یہاں دہشت گرد آزاد ہیں اور آزاد خیال دہشت گرد

یہاں دہشت گرد آزاد ہیں اور آزاد خیال دہشت گرد
آزادی اظہار، جمہوری معاشرہ کی بنیاد ہے جس میں ایک آزاد معاشرے کے شہریوں کو بنیادی، معاشرتی اور قومی روئیوں کو بھانپنے کا موقع ملتا ہے۔ اس ملک میں آزادی اظہار کے چھالے ہمیشہ سے ہی غیر جمہوری قوتوں کو کرب میں مبتلا کیے رہے ہیں۔ کیونکہ ایک آزاد معاشرہ ہمیشہ سے ہی نئی جہتوں سے زندگی کے سکون کو قائم رکھنے کے لیے اسی تگ و دو میں رہا ہے کہ آزادی پسندوں کی ترجیحات کو بھانپے۔ سوچ کی وسعت کو سمجھے اور آگے بڑھے۔ کیونکہ، آزادی تو انبیا کی سنت ہے۔ چپ سادھ لینا جرم ہے، ظلم ہے اور محکومی کی بدترین مثال ہے۔ جس معاشرے میں آپ آزادی سے بول نہیں سکتے، سوچ نہیں سکتے یا بیان نہیں کر سکتے اس معاشرے کے قبرستان تو آباد رہتے ہیں مگر گھر فقط گورکھن کی جائے پیدائش بن جاتے ہیں۔ کہنے کو ہم آزاد تو ہو چکے ہیں مگر آزادی کے رموز سے ابھی تک آشنا نہیں ہوئے۔

آزاد معاشرے سے مراد ایسا معاشرہ ہے جس میں بات کرنا آسان ہو۔ بولنا وبال جان نہ بنتا ہو۔ اس واسطے سیاست اور صحافت لازم و ملزوم تھیں۔ جہاں سچ سننے، پھر سچ بولنے اور لکھنے کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ہمارا معاشرہ ہمیشہ سے ہی اس حوالے سے غیر محفوظ نظر آیا ہے۔ یہاں آزادی، برداشت اور ذہانت سے منسلک طبقات کو شدید ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ مذہبی آزادی ہو یا سیاسی بصیرت، اخلاقیات ہوں یا معاشرت۔ ہر ڈومین میں قدغن ہے۔

اندازہ لگائیے کہ ایک فلم جو کہ آرٹسٹ کا فکشن ورک ہے، اسے چند مذہبی شدت پسند ریلیز نہیں ہونے دیتے۔ ریاست ان کے سامنے بے بس ہے۔ محکوم ہے، مظلوم ہے اور بے حد لاچار ہے۔

ہماری درگاہوں اور دانش گاہوں میں جہالت پنپ رہی ہے۔ اختلاف کجا، یہاں بات کرنا ہی وبال جان بن جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ہر ذہن کو تشدد سکھایا جاتا ہے۔ گالم گلوچ، مار دھاڑ کو ہی ہر معاملہ کا حل مانا جاتا ہے۔ ہماری ریاست کا بنیادی المیہ یہ ہے کہ یہاں تحقیق، علم، تعلیم اور جستجو کو کوئی مقام حاصل نہیں ہے۔ آپ اس معاشرے میں مولوی سے بات کریں تو اس سے بڑا معلم دیکھنے کو نہیں ملے گا، آپ اگر فوجی سے بات کریں تو اس سے بڑا محب وطن اور سیاستدان ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔

سیاستدان تو جمہوریت کی میراث ہیں۔ ایک عام پاکستانی ان کے کردار یا معاملات پر لب کشائی کر دے تو نشان عبرت بن جاتا ہے۔ زبان بند کر دی جاتی ہے، گلا گھونٹ دیا جاتا ہے اور صحافی تو ہیں ہی بی۔اے پاس۔

اس ملک کو بیوروکریٹس کی ضرورت نہیں۔ اس ملک کو وکلا، سیاستدان، صحافیوں اور اساتذہ کی قطعی ضرورت نہیں۔ یہاں منجھن بیچنے والے ایک دن میں انگریزی سیکھا دیتے ہیں۔ تعلیم سے مراد یہاں صرف نصابی کتاب پڑھنا ہے۔ تحقیق اور جستجو کی راہ میں چلنا یہاں کوئی ہم سے سیکھے۔ کیونکہ ہم کرونا وائرس کا علاج الائچی سے کرتے ہیں۔ بلکہ سائنس تو ہمارے علاج مالجے سے شدید حد تک متاثر ہے۔ ہمارے اساتذہ کو کتاب پڑھنے کی کبھی ضرورت نہیں ہوتی۔ کیونکہ جو پڑھتے ہیں وہ پھر اس ملک سے ہی بھاگ جاتے ہیں۔

ملک کی اکثریت فرضی نعروں، ڈھکوسلوں اور چالبازوں کے رچائے کرتب کے زیر اثر ہے۔ اس سے زیادہ خوش بختی کیا ہو سکتی ہے کہ ہمارا آزاد جمہوریت پسند سیاستدان بھی صحافیوں کو سبق سیکھاتا ہے۔ مولوی بھی اور فوجی بھی۔  آزاد کشمیر ہو یا کوئی بھی صوبہ۔ یہاں عورتوں کے اپنے مسائل ہیں۔ مردوں کی اپنی مجبوریاں، ریاست کے اپنے ترانے اور عوام کے انوکھے نوحے۔

