کوئی پاکستان کو ان سازشی تھیوریوں سے بچائے

کوئی پاکستان کو ان سازشی تھیوریوں سے بچائے
کرونا وائرس کے متعلق تو آپ نے بہت سارے عجیب و غریب مفروضے اور تھیوریاں سُنی ہوں گی لیکن میں آپ کو ایک اور تھیوری کے بارے میں بتاتا ہوں۔ کل رات پاک آرمی کے ایک حاضر سروس کپتان کے کچھ واٹس ایپ سٹیٹس دیکھے تو مجھے یقین ہو گیا کہ مملکتِ خداداد کا مستقبل ’محفوظ‘ ہاتھوں میں ہے۔ کپتان صاحب نے واٹس ایپ پر پانچ سٹیٹس ڈالے تھے لیکن تمام سٹیٹس ایک بات کے اِرد گِرد گھوم رہے تھے کہ کرونا وائرس عالمی سامراج کی مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ہے۔

ایک سٹیٹس میں انہوں نے کسی ورلڈ آرڈر کے متعلق تصویر لگا کر کہا تھا کہ عالمی سامراج اب ڈھٹائی کے ساتھ ورلڈ آرڈر کی بات کر رہا ہے اور ان کا منصوبہ یہ ہے کہ نئے ورلڈ آرڈر کے نفاذ کے لئے چند ارب لوگوں کو مارنا چاہتے ہیں اور کرونا وائرس کی وجہ سے مرنے والے لوگوں سے شروعات کی گئی ہے۔ اِس کے بعد شاید بڑا قتل عام شروع ہوگا۔ اِس کے بعد فسادات، جنگیں، ویکسین (پتہ نہیں اِس کا کیا مطلب)، مارشل لاء اور بین الاقومی غلامی شروع ہوگی۔ ایسی باتوں پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔



دوسرے سٹیٹس میں ایک خبر کا حوالہ دیا گیا تھا جِس میں کہا گیا تھا امریکہ میں نسلی تعصب کی وجہ سے ہونے فسادات ایک سازش کا حصہ ہیں جِس کا مقصد امریکی حکومت بدلنا ہے۔ موصوف نے کہا تھا کہ ’سازش‘ اور ’حکومت بدلنے‘ جیسے الفاظ غور طلب ہیں کیونکہ ہم نے پہلے ہی کہا ہے کہ یہ دنیا میں حکومتیں بدلنے اور غلامی کی ایک سازش ہے۔ اب موصوف کو امریکہ اور دنیا کا فرق نہیں معلوم تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟

تیسرے سٹیٹس میں کسی اسرائیلی وزیر اعظم کی بغیر ماسک کی تصویر جِس میں باقی لوگ ماسک لگائے ہوئے تھے کے ساتھ کہا گیا تھا کہ آپ اس رذیل کو ماسک پہنے ہوئے نہیں دیکھیں گے کیونکہ اِس کو پتہ ہے کرونا وائرس یا تو مہلک نہیں ہے اور یا تو اِنہوں نے پہلے سے ویکسین لگائی ہوئی ہے۔ اب صاحب کو شاید نہیں پتہ لیکن اِس بات سے اُنہوں نے اپنے سلیکٹڈ عمران خان کو بھی وہی کہا ہے جو الفاظ اسرائیلی وزیر اعظم کے لئے استعمال کیے کیونکہ وہ بھی تمام لوگوں کی موجودگی میں بغیر ماسک کے گھوم پھر رہے ہوتے ہیں۔

چوتھے سٹیٹس میں ماسک پہننے کے نقصانات سے متعلق کوئی تصویر شیئر کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ ماسک پہننا کرونا وائرس سے نہیں بچاتا بلکہ الٹا صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔ اب آپ ہی سوچیے اور اندازہ لگائیے کہ ماسک نہ پہننے کی ترغیب دینا کتنی خطرناک بات ہے اور اس سے لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔

