کیا عمران خان حکومت کو ہٹانے کا منصوبہ نومبر 2019 میں بن چکا تھا؟

کیا عمران خان حکومت کو ہٹانے کا منصوبہ نومبر 2019 میں بن چکا تھا؟
آج کل سیاسی میدان میں ہر سو تبدیلی والوں کے تبدیل ہونے کی خبریں ہیں اور اس حوالے سے روز نئے دعوے کئے جاتے ہیں۔ اسی حوالے سے ایک تازہ ترین انکشاف ہوا ہے۔

انکشاف کیا ہے کہ تبدیل کرنے والے تو تبدیلی پر 9ماہ سے آمادہ تھے تاہم سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نہ کی وجہ سے منصوبہ لٹک گیا۔ حتیٰ کہ دینے والوں نے تو اب بھی ن لیگ کو تبدیلی برانڈڈ حکومت کو تبدیل کرنے کا ٹھیکہ دینا چاہا تھا لیکن پھر نواز شریف آڑے آگئے ہیں۔
اعزاز سید نے انکشاف کیا کہ نومبر 2019ء میں ایک فارمولہ طے پاگیا تھا کہ مرکزمیں عمران خان کو گھر بھیج کر مسلم لیگ ن کو ایک بار پھر موقع دے دیا جائے۔ شرط مگریہ کہ مرکز میں شریف خاندان کے کسی فرد کی بجائے شاہد خاقان عباسی یا ایازصادق کو وزیراعظم بنایا جائے۔ غالبا ایاز صادق پر اتفاق بھی قائم کرلیا گیا تھا۔
پنجاب کی کمان عثمان بزدار سے لے کر گجرات کے چوہدریوں کے حوالے کرنا تھی۔ پرویز الٰہی ایک موثر وزیراعلیٰ کی حیثیت سے ماضی میں بھی اپنی انتظامی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے تھے اب انہیں ایک بار پھر آزمانے کا فیصلہ کیا گیا۔
مجوزہ منظر کشی کرنے والوں کا خیال تھا کہ مرکز میں مسلم لیگ ن کے ہاں میں ہاں ملانے والے چہرے اور پنجاب میں تجربہ کاروزیراعلیٰ کی موجودگی سے منجمد کاروبار بحال ہوجائے گا جس سے معیشت کی ڈوبتی کشتی ایک بار پھر کامیابی سے سفر کرنے لگے گی اور عام آدمی کو اطمینان حاصل ہوگا۔
یہ سب طے تھا۔ مگر ایک کردار کی نکی جئی ہاں لازمی تھی اور وہ تھا برطانیہ میں بیٹھا میاں نوازشریف۔ جس نے یہ کہہ کر سارے منصوبے کا ستیاناس کردیا کہ’’اس سسٹم کو مصنوعی ذریعوں سے گرانے کی بجائے خود گرنے دیں‘‘۔
شاید اندرخانے نوازشریف اور شہباز شریف کا یہ اتفاق بھی تھا کہ اگر اس کھیل میں اقتدار کا ہما خاندان سے باہرکسی کے سرپر بیٹھ گیا تونہ صرف ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں بچے گا بلکہ پارٹی کو کنٹرول کرنا بھی مشکل ہوجائے گا۔
اس انکار کے بعد شہبازشریف نے وطن واپس آکر طاقتوروں کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہوئے اپنی مجبوریوں کی کتھا سنائی۔ یوں مشکل سے تیارکیا گیا سارا منظر نامہ ردی کی ٹوکری کی نذر ہوگیا۔ اسی دوران کورونا نے پاکستان سمیت دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور توجہ سیاست سے ہٹ کر صحت کی جانب مبذول ہوگئی۔
یاد رہے کہ اعزاز سید کا یہ دعویٰ اور معلومات کم ازکم نیا دور کے قارئین کے لئے نئی نہیں ہیں۔ کیونکہ نیا دور کے پلیٹ فارم سے صحافی علیم عثمان اپنی تفصیلی رپورٹ میں بتا چکے ہیں کہ نواز شریف کی ایک ناں پر یہ نظام چل رہا ہے۔ جس دن یہ ناں ہاں میں بدل گئی تو بساط لپیٹ دی جائے گی ۔