پاکستان کی وفاقی حکومت نے جعلی خبروں اور پروپیگنڈا سے نمٹنے کے لیے پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 (پیکا) میں ترمیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے وزیر قانون کی سربراہی میں قائم کمیٹی کی جانب سے مجوزہ ترامیم کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ سال وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں پیکا ایکٹ میں ترامیم کے لیے ایک کمیٹی بنائی تھی جو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کی تجاویز کی روشنی میں ترامیم کا مسودہ تیار کر رہی ہے۔ یہ مجوزہ ترامیم اس وقت وزیر قانون کے پاس ہیں جو جلد ہی منظوری کے لیے وزیراعظم اور کابینہ کو پیش کریں گے۔ جس کے بعد آرڈینینس کے ذریعے ان کو نافذ کیا جائے گا۔
پی ٹی اے حکام کے مطابق پیکا ایکٹ 2016 پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں کوئی مدد نہیں دیتا۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے کے پاس جتنی بھی شکایات گئی ہیں وہ انہیں حل کرنے میں اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے حکام کے مطابق ان ترامیم کے ذریعے پی ٹی اے اور ایف آئی اے کے اختیارات میں اضافے کے ساتھ سوشل میڈیا رولز میں بھی مزید بہتری لائی جائے گی جبکہ سرکاری پورٹلز کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ای سیفٹی ایکٹ بھی لایا جا رہا ہے۔
ایکٹ میں مزید ترمیم کرتے ہوئے پروپیگنڈے کو روکنے اور پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف موثر کارروائی عمل میں لانے کے لیے نیا سیکشن شامل کرنے کے علاوہ سزائیں بھی تجویز کی جائیں گی۔
ذرائع کے مطابق کسی بھی شخص ‘افراد کے گروہ‘ تنظیم یا کسی ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی غرض سے پھیلائی جانے والی جعلی خبروں کو تمام دستیاب ذرائع کی مدد سے چیک کیا جائے گا۔
فیک نیوز کی چیکنگ کے حوالے سے ایف آئی اے اور پی ٹی اے کا اختیار بڑھانے کیلئے سوشل میڈیا قوانین کو بہتر بنایا جائے گا۔ سرکاری پورٹلز کی حفاظت کیلئے ای سیفٹی ایکٹ متعارف کرایا جائے گا۔
حکام کا کہنا ہے کہ حکومت کی کوشش ہے کہ مدت ختم ہونے سے پہلے ہی آرڈینینس نافذ کر دیا جائے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ نگران حکومت میں بھی ان ترامیم کو نافذ کر دیا جائے کیونکہ اس سے صرف حکومت یا حکومتی ادارے ہی نہیں بلکہ کوئی جماعت یا فرد اپنے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کے خلاف شکایت کرنے کا حق رکھے گا۔
پاکستان کے پیکا ایکٹ کے مطابق جن سائبر کرائمز کی نشان دہی کی گئی ہے ان میں ڈیٹا یا انفارمیشن سسٹم تک بلااجازت رسائی یا مداخلت اور ڈیٹا کی کاپی یا کسی دوسری جگہ ٹرانسفر کرنا، ڈرانا، دھمکانا، سوسائٹی میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے کے ارادے سے ان جرائم میں سے کسی ایک پر عمل کرنے کی دھمکی دینا سائبر کرائم کے زمرے میں آتا ہے۔اس کے علاوہ کسی بھی انفارمیشن سسٹم یا ڈیوائس کے ذریعے دہشت گردی سے متعلق کسی جرم کی تعریف کرنے کے ارادے سے معلومات تیار کرنا یا پھیلانا، یا دہشت گردی سے متعلق کسی بھی فرد کو زبردستی، ڈرانے، دھمکی دینے کے ارادے سے مذکورہ بالا جرائم میں سے کسی کا ارتکاب کرنے کی دھمکی دینا، جبکہ انٹرنیٹ یا ڈیوائس کے ذریعے دہشت گردی کے لیے فنڈنگ، بھرتی کرنے کی ترغیب یا نفرت انگیز مواد کا پھیلاؤ بھی سائبر کرائم میں شامل ہے۔
اسی طرح کسی بھی انفارمیشن سسٹم، ڈیوائس یا ڈیٹا میں مداخلت کر کے عوام کو نقصان پہنچانا یا کوئی غیرقانونی دعویٰ کرنا۔ کسی بھی شخص کو جائیداد سے الگ کرنے کی وجوہات بنانا یا کوئی معاہدہ کرنے کے لیے فراڈ کرنا، ڈیٹا تبدیل کرنا، حذف کرنا یا چھپانا اور کسی دوسرے شخص کی شناخت یا اس سے متعلق معلومات کا بغیر اجازت یا بلاتصدیق استعمال بھی سائبر جرائم میں شامل ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ کسی بھی دوسرے شخص کے نام پر بغیر اجازت سم کارڈ خریدنا، کسی بھی شخص کو جنسی طور پر تعلق قائم کرنے کی ترغیب دینا، کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانا، بدلہ لینا، نفرت پیدا کرنا یا کسی شخص کو بلیک میل کرنا اور کسی قانونی جواز کے بغیر ایسا مواد رکھنا جس میں چائلڈ پورنوگرافی کے عناصر موجود ہوں یا کسی آلے کے ذریعے ایسا مواد تیار کرنا، کسی دوسرے کو دستیاب کرنا، تقسیم کرنا یا اپنے اور کسی دوسرے شخص کے لیے خریدنا بھی سائبر کرائم میں شامل ہے۔
حکام کے مطابق وسیع معنوں میں پروپیگنڈا کو ساکھ خراب کرنے کے جرم کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے لیکن کسی بھی گروہ کی جانب سے منظم پروپیگنڈا کی تعریف اس قانون کا حصہ نہیں ہے اس لیے مزید ترمیم کی تجویز دی گئی ہے۔