بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں اور سب بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ایک کامیاب ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں نو عمر بچوں کی کثیر تعداد غربت اور گھریلو جاہلیت کا شکار ہو کر کھیلنے اور پڑھنے کی عمر میں مشقت شروع کر دیتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں 12 ملین سے زیادہ بچے چھوٹی عمر میں پڑھنے کی بجائے محنت مزدوری پر مجبور ہیں۔ان میں سے زیادہ تعداد لڑکوں کی ہے جن کی اکثریت دیہاتی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے۔
ان میں سے اکثریت کو نامساعد حالات اور گھر والوں کی کفالت عمر سے قبل ہی بڑا بننے پر مجبور کر دیتی ہے اور وہ اپنے کندھوں پر کتابوں کا بوجھ اٹھانے کی بجائے کسی ورکشاپ کے اوزار اٹھاۓ پھرتے ہیں۔ جب کہ اگر کوئی بچہ پڑھنا چاہے تو بدقسمتی سے اس کو ریاست اور معاشرہ بھی کوئی مدد فراہم نہیں کرتا۔ جیسے کہ اگر کوئی بچہ کسی کے گھر یا دوکان پر کام کر رہا ہے اور میں نے بالکل ذاتی طور پر کسی مالک کو نہیں دیکھا کہ اس نے بچے سے پوچھا ہو کہ بیٹا اگر تمہیں پڑھنے کا شوق ہے تو بتاؤ ہم تمہیں پڑھاتے ہیں، ساتھ ساتھ پڑھائی اور کام دونوں کرلو یا ہم کسی اور کو کام پر رکھ لیتے ہیں تمہاری تنخواہ کے برابر امداد گھر والوں کے لیئے اور پڑھائی کا خرچہ ہم برداشت کریں گے۔
چھوٹے بچے جو کہ ورکشاپوں، ریستورانوں، لاری اڈوں، بھٹوں یا کسی اور دیہاڑی پر کام کرتے ہیں ان میں سے بعض ریپ کا نشانہ بھی بن جاتے ہے۔اس کی پرانی مثال سو بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کے قتل کرنے والا جاوید اقبال ہے جس کا کیس 1999 میں منظر عام پر آیا تھا۔اس کی تازہ مثال ڈارک ویب کا سرغنہ مجرم سہیل ایاز ہے جس کو عدالت نے بچوں سے زیادتی کر کے ان کی ویڈیوز بنانے کے جرم میں 3 دفعہ سزائے موت سنائی۔ اس درندے کا نشانہ بھی زیادہ تر گلی میں انڈے اور قہوہ بیچنے والے دیہاڑی دار بچے بنتے رہے۔
اسی طرح بعض اوقات بچے چھوٹی عمر میں سکول نہ جانے کی وجہ سے جب دیہاڑی لگانے جاتے ہیں تو وہاں غلط صحبت کی وجہ سے یا تو نشہ شروع کر دیتے ہیں یا پھر دھیرے دھیرے جرم کی دنیا میں نام کمانا شروع کر دیتے ہیں۔
ہر سال دنیا بھر میں 12 جون کو بچوں سے مشقت کے خلاف دن منایا جاتا ہے۔ اس دن پاکستان میں بھی مختلف سول تنظیمیں ریلیاں نکالتی ہیں مگر ان ریلیوں کے ختم ہوتے ہی اگلے دن سے ان میں شرکت کرنے والوں کی اکثریت نے اپنے بچوں کے اسکول بیگ اپنے گھروں میں کام کرنے والے چھوٹے بچوں کو اٹھوائے ہوتے ہیں اور کہیں ان بچوں سے گھروں کی صفائی ستھرائی کرائی جا رہی ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے اس معاملے میں ہمارے علمائے کرام اور سیاست دان سنجیدگی سے کوئی کردار ادا کرتے نظر نہیں آتے۔اس کی ایک وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ وہ خود بھی ضرورت مند بچوں سے مشقت کراتے ہوں گے اس لیۓ معاشرے سے اس کو ختم کرنے کے سلسلہ میں سنجیدہ نظر نہیں آ رہے۔
صاحب لوگوں کے گھروں میں ہر طرح کا عدم تحفظ مجبور بچوں کو منہ کھولے گھور رہا ہوتا ہے۔ بیگم صاحبہ کی جھڑکیاں اور کبھی کبھار تشدد کا بھی انہیں سامنا کرنا پڑتا ہے۔اپنی ہی عمر اور خود سے چھوٹے بچے ان پر ایسے رعب ڈال رہے ہوتے ہیں جیسے کے وہ زر خرید ملازم ہوں۔ تشدد کے معاملہ میں کچھ اس سے ملتا جلتا حال بھٹوں اور ورکشاپوں پر کام کرنے والے بچوں کا ہے جہاں ان کو استاد کے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے،کام کے مقررہ اوقات کار اور اچھا معاوضہ بھی نہیں ہوتا۔غرض وہ بچے بچپن کی دہلیز پر قدم رکھے بغیر سیدھا ظالم سماج کی بھینٹ چڑھ کر علم کا شعور حاصل کیۓ بغیر جوان ہو جاتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ صرف اعلانات کرنے کی بجائے سختی سے بچوں سے مشقت کے قوانین پر عمل کروائے ویسے غربت اور جہالت اور نا انصافی کے خاتمے سے ہی چائلڈ لیبر کا مکمل خاتمہ ممکن ہے۔ہم سب کو بھی بچوں سے مشقت یعنی چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیۓ اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ہم جہاں بھی کسی بچے کو مشقت کرتا دیکھیں اور اس پر ظلم ہوتا دیکھیں تو اس کے مالک، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں تک اپنی آواز پرزور طریقہ سے پہنچانے کی کوشش کریں۔
ہم سب کو محض دن منانے اور نعرے لگانے سے آگے بڑھنا ہو گا۔ ہمیں خود بھی چائلڈ لیبر کی مذمت کرنا ہو گی اور دوسروں کو بھی اس سے روکنا ہو گا۔
حکومت کو اس سلسلہ میں اپنا کردار سنجیدگی سے ادا کرنا ہو گا کیوں کہ آج کے بچے پاکستان کا مستقبل ہیں۔
احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