رہی بات کہ کرنا کیا ہے تو وقت نکال کر مر جائیں۔ سیاست کو مت ٹٹولیں ورنہ گندگی سے اپنا بدن لتھڑ جائے گا۔ معاشرت کو مت سمجھیں ورنہ اپنے جسم میں موجود گند کے تعفن سے باولے ہو جائیں گے۔

معزز قارئین! وقت کو بھانپیں، ہماری تمام سیاست، جھوٹے نعروں، اداکاروں اور بانگوں پر محیط ہے۔ پاکستان زوال کو مٹانے کے لیے بنا تھا۔ ہمارا مقصد تھا کہ قوم کو جہالت سے نکال کر بہتری کی طرف لائیں۔ مگر یہاں معالج اور مریض دونوں ہی بیمار ہیں۔ غیرت تو ہم میں ایسے کوٹ کوٹ کر بھری ہے کہ کوئی ہماری عورت کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے تو ہم عورت کو ہی نشان عبرت بنا دیتے ہیں۔

مذہب کا ہر فرقہ ہی حق پر ہے۔ حق پر نہیں تو مسلمان ہی نہیں۔ صد افسوس ہے کہ یہاں ہر غلط کام شیطان کرتا ہے کیونکہ ہم بے چارے تو دودھ کے دھلے ہیں۔ ہم جیسا مجبور اور محکوم دنیا میں کون ہو سکتا ہے۔ حاجی صاحب ملاوٹ نہیں کرتے، وہ تو بھنس پانی پی جاتی ہے۔ یہاں دوکاندار بیس کی چیز دوسو کی بیچ کر مسلمانوں کو عمرانی عذاب سے ڈرا رہے ہوتے ہیں۔ نوکریاں حکومت کیوں دے جو سرکاری نوکریاں ڈھونڈتے ہیں وہ تو کاہل اور نکمے ہیں۔ یہ معروف وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کی بھڑک ہے۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ آپ نے اپنا مستقبل کن کے ہاتھوں میں سونپ دیا ہے۔

حکومت کا کام ہے انصاف مہیا کرنا۔ جی بلکل درست بات۔ یہاں مشرف کو انصاف مل چکا ہے، احسان اللہ احسان کو بھی شاید مل گیا ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف بھی اس جام سے قرار حاصل کر چکے ہیں۔ اور لاہور میں یتیم بچی اقرا کو آشیانہ سیکنڈل میں سود سمیت انصاف مہیا کر دیا گیا ہے۔ رہ گئی مریم تو چلیں اس ملک میں بیٹیوں سے اچھے سلوک کی کوئی تاریخی روایت موجود نہیں ہے۔ اگر شبہ ہو تو بینظیر کی نظیر موجود ہے۔ اگر گلہ ہو تو فاطمہ جناح کی تاریخ بھی موجود ہے۔

اس ملک میں خاک نشینوں نے ہمیشہ ہی اپنے سے بڑے کاموں میں حصہ ڈالا ہے۔ جج ڈیم بنا گے ہیں اور کئی تو بندے الٹے لٹکا گے ہیں۔ ٹھہریے! یہاں ٹیکے لگیں تو حوریں نظر آتی ہیں۔ حوریں نظر آئیں تو بھی ٹیکے لگ جاتے ہیں۔ جی کرپشن سب سے بڑا مسئلہ ہے مگر پٹواری سرعام پیسے آج بھی لیتا ہے۔ ڈی سی سرعام اپنے کلرکوں کے عوض پیسے بٹورتا ہے۔ جج تو مجبور ہے۔ ہمارے نظام انہظام کا مطالعہ اور معائنہ اگر یورپ کے ڈاکٹرز سے کروایا جا ئے تو شاید دنیا کو کچھ نیا دیکھنے کو کچھ مل جائے۔ آپ خوش قسمت ہیں ایسے آزاد معاشرے میں پیدا ہوئے ہیں۔ اور کیوں نہ خوش قسمت ہوں جبکہ یہاں دہشتگرد آزاد ہیں اور آزاد خیال دہشتگرد۔ عمران خان تو مجاہد ہے نواز شریف ہی مجرم ہے۔ یہ واحد ملک ہے جہاں بندے کی جان نکل جاتی ہے تو وہ مر جاتا ہے۔ آزادی کے لیے صبر کرنا ہو گا۔ آپ جم کے لڑیں ہم آپ کے لیے دعا کرتے ہیں۔ پھر آزاد ہو کر ہمارے ساتھ شامل ہو جانا۔ یہ وزیراعظم عمران خان نے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں سے کہا ہے۔ ویسے اچھا طریقہ ہے مفت کی کھیر کھانے کا۔ رہی قوم تو اس کے پاس بہت وسائل ہیں، ٹیلنٹ ہے مگر کہاں اور کیسے بیان کریں۔

احمدی اس ملک کا مسئلہ ہیں۔ ہم نہیں۔ ہم تو ہیں ہی لاجواب سروس کے باکمال لوگ۔ مگر بولنا نہیں۔ یہاں بولنے کی قیمت ہے اور سوچنے کی سزا۔ بس بولو ضرور بولو مگر اچھا بولو کیونکہ اچھا بولنے والوں کی قیمت بھی ہے اور زندگی کی ضمانت بھی۔ اپنے ذہن بند کر دو، بے حیا ہو جاؤ، اپنی سوچ اور حق کے لیے آواز مت اٹھاؤ، یہ بحر ظلمت ہے۔ اس میں ہزاروں تیرتی نعشوں سے آگے ہی تعفن پھیلا ہے۔

لکھاری آزاد جموں و کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں اور گزشتہ چھ سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں