بحث و مباحثے سے متعلق اپنے عزیز ہم وطنوں یعنی پاکستانیوں کی نفسیات جہاں تک میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں بحث و مباحثہ مسئلے کو سمجھنے سے زیادہ مدمقابل کو اپنا آپ افلاطون ثابت کرنے اور ایک دوسرے کو اونچا نیچا دکھانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس رجحان سے آپ ہمارے پاکستانی ہجوم کی ذہنی پسماندگی کا اندازہ لگا سکتے ہے۔ پوری دنیا میں بحث و مباحثے کا مقصد مسئلے کو سمجھنا اور اس کا بہتر سے بہتر حل نکالنا ہوتا ہے جبکہ ہمارے زندہ ہجوم کا معیار لاثانی آپ کے سامنے ہے۔ بس ہم نے بحث کرنی ہے، شوروغوغا مچانا ہے، بھلے ہمیں خود بھی سمجھ نہ ہو کہ ہم کہنا کیا چاہتے ہیں۔ بھلا ہمارے افلاطونوں کے سامنے دلیل، منطق، فلسفے اور حقاٸق کی اوقات ہی کیا ہے!
آج سے چار برس قبل ٹرانسیجنڈر پرسنز (پروٹیکشن آف راٸٹس) ایکٹ 2018 پارلیمنٹ سے منظور کیا گیا تھا۔ اس بل کے منظور ہونے سے پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہوگیا تھا جس نے اس مظلوم طبقے کے حقوق کو قانونی شکل دی تھی۔ 4 سال ہم روایتی خواب غفلت میں سوئے رہے اور اب ہمیں ہمارے ملک کے ہردلعزیز موضوع 'ہم جنس پرستی' کے نعرے نے یکلخت جگا دیا ہے۔ اب یہ عالم ہے کہ سوشل میڈیا پر چلے جائیں، کسی محفل میں یا پھر کسی چائے خانے پر چائے پینے بیٹھ جائیں، ہر طرف یہی بحث ملے گی۔ میں اپنی مصروفیات کی وجہ سے ان بحث مباحثوں سے دور تھا مگر پھر خواجہ سراؤں کے ساتھ ہمارے معاشرے میں ہونے والے ظلم و زیادتی اور تعصب پر مبنی امتیازی اور غیر انسانی رویئے نے مجھے مجبور کیا کہ میں ان کے لئے کچھ لکھوں اور ان کی آواز بنوں۔
اپنے گریبانوں میں جھانک کر اللّہ کو حاضر و ناظر جان کر کچھ لمحوں کے لئے سکون سے سوچیں کہ کیا ہم نے ہمیشہ اس مظلوم طبقے کا مذاق نہیں آڑایا؟ ہم نے ہمیشہ ان کی تحقیر اور تذلیل نہیں کی اور ان پر بیچ بازار آوازیں نہیں کسیں؟ کیا ہم نے ان کو جنسی ہوس کے لئے جنسی کھلونے کی طرح استعمال کرنے کے بارے میں نہیں سوچا؟ یہ تو وہ مظلوم طبقہ ہے جنہیں خون کے مقدس رشتوں نے بھی اس جاہل اور بے حس معاشرے کی وجہ سے ٹکرا دیا۔ میں نے ٹرانسجینڈر بل کو چار سے پانچ مرتبہ پڑھا ہے۔ اسلام کی مناظروں کی حد تک خدمت کرنے والے مجھے یہ بتائیں کہ ہم جنس پرستی کی اجازت اس بل میں کہاں دی گٸ ہے؟ اس بل میں کہاں لکھا گیا ہے کہ مرد دوسرے مرد اور عورت دوسری عورت سے شادی کرسکتی ہے؟ ایسا کہاں لکھا ہوا ہے کہ کوٸی مرد یا عورت اپنی مرضی کے مطابق جنس تبدیل کر سکتا ہے؟ اس بل میں خواجہ سراؤں کو طبی، تعلیمی، نقل و حمل اور جاٸیداد میں وراثت کے وہ بنیادی حقوق دیئے گئے ہیں جو ہر مہذب معاشرہ کسی بھی انسان کو دے گا تو کیا خواجہ سرا انسان نہیں ہیں؟
جتنا میں سمجھ سکا ہوں، اس مظلوم طبقے کو انسانی حقوق دلوانے اور ان کی محرومیاں دور کرنے کے لئے اس سے زیادہ مثالی اور شاندار بل کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا سوائے اس کی پہلی شق کے۔ پہلی شق کے مطابق خواجہ سراؤں کو اپنی جنس کی شناخت غیر مشروط طور پر اپنی مرضی سے کرنے کی اجازت دی گٸی ہے۔ یہاں میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان سے اتفاق کرتا ہوں کہ جنس کا تعین میڈیکل بورڈ کی جانچ پڑتال سے مشروط ہونا چاہئیے جو کہ ایک دانشمندانہ رائے ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں یہی طریقہ کار راٸج ہے۔ دوسری بات ایسی لاتعداد مثالیں ہیں جہاں لڑکوں نے مجبوری یا مستی کی وجہ سے خواجہ سراؤں کا روپ دھار لیا ہے لہٰذا یہ فیصلہ کسی مستند میڈیکل بورڈ کی توثیق سے مشروط ہونا چاہئیے۔
ہمیں خود سے یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم تیسری جنس کے حامل انسانوں سے انسانیت پر مبنی برابری کا سلوک کرتے ہیں؟ جب بارش ان پر برسنے سے انکار کرے، جب سورج انہیں اپنی دھوپ اور روشنی دینے سے انکار کرے، جب قدرت ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرے، جب خدا کی تخلیق کردہ اس مخلوق کو خدا کمتر انسان سمجھنے کا حکم دے تو پھر میں بھی اس ہجوم میں شامل ہو کر یہی نعرے لگاؤں گا کہ اسلام خطرے میں ہے، معاشرتی اقدار خطرے میں ہیں۔ جب ایسا ہے ہی نہیں تو پھر میں اس مظلوم طبقے کے حقوق کی جدوجہد میں ہمیشہ ان کا ساتھ دوں گا۔