمل کریں گی۔

محکمہ تعلیم کی جانب سے کرائے گئے سروے کے مطابق بلتستان ڈویژن میں کل 332,587 بچوں میں سے 29,253 بچے سکول جانے سے قاصر ہیں جو کہ بچوں کی کل آبادی کا 20.5 فیصد حصہ بنتے ہیں۔ ضلعوں کی بات کریں تو ضلع شگر سکول سے باہر بچوں کی تعداد کے لحاظ سے سرفہرست ہے یعنی یہاں کے 5,227 بچے سکولوں سے باہر ہیں جو کہ 24 فیصد بنتے ہیں جبکہ ضلع سکردو میں 10,705 بچے یعنی 23 فیصد سکول نہیں جاتے۔ گنگچھے میں 10،304 یعنی 16 فیصد بچے جبکہ کھرمنگ میں 3،004 یعنی 21 فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن پاکستان بلتستان کے کوآرڈی نیٹر وزیر مظفر حسین نے ہمیں بتایا کہ بلتستان ڈویژن میں کام کرنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ اگر حکومتی سطح پر اس حوالے سے اقدامات نہیں کئے گئے تو چند سالوں میں اس تعداد میں کئی گنا اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلتستان ڈویژن خاص طور پر ضلع شگر میں چائلڈ لیبر میں اضافے کی بڑی وجہ بچوں کا سکولوں سے باہر ہونا ہے۔ یہ بچے سکولوں سے کیوں باہر ہیں سروے کرا کر حقیقت سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کام کرنے والے بچوں سے کام تو لئے جاتے ہیں مگر اجرت یا تو کم دی جاتی ہے یا بالکل بھی نہیں دی جاتی۔ ان سے سخت موسمی حالات میں بھی کام لئے جاتے ہیں۔

دوسری جانب پچھلے سال ہوم ڈیپارٹمنٹ گلگت بلتستان سے تمام ضلعوں کو ایک سرکلر جاری ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ضلعوں میں اگر سکول کے وقت کوئی بھی بچہ باہر پایا گیا تو اس کے والد کو گرفتار کیا جائے گا لیکن اس سرکلر پر کوئی عمل نہیں ہوا اور نہ ہی کسی کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔

محکمہ تعلیم گلگت بلتستان ہر سال تمام اضلاع میں داخلہ مہم چلاتا ہے جس میں ریلیاں نکالی جاتی ہیں، بینر آویزاں کئے جاتے ہیں، لاؤڈ سپیکر سے اعلانات کرائے جاتے ہیں جبکہ جمعہ کے خطبوں کے دوران بھی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی گزارش کی جاتی ہے۔

ضلع شگر کے دورافتادہ علاقہ ارندو سے تعلق رکھنے والے غلام مہدی نے ہمیں بتایا کہ ان کے ہاں کئی کنال قابل کاشت زمینیں ہیں اور ساتھ 20 کے قریب مال مویشی ہیں اور درجنوں بھیڑ بکریاں بھی ہیں۔ ہمارا ذریعہ آمدنی زمینوں اور مال مویشیوں پر منحصر ہے اور ہم زمینوں پر کام کرتے ہیں۔ ہماری یہاں صدیوں سے روایت ہے کہ گھر کے سارے افراد چاہے وہ خواتین ہوں یا بچے، سبھی اپنے حصے کا کام کرتے ہیں۔ ہمارے چھوٹے بچے بھی ہمارا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ کچھ بچے سکول بھی جاتے ہیں اور کام پر بھی تو کچھ بچے میٹرک سے پہلے ہی سکول چھوڑ دیتے ہیں اور مکمل کھیتوں پر کام کرتے ہیں یا بھیڑ بکریاں چرانے لگ جاتے ہیں کیونکہ کام اتنا ہے کہ ہم اکیلے نہیں کر سکتے اور نہ ہی کسی مزدور کو اجرت پر رکھ سکتے ہیں۔ بچے خواتین مرد سارے مل کر اپنے حصے کا کام کرتے ہیں تب جا کر گزارہ ہوتا ہے۔

