(تعارف: اردو زبان سے خصوصی لگاؤ رکھنے والی مھدیہ عدالتخواہ ایرانی شہری ہیں، آپ اپنے وطن ایران سمیت خطے کے حالات پر گہری نظر رکھتی ہیں)
جہاں دنیا بھر میں نسل پرستی اور ناانصافی کے خلاف عام لوگ آواز اٹھا رہے ہیں، وہیں سیاست دان بھی پیچھے نہیں۔ امریکہ میں جارج فلوئیڈ کے قتل نے پوری دنیا میں احتجاج کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اگر بات کریں سیاستدانوں کے اس حوالے سے بیانات کی تو ایران کی وزارت خارجہ اور سپریم لیڈر نے بھی اپنے بیانات ریکارڈ کرائے۔ اور ٹرمپ کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ امریکی حکومت لوگوں کو قتل کرتی ہے اور ان کی زبان بھی دراز ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خود ایرانی حکومت اور لیڈرز اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ ٹرمپ پر تنقید کرنے کا حق رکھیں؟
غیر جانبدرانہ طور پر اگر دیکھا جائے۔ گذشتہ برس نومبر میں جب ایرانی حکومت نے تیل کی قیمتیں تین گنا کیں تو مفلس اور متوسط طبقہ سڑکوں پر نکل آیا۔ کیونکہ تیل کی قیمت براہ راست باقی اجناس کی قیمتوں کو متاثر کرتی ھے ایرانی عوام میں زیادہ تر لوگ تیل پر انحصار کرتے ہیں۔ اس لئے ایرانی عوام نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے احتجاج کا راستہ اختیار کیا۔ مظاہرین کی تعداد میں روز بروز اضافہ موجودہ حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹی ثابت ہو رہا تھا۔ مظاہرین نے شہروں میں لگے سپریم لیڈر کے پوسٹر پھاڑ ڈالے اور جگہ جگہ ’ڈکٹیٹر مردہ باد‘ کے نعرے شدت اختیار کرنے لگے۔ ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی۔ تاکہ ایران کی خبریں باہر نہ جا سکیں اور دوسرے ممالک کو ایران کی صورتحال کا اندازہ نہ ہو۔ پولیس نے مظاہرین پر تشدد کیا اور بہت سوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
ایران کے سپریم لیڈر
آیت اللہ خامنہ ای نے ٹی وی پر آ کر خطاب کیا اور کہا کہ یہ لوگ دشمن کے آلہ کار ہیں اور ان کا کام شورش کرنا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دے کر کہا کہ وہ حکومت کے اس فیصلے میں ان کے ساتھ ہیں اور مظاہرین کو اشرار کا نام دے دیا۔ اس سے اگلےدن مختلف شہروں میں نہتے مظاہرین پر گولیاں چلا دی گئیں جس کے نتیجے میں ہزار سے اوپر مظاہرین جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اپنے پیاروں کی خیر خبر دریافت کرنے سے قاصر رہے۔ پولیس کی گولیوں سے جاں بحق ہونے والے عام افراد کو شہید قرار دیا گیا جب کہ احتجاج کرنے والے جاں بحق افراد کے لئے جنازہ اور عزاداری کو ممنوع کر دیا گیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں عوام کو احتجاج کا حق حاصل نہیں ہے۔ اسی لئے کبھی بھی ایران میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے بارے میں کسی کو معلومات حاصل نہیں ہوتیں کیونکہ احتجاج کے سر اٹھاتے ہی اس کو کچل دیا جاتا ہے اور احتجاج کرنے والوں پر دشمن یا شورشی ہونے کا ٹیگ لگا دیا جاتا ہے تاکہ احتجاج اور حکومت مخالف مظاہروں سے بچا جا سکے۔ ایرانی حکومت کے خبر رساں ادارے کے مطابق نومبر کے احتجاجی مظاہروں میں 250 کے قریب افراد مارے گئے جب کہ مخالفین کا کہنا ہے کہ مارے جانے والوں کی تعداد ہزار سے اوپر ہے۔
امریکہ میں حالیہ دنوں ہونے والے مظاہروں کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا کہ مظاہروں اور امریکی املاک کو نقصان پہنچانے میں ایران، زمبابوے اور چین کا ہاتھ ہے۔
جناب خامنہ ای کے خیالات بھی ان سے کچھ مختلف نہ تھے۔ انہوں نے بھی ایران میں ہونے والے مظاہروں کے بارے میں یہی مؤقف اختیار کیا کہ ان مظاہروں میں دشمن عناصر ملوث ہیں۔ انہوں نے تیل کی قیمتوں پر برہم عوام کو دشمن کہتے ہوئے مظاہرین پر گولیاں چلانے کو جنگ اور اس میں کامیابی کو فتح سے تعبیر کیا۔
جناب خامنہ ای کے اس بیان کی رد میں دو دلیلیں ہیں۔
1۔ دشمن کیوں ایسا کام کرے گا جو اس کے لئے سود مند ہی نہیں؟ مظاہروں میں شورش کرنے سے دشمن کو نقصان ہوگا کیونکہ اس طرح وہ حکومت کو موقع فراہم کرے گا کہ مظاہرین کے خلاف کارروائی کرے۔ اور احتجاج کو کچل دیا جائے اس کے بعد حکومت کی سرنگونی کے لئے مظاہرین آگے نہ آ سکیں گے۔
2۔ اگر دشمن کا مقصد شورش کرنا اور ایرانیوں کو قتل کرنا ہے تو
انقلاب کے طرفداران اور حکومت کے حمایت یافتہ اجتماعات میں کیوں ایسا نہیں ہوتا، اور کیوں صرف عوامی احتجاج میں ایسا ہوتا ہے؟
اسی سال اسی سال عراق میں پانی کی بندش، بے روزگاری اور حکومت کے خلاف مظاہرے جاری تھے لیکن عراقیوں کے روحانی پیشوا آیت اللہ سیستانی کا مؤقف جناب خامنہ ای کے بالکل برعکس تھا آپ نے مظاہرین کی حمایت کرتے ہوئے عراقی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اور کہا کہ کسی کو حق حاصل نہیں کہ وہ عراقی عوام پر اپنی رائے مسلط کرے۔
اپنے آخری دورہ عراق کے دوران ایک خفیہ اجلاس میں سپاہ قدس کے سربراہ قاسم سلیمانی نے عراقی سکیورٹی فورسز کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ’’ہم جانتے ہیں ایران کے اندر کس طرح مظاہرین اور احتجاج کو کنٹرول کرنا ہے، ہمارے ملک میں بھی احتجاج ہوئے، ہم نے صورتحال پر قابو پا لیا‘‘۔
خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق خامنه ای اور صدر روحانی کے بعد قاسم سلیمانی ہی وہ شخص ہے جس نے نہتے مظاہرین پر گولی چلانے اور گرفتار کرنے کا حکم صادر کیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق ایران میں گذشتہ برس ہونے والے مظاہروں میں جاں بحق افراد میں 23 بچے بھی شامل ہیں۔
حالات کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا جا سکتا ہے کہ خود حکومت ایران اور اس کی لیڈرشپ نہ صرف سنگین انسانی جرائم میں ملوث ہیں بلکہ ایرانی عوام احتجاج و اعتراض کا حق بھی نہیں رکھتی۔ ایسے میں یہ کہنا کہ جب اپنا گھر شیشے کا ہو تو دوسروں کے گھر پر پتھر نہیں مارنے چاہئیں، بے جا نہ ہوگا۔