پانچویں سٹیٹس میں امریکی طبی ماہرین کا  یہ بیان کہ ’ہم مالی تعصب کے خلاف مظاہروں کی حمایت کرتے ہیں‘ دکھا کر یہ دکھایا گیا تھا کہ چونکہ مظاہرے لاقانونیت اور انتشار پیدا کرتی ہے اس لئے سامراج نے اپنے منصوبے کے لئے کرونا وائرس کے ایس او پیز کو بھی نظر انداز کر کے مظاہرے کرنے کی اجازت دی ہے۔



چھٹا اور آخری سٹیٹس سب سے زبردست تھا جِس میں کہا گیا تھا کہ اس بات کو مذاق مت سمجھیے، یہودی اصل میں عام انسان نہیں ہیں بلکہ شیطان کے قبضے میں ہیں اور وہ دنیا کو تباہ کر کے یروشلم میں اپنا گرجا گھر بنانا چاہتے ہیں۔ اِس گرجا گھر کے بنانے میں صرف مسلمان رکاوٹ ہیں، اس لئے عالمی سامراج نے مسلمانوں کو مختلف طریقوں یعنی آسٹریلیا کی آگ، ٹڈی دل کے حملے، مظاہروں اور فسادات، چاند گرہن، خلائی مخلوق کے قبضے اور کرونا وائرس وغیرہ جیسی چیزوں میں مصروف کیا ہوا ہے۔

اس پر زیادہ بات کرنےکی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی سوچ رکھنے والا شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ کتنی بچوں والی باتیں ہیں۔ اِس بات سے بالکل بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عالمی سامراج انتہائی شاطر اور خطرناک ہے اور کرونا وائرس اُن کی ایک سازش کا حصہ ہو سکتا ہے لیکن اِس دعوے کے لئے بے وقوفانہ ثبوت لانے سے فائدہ کوئی نہیں بلکہ ایک بدنام محکمے  کی اور بھی بدنامی ہوتی ہے۔

پاکستانی عوام میں ایک عجیب خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ اکثر سائنسی اور عقلی دلیلوں کے بجائے ایسی واہیات اور ماورائے عقل باتوں پر زیادہ یقین کرتی ہے۔

مذکورہ کپتان صاحب چونکہ ایک وقت میں ہمارے ساتھ ایک تنظیم میں کام کرتے تھے، اس لئے اُس کے ساتھ اکثر گپ شپ ہوتی تھی۔ اُس کی ذہنیت اور سوچ کا اندازہ لگانے کے لئے ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے۔ ایک مرتبہ ایک تقریب میں میں نے پشتون تحفظ موومنٹ کی ٹوپی پہنی ہوئی تھی تو انہوں نے سامنے بیٹھے دوستوں کے ساتھ مجھ پر اور پشتون تحفظ موومنٹ پر بات کرنا شروع کی۔

میں سُن کر لطف اُٹھاتا رہا لیکن جب بات حد سے گزر گئی تو میں نے بھی بولنا شروع کر دیا۔ بات عبدالغفار باچا خان اور اُس کے فرزند ولی خان تک پہنچ گئی۔ چونکہ ریاستی بیانیے کے حساب سے وہ ملک دشمن اور غدار ہے، اس لئے انہوں نے بھی یہی کہا۔ میں نے کہا کپتان صاحب آپ تو پڑھے لکھے اور فوجی افسر ہیں، آپ تو کم از ایسی بچوں والی باتیں نہ کریں۔ اگر باچا خان اور اُس کے خاندان کے بارے میں معلوم کرنا ہے تو اُنہوں نے موٹی موٹی کتابیں لکھی ہیں، وہ ذرا پڑھیے۔

کپتان صاحب نے کہا کہ میں ایسے غداروں کی کتابیں نہیں پڑھتا۔ اس تاریخی جواب کے بعد میں کچھ نہ کہہ سکا لیکن اُس کی ذہنیت کا اندازہ اچھی طرح ہو گیا۔