کم سن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات تشویش ناک ہیں

کم سن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات تشویش ناک ہیں
پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کئی دہائیوں سے ایک اہم مسئلہ ہے۔ حالیہ حقائق ہمارے معاشرے کی بھیانک حقیقتوں کو ظاہر کر رہے ہیں۔ ایک حالیہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اس سال کے پہلے 5 ماہ کے دوران پاکستان میں تقریباً 1390 ایسے واقعات رونما ہوئے جن میں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ یاد رکھنے کے لیے ایک نکتہ یہ ہے کہ یہ محض وہ کیسز ہیں جو رپورٹ کیے گئے ہیں جبکہ بہت سے کیسز ایسے ہوتے ہیں جو رپوٹ ہی نہیں ہوتے۔

اس ضمن میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اس بار زیادہ تعداد لڑکیوں کی نہیں بلکہ لڑکوں کی ہے۔ متاثرین میں 69 فیصد لڑکے اور 31 فیصد لڑکیاں ہیں۔ یہ لوگوں کے لیے حیران کن ہوگا کیونکہ وہ لڑکوں کے ساتھ بدسلوکی کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ ہم نے بحیثیت معاشرہ عزت اور احترام کو صرف لڑکیوں سے جوڑ رکھا ہے۔ ایک سوال میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ لڑکوں کی عزت کا کیا ہو گا؟ اگر یہ جاری رہا تو دماغی صحت اور ہمارے معاشرے کے رویے تباہ ہو جائیں گے۔

جنوبی ایشیائی معاشروں میں ایک دقیانوسی تصور موجود ہے کہ لڑکے روتے نہیں ہیں اور نہ ہی غمگین محسوس کرتے ہیں کیونکہ وہ طاقت کی علامت ہیں، لیکن کیوں؟ کیا وہ انسان نہیں ہیں؟ ہم نے معاشرے میں مردوں سے بھی ان کے کے حقوق چھین لیے ہیں۔ محفلوں میں بدسلوکی پر لڑکے ایک دوسرے کا مذاق اڑاتے ہیں جو کہ سراسر پاگل پن ہے۔ میں پہلے دن سے ایک بات پر یقین رکھتی ہوں کہ بدسلوکی اور تشدد کا صنف سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ جان بوجھ کر ہماری ذہنوں میں ڈالا جاتا ہے کہ یہ صنف کی بنیاد پر ہے۔ مثال کے طور پر اگر ڈکیتی مرد یا عورت کے ساتھ ہوتی ہے تو کیا پولیس یا آئین کے مطابق کارروائی میں کوئی فرق آ جائے گا؟ نہیں، ایسا نہیں ہوگا!

پھر بدسلوکی، تشدد اور عصمت دری کے یہ جرائم نہایت گھناؤنے ہیں۔ ہم سب کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی نابالغ یا بالغ اس کا مستحق نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں عام آدمی میں شعور کا بہت فقدان ہے۔ لوگ اپنے حقوق سے ناواقف ہیں اور معاشرے کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے اس سے آگاہ نہیں ہیں۔ اس میں ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات کا بھی عمل دخل ہے جن میں غلطی پائی جاتی ہے۔

اس سوسائٹی کے عقائد اور معیارات کے مطابق لڑکے کسی کو یہ بھی نہیں بتاتے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ بچوں کے معاملات میں والدین اور سکول بچوں کو یہ نہیں سکھاتے کہ برا اور اچھا لمس کیا ہوتا ہے۔ والدین کی نسلوں کو بھی تعلیم نہیں دی گئی۔

مزید یہ کہ اگر کوئی ایک قدم آگے بڑھانا چاہے تو تھانے کا کلچر اور تذلیل ناقابل برداشت ہے۔ اس جرم میں زیادہ تر صاحب اختیار لوگ شامل ہیں۔ اس لیے کوئی بھی سنجیدہ قدم اٹھانے کو تیار نہیں۔ متاثرین اور مجرموں کے لیے مناسب مشاورتی مراکز موجود ہونے چاہئیں، ورنہ یہ کھیل کبھی نہیں رکے گا۔

جنسی ہراسانی اور جنسی زیادتی کو ایک سنگین مسئلہ سمجھیں یا نابالغوں کی زندگیاں برباد کرتے رہیں! انتخاب آپ کا ہے۔

رامین محمود صحافی ہیں اور سماء ٹی وی کے ساتھ وابستہ ہیں۔