سینیٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بالآخر سرمد کھوسٹ کی فلم ’ زندگی تماشہ‘ کو نمائش کے لئے پیش کیے جانے کی منظوری دے دی ہے۔ کمیٹی نے کہا کہ اس فلم میں کوئی قابل اعتراض مواد موجود نہیں ہے اور اسے کرونا وائرس کی وبا کے ختم ہونے کے بعد عوامی نمائش کے لئے پیش کر دیا جائے۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ سینیٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے متفقہ طور پر سنسر بورڈ کے اس فیصلے کو درست سمجھا ہے کہ فلم زندگی تماشہ نمائش کے لئے پیش کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ سنسر بورڈ کو کرونا وائرس کے بعد اس فلم کی نمائش کے لئے سینیٹ کمیٹی کی حمایت حاصل ہے اور اس حوالے سے تفصیلی دلائل بعد میں دیے جائیں گے۔
کمیٹی نے لکھا کہ انہیں فلم میں کوئی قابلِ اعتراض مواد نظر نہیں آیا۔
یاد رہے کہ زندگی تماشہ کی ریلیز پر حکومت کی جانب سے فروری میں روک لگائی گئی تھی کیونکہ حکومت پر تحریکِ لبیک سمیت ملک میں موجود دیگر مذہبی انتہا پسند گروہوں کی جانب سے دباؤ تھا۔ اس وقت تحریک لبیک کے سربراہ خادم رضوی نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس فلم کی نمائش کو روکنے کے لئے کسی بھی حد تک جائیں گے اور یہ نمائش ان کی لاش پر سے گزر کر کی جائے گی۔
فلم کی نمائش کے خلاف مظاہرے کیے گئے اور اس موقع پر سرمد کھوسٹ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ اس موقع پر سرمد کھوسٹ نے ایک کھلے خط میں اپنی طرف سے وضاحت پیش کی تھی اور کہا تھا کہ فلم کا مقصد کسی بھی شخص، تنظیم یا فرقے کی دل آزاری نہیں تھا بلکہ یہ فلم ملک کے تین سنسر بورڈز سے پاس ہوئی تھی جنہوں نے اس میں کسی قابلِ اعتراض مواد کی نشاندہی نہیں کی تھی۔
اپنے خط میں سرمد کھوسٹ نے کہا تھا کہ انہیں درجنوں دھمکی آمیز کالز اور پیغامات موصول ہو رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ فلم کے خلاف مظاہرے کیے جائیں گے۔ انہوں نے لکھا کہ میں کسی فلم کی وجہ سے لوگوں کی زندگیوں اور ان کے کاروباری معاملات میں تعطل نہیں چاہتا اور سوال اٹھایا تھا کہ کیا انہیں زندگی تماشہ کی نمائش کو روک دینا چاہیے۔
انہوں نے اپنی فلم کی کہانی پر کچھ روشنی ڈالتے ہوئے یہ بھی واضح کیا تھا کہ اگر ایک داڑھی والے شخص کو لازمی طور پر مولوی ہی سمجھا جانا ضروری ہے تو یقین کیجیے کہ یہ ایک اچھے مولوی کے بارے میں بنائی گئی فلم ہے۔ یہ ایک داڑھی والے شخص کے بارے میں ایک بہت ہی محبت سے لکھی گئی فلم ہے جو واضح کرتی ہے کہ داڑھی رکھے ہوئے ہر شخص محض ایک داڑھی والا شخص نہیں ہوتا بلکہ اس کے علاوہ بھی اس کی زندگی کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بطور ایک فنکار وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ ان کے فن کی وجہ سے نفرت یا بد امنی پیدا ہو۔ انہوں نے لکھا کہ اس فلم کو انہوں نے اپنی زندگی کے دو سال دیے ہیں اور اس پر اپنے پورے کریئر میں کمائے گئے تمام پیسے بھی لگا چکے ہیں۔
نیا دور نے بھی اس موضوع پر ویڈیوز شائع کی تھیں اور جیسا کہ امید کی جا سکتی تھی، اس میں ہمیں بھی بے انتہا گالیاں اور دھمکیاں موصول ہوئیں۔
اس فلم کی نمائش اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان عناصر کو جو کہ اس ملک پر، اور اس میں رہنے والوں کے عقیدوں پر اجارہ داری قائم کیے بیٹھے ہیں، یا بیٹھنا چاہتے ہیں، اب وقت آ گیا ہے کہ ان کی اس bullying سے ڈرنا چھوڑ کر وہ کیا جائے جو اس ملک کے لئے ضروری ہے۔ فلم ایک آرٹ ہے، اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ اور کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اظہار کے ذرائع کو عوام پر مفقود کرے یا ان کے الفاظ کو اپنی انا کی تسکین کے لئے سنسر کرنے پر مجبور کرے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ عوام کا ساتھ دے، نہ کہ ان شدت پسندوں کا جو کہ نہ صرف معیشت بلکہ اظہارِ فن کے تمام سہاروں پر بھی اپنی دھونس جما کر ان کا بھٹہ بٹھا دینا چاہتے ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=RndiuIjOkSQ