شگر خاص کے ہوٹل میں کام کرنے والے بچے اسحاق سے جس کی عمر 14 سال ہے، ہم نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ ان کا تعلق دورافتادہ علاقہ برالدو سے ہے، گھر میں کھانے والوں کی تعداد زیادہ ہے، والد دیہاڑی پر کام کرتے ہیں اور ان کی کمائی سے گھر میں گزارا نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے کام کرنے پر مجبور ہوں۔ والد کی کمائی اتنی کم تھی کہ دوسری کلاس سے ہی سکول کو خیر باد کہنا پڑا اور گیارہ سال کی عمر سے ہی دکانوں اور ہوٹلوں میں کام کرنا شروع کر دیا۔ جو کچھ کما لیتا ہوں وہ والد کو بھیجتا ہوں۔

دوسری طرف ایک اور بچہ ثقلین جس کا تعلق باشا سے ہے، وہ بھی کم عمری میں کام کرنے پر مجبور ہے۔ 15 سالہ ثقلین سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ والد مزدوری کرتے ہیں، ان کی آمدنی سے گزر اوقات نہیں ہوتا، اس لئے آٹھویں جماعت سے ہی سکول جانا چھوڑ دیا اور اب ہوٹل میں برتن دھوتا ہوں۔ تعلیم جاری رکھنا چاہتا ہوں لیکن گھریلو مجبوری اس کی اجازت نہیں دیتی۔ ہوٹل میں تین وقت کا کھانا ملتا ہے اور 6 ہزار روپے ماہوار مزدری بھی ملتی ہے جو والد کے حوالے کرتا ہوں۔ اس نے کہا کہ ہوٹل میں برتن دھونے کے ساتھ ساتھ کھانا بنانے کی بھی کوشش کر رہا ہوں تاکہ ایک اچھا باورچی بن سکوں۔

سابق رکن اسمبلی و رہنما پیپلز پارٹی عمران ندیم جو کہ ضلع شگر سے چار مرتبہ الیکشن جیت کر گلگت بلتستان اسمبلی کا حصہ بن چکے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ضلع شگر میں کام کرنے والے بچوں کی تعداد دیکھ کر انہیں حیرت ہوئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ضلع شگر میں دیگر ضلعوں کی نسبت قابل کاشت زمینیں زیادہ ہیں اور یہاں کے لوگوں کی آمدنی زراعت پر منحصر ہے اور لوگ اپنی اراضی پر محنت کرتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ لوگ اپنے بچوں کو بھی اپنے ساتھ کھیتوں پر لے جاتے ہیں اور ان سے کام کرواتے ہیں کیونکہ کسان مزدور رکھ کر مزدوری نہیں دے سکتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ شگر کے پہاڑوں میں معدنیات بھی زیادہ ہیں اور لوگوں کی بڑی تعداد کان کنی کے کام سے وابستہ ہے اور یہ کان کن اپنے ساتھ اپنے کم عمر بچوں کو بھی کان کنی پر لگاتے ہیں تاکہ کچھ پیسے کما سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہاں کے لوگ مال مویشی سے بھی آمدنی کماتے ہیں اور لوگ موسم کے حساب سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں۔ جب گرمیاں آتی ہیں تو مال مویشیوں کے ساتھ پہاڑوں پر جاتے ہیں اور موسمی سختی آتی ہے تو نیچے گاؤں کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ اس وجہ سے بچے سکولوں سے باہر ہوتے ہیں اور کم عمری میں ہی اپنے والدین کے ساتھ کام پر لگ جاتے ہیں۔

سرور حسین سکندر کا تعلق سکردو کے علاقے مہدی آباد سے ہے۔ وہ بین الاقوامی تعلقات میں ایم ایس سی کر چکے ہیں اور گزشتہ آٹھ سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ سرور مختلف سماجی مسائل سے متعلق تحقیقاتی رپورٹس تحریر کرتے رہتے ہیں۔