سوشل میڈیا پر گوادر سے چند تصاویر وائرل ہیں، جو گوادر کی مغربی ساحل (پدی زِر) کی مختلف اینگلز سے لی گئی تصاویر ہیں جہاں کشادہ سڑکوں کے کنارے سمندر کی لہروں پہ زرد رنگ کی جلتی لائٹس کی روشنی پڑ رہی ہے، ان دلفریب اور خوبصورت مناظر کو مختلف کیپشنز کے ساتھ سوشل میڈیا پر شیئر کیا جا رہا ہے۔ کوئی ان کا موازنہ دبئی سے کر رہا ہے تو کوئی کسی اور شہر سے۔
تقریباً یہ تصاویر ہر پاکستانی کی نظر سے گزری ہیں اور ہر کوئی اپنے اس خوبصورت ساحل پر فخر بھی کر رہا ہے اور شاید بہت سارے لوگوں کو پہلی دفعہ اس خوبصورت ساحل کی اس قدر خوبصورتی کا احساس ہوا ہے۔ یہ میرین ڈرائیو گوادر کی تصاویر ہیں، جہاں کچھ سال پہلے تک صرف ایک پرانی سڑک تھی جسے سمندر کی موجیں کھا چکی تھیں۔ جگہ جگہ کھنڈر بنا ہوا تھا۔ اب میرین ڈرائیو کی بنے سے خوبصورت لائٹس بھی لگ چکی ہیں اور مقامی لوگوں میں شام کی چہل قدمی کے کلچر کو بھی فروغ ملا ہے، جو ایک صحت افزا سرگرمی ہے۔
ان تصاویر میں گوادر سے متعلق مثبت رپورٹنگ بھی ہو رہی ہے، جس سے سیاحت کو فروغ ملے گا اور ترقی کا عملی ثبوت بھی مل رہا ہے۔ مگر اسی میرین ڈرائیو کے بننے سے ان سینکڑوں بچوں کا کنارہ ان سے کھو گیا ہے، جو اس تنگ شہر میں روزانہ شام کو یہاں آکر فٹ بال اور کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ اب شہر کے بچے و نوجوانوں میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا جو اسی میرین ڈرائیو والی شہر کے ہی باشندے ہیں۔
اسی ساحل کے ساتھ باتیل کی پہاڑی بھی ہے جہاں ایک وقت تھا جب سادِ کنڈگ کے مقام سے رسی کی مدد سے چڑھا جاتا تھا مگر اب وہاں خوبصورت سیڑھیاں بنی ہیں لیکن جانے پر پابندی عائد ہے، اب پہاڑی پر چڑھنے کے لئے سڑک بھی ہے جہاں اپنی شناخت کرانے کے باوجود بھی سیکورٹی خطرہ ہے۔
اسی خوبصورت میرین ڈرائیو کے ساتھ مقامی مزدور کشتی سازوں کا روایتی طریقوں سے کشتی بنانے کا کام ہوتا ہے، جس سے کئی گھروں کے چولہے جلتے ہیں لیکن اب انہیں خوف لاحق ہے کہ پتہ نہیں میرین ڈرائیو کا مکمل منصوبہ کب ان کا روزگار چھین لے اور انھیں یہاں سے جانے کا حکم دیا جائے۔ اب تک ان کے روزگار کی تحفظ کے لئے کسی بھی قسم کی کوئی گارنٹی نہیں ہے، سوائے بے روزگاری کے خوف کے۔
میرین ڈرائیو سے آگے اور اس کی دوسری طرف بھی گوادر ہے جہاں گزروان محلے کی تنگ گلیوں میں گندگی کی ڈھیر پڑے ہوئے ہیں۔ ان روشنیوں سے آگے پورا شہر ہے جہاں کے خستہ حال ٹرانسفارمرز ہلکی نمی کو برداشت نہیں کرسکتے اور ایک لنک کے جلنے سے کئی کئی رات اکثر محلے اندھیروں میں ڈوبے رہتے ہیں۔
یہ بھی اسی شہر کی کہانی ہے جہاں آل پارٹیز کے مقامی سیاسی لوگ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کرنے کے جرم میں اب تک عدالتوں میں پیشیاں دے رہے ہیں۔
میرین ڈرائیو کی ان روشنیوں اور چمکتے لہروں کا سہرا تو ترقی کے نام پر لیا جارہا ہے مگر اس شہر کے لوگوں کی خستہ حالی، بے روزگاری اور آئے روز کی چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں کی ذمہ داری کون لے گا؟ شہر میں قلت آب کی صورت حال یہ ہے کہ پچھلے دنوں گوادر پریس کلب کے ایک صحافی نے پریس کلب کی خالی ٹینکی کی تصویر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی جہاں پینے کو پانی نہیں۔
علاج کی صورت حال یہ ہے کہ ایک ڈیلیوری کیس کے لئے کراچی جانا پڑتا اور تعلیمی صورت حال تو انتہائی قابل افسوس ہے۔
انہی تصاویر والے مقام سے چند قدم آگے مایوسی اور بدحالی ہے مگر بقول ایک بزرگ شخص کے جب ان سے ایک دفعہ این ایف سی ایورڈ کے وقت پوچھا گیا کہ آج گوادر میں تمام وزرا اور اہم ملکی شخصیات آئے ہیں اور سیکیورٹی کی وجہ سے سمندر جانے پر پابندی ہے؟ تو اس بوڑھے بلوچ نے جواب دیا کہ "کوئی نہیں یہ دن بھی بےروزگاری میں گزر جائے گا مگر آج ایک دن کے لئے گوادر ٹی وی پر تو دیکھایا جائے گا ناں" بالکل ویسے ہی یہ چند فاصلے کی سڑک تھوڑی سی روشنی ہی سہی پر ان موجوں کی تصاویریں تو سوشل میڈیا پر وائرل تو ہوئیں۔