چائلڈ لیبر: 'ایک عالمی مسئلہ، تیسری دنیا جس کا سب سے زیادہ شکار ہے'

چائلڈ لیبر: 'ایک عالمی مسئلہ، تیسری دنیا جس کا سب سے زیادہ شکار ہے'
بچوں کی مشقت ایک عالمی مسئلہ ہے تاہم ترقی پذیر اور کمزور معیشتوں والے ممالک میں اس مسئلے کی سنگینی نسبتاً زیا دہ ہے۔ چائلڈ لیبر کی پیچیدہ صورت حال کا اندازہ اسی بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں تقریبا 152ملین بچے چائلڈ لیبر میں موجود ہیں۔ ان میں سے تقریبا نصف یعنی 72.5 ملین بچے ایسے خطرناک شعبوں میں کام کرتے ہیں جو بچوں کی صحت، تحفظ اور اخلاقی ترقی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ چائلڈ لیبر بچوں کے بنیادی حقوق کی نفی کے ساتھ ساتھ بچوں کا معاشی استحصال بھی ہے، جو ہمارے ملک کے بچوں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کرتی ہے۔ چائلڈ لیبر کی وجہ سے بچے اپنے تعلیم جیسے اہم آئینی حق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ (واضح رہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25Aکے مطابق 5سال سے لے کر 16سال تک کی عمر کے تما م بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے)۔ ہر بچے کا حق ہے کہ وہ اپنے بچپن سے بھر پورلطف اندوز ہو۔ تاہم مشقت کے باعث بچے اپنی زندگی کے بہترین حصہ کو انجوائے نہیں کر پاتے جس سے بچوں کی نفسیاتی اور جذباتی صحت شدید متاثر ہوتی ہے۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جس رفتار کیساتھ آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اسی رفتار کے ساتھ غربت، بے روزگاری، مہنگائی کے ساتھ سماجی ومعاشی اور مالی مسائل بھی بڑھتے جارہے ہیں اور ان گھمبیر مسائل کی وجہ سے چائلڈ لیبر کی شرح میں بھی خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ کووڈ۔19 سے پید ا ہونے والی صورت حال نے بھی عالمی سطح پر بچوں کی مشقت میں اضافہ کیا ہے۔ پائیدار ترقی کے ہدف 8کے ٹارگٹ8.7کے مطابق ہمیں 2025تک بچوں کی مزدوری کی تما م اشکال بشمول جبری مشقت، غلامی کی جدید شکلوں اور انسانی اسمگلنگ کا خاتمہ عمل میں لانا ہے۔
دنیا بھر میں بچوں کی مشقت کے خلاف چائلڈ لیبر کا عالمی دن 12جون کو اس عزم کے ساتھ منایاجا رہا ہے کہ بچوں کی مشقت کے خاتمے کے لیے اب وقت آگیا ہے کہ ٹھوس عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔ اس دن کی مناسبت سے مختلف تقریبات، لیکچرز اور واکس کا اہتمام بھی کیا جاتاہے۔ یہ دن منانے کا مقصد محنت کش بچوں کے مسائل کو حکومت اور ذمہ داران تک ہم آواز ہو کر پہنچانا ہوتا ہے تاکہ ملک میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے حکومت ٹھوس عملی اقدامات اٹھائے۔بین الاقوامی ادارہ برائے محنت کے مطابق چائلڈ لیبر وہ کام ہے جس سے بچے اپنے بچپن کی امنگوں، باعزت و پروقار طرززندگی سے محروم ہو جائیں اور جو انکی جسمانی، ذہنی اور اخلاقی نشوونما کیلئے نقصان دہ ہو اور جس سے انکی لازمی تعلیم میں حرج ہو۔ صوبہ پنجاب میں بچوں کی مشقت کی روک تھام کے لیے 3مختلف قوانین موجو د ہیں صوبہ پنجاب میں بچوں کی مشقت کی روک تھام کا قانون۔2016 کے مطابق 15سال سے کم عمر کا بچہ کسی بھی طرح کی مشقت نہیں کر سکتا۔ جبکہ بچوں کے لیے خطرناک قرار دئیے گئے شعبوں میں 18سال سے کم عمر کے افراد کو ملازم نہیں رکھا جا سکتا۔ قانون کی خلاف ورزی پر 6ماہ تک قید اور 50ہزار وپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔ اس قانون کے تحت محکمہ محنت و انسانی وسائل نے سال 2020کے دوران صوبہ بھر میں کل 7891انسپکشن وزٹ کیے۔ 567واقعات میں چائلڈ لییر پائی گئی جبکہ 469ایف آئی آرز کا اندراج عمل میں لایا گیا اور180افراد کو گرفتا ر بھی کیا گیا۔ انہوں نے کہاہے کہ صوبہ پنجاب میں بھٹوں پر بچوں کی مشقت کی ممانعت کا قانون۔ 2016 کے مطابق 14سال سے کم عمر کا بچہ بھٹے پر ملازمت نہیں کر سکتا۔خلاف ورزی کر نے والوں کو 6ماہ تک قید اور 5لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔ اس قانون کے تحت محکمہ محنت و انسانی وسائل نے سال 2020کے دوران صوبہ بھر میں کل 34419انسپکشن وزٹ کیے۔1901واقعات میں چائلڈ لییر پائی گئی جبکہ 1647ایف آئی آرز کا اندراج عمل میں لایا گیا اور491افراد کو گرفتا ر بھی کیا گیا۔اسی طرح صوبہ پنجاب میں گھریلو ملازمین کا قانون 2019بھی موجو دہے جس کے مطابق 15سال سے کم عمر افراد کو گھریلو ملازم نہیں رکھا جاسکتا، اور اگر 15سال سے زائد اور 18سال سے کم عمر افرادکو گھریلو ملازم رکھا بھی جاتا ہے تو ان سے بھاری کام نہیں کروائے جا ئیں گے۔ اس قانون کے تحت 12 سال سے کم عمر بچوں کو گھریلو ملازم رکھنے کی صورت میں ایک ماہ تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اور اگر 12سے 15سال تک کی عمر کا بچہ یا بچی گھریلو ملازم رکھا گیا ہے تو 10ہزار سے لے کر 50ہزار روپے تک جُرمانہ بھی ہو سکتا ہے تاہم بدقسمتی سے اس قانون کی خلاف ورزی کر نے والوں کے خلاف عرصہ دو سال میں ایک بھی کیس درج نہیں کیا جا سکا، باوجود اس کے کہ مارکیٹوں، شاپنگ مال، ریسٹورنٹ اور دیگرا اہم مقامات پر گھریلو ملازم بچوں کی خاصی تعداد نظر آتی ہے۔یہ بات قابل تشویش ہے کہ گھریلو بچہ مزدوری کی روک تھام کے لیے قانون صرف پنجاب اور اسلام آبا میں موجو ہے (گو کہ ان پر عمل درآمد کے لیے ابھی مزید کاوشیں درکار ہیں) جبکہ صوبہ سندھ، خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں ابھی اس اہم معاملے پر قانون سازی عمل میں نہیں لائی جا سکی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت چائلڈ لیبر کے حوالے سے موجود قوانین کی وسیع پیمانے پر تشہر کرے تا کہ عوام الناس کو یہ باور کروایا جائے کہ بچوں کو ملازم رکھ کر وہ غیر قانونی عمل کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس طرح کی ہیلپ لائن قائم کر نے کی بھی ضرورت ہے جہاں باشعور شہری چائلڈ لیبر خصوصا گھریلو بچہ مزدورں کی موجودگی کی اطلاع دے کر حکومتی اداروں کی معاونت کر سکیں۔بچوں کا مشقت میں داخلہ روکنے کے لیے مزدوروں کے لیے مقرر کردہ کم از کم تنخواہ کی ادائیگی یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ عورتوں کی معاشی با اختیاری بھی بچوں کا چائلڈ لیبر میں داخلہ روکنے کے لیے معاون و مددگار ہو سکتی ہے۔سوشل پروٹیکشن پروگرامز کو مزیدمربوط اور ٹارگٹڈ انداز میں آگے بڑھانا ہو گا تاکہ کمزور طبقات کی بحالی کو یقینی بنایا جا سکے۔ لیبر انسپکشن کے سسٹم کو مزید مضبوط بنا نا ہو گا تاکہ چائلڈ لیبر کے حوالے سے موجود قوانین پر موثر عمل درآمد ہو سکے، واضح رہے کہ اس ضمن میں لو کل باڈیز اور مقامی افراد نگرانی کے عمل میں حکومت کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے حکومتوں کو طویل مدتی منصوبوں کی جانب پیش قدمی کر نا ہوگی، سول سوسائٹی اور حکومتی اداروں کو سٹریٹیجک پارٹنر شپ بنا نا ہوگی اور مل کر ایک ہی سمت میں آگے بڑھنا ہو گا۔