آصف فرخی کی یاد میں: دانشوری کی دنیا کا عظیم آل راؤنڈر

آصف فرخی کی یاد میں: دانشوری کی دنیا کا عظیم آل راؤنڈر
جنوبی ایشیا کی ادب اور فنون لطیفہ کی دنیا ابھی بالی ووڈ کی مشہور موسیقار جوڑی کے نصف النہار واجد کے کرونا وائرس سے انتقال کے صدمے کو سہہ پانے کی کوشش کر رہی تھی اور ساتھ ہی پاکستان کے عظیم مصنف و دانشور ڈاکٹر انور سجاد کی پہلی برسی کی تیاری کی جارہی تھی کہ اچانک یکم جون کی رات میرے فیس بک نیوز فیڈ میں ڈاکٹر آصف فرخی کی موت کی اطلاع کوندی۔ ناقابل یقین! میں نے خود سے کہا اور اس ہیجانی کیفیت میں میں نے فرخی صاحب کے سب سے قریبی دوست معاونین اور ساتھیوں میں سے ایک کشور ناہید کو اسلام آباد فون کیا۔ سسکیوں سے لبریز انکی آواز اتنی ہی دلخراش تھی جتنی کہ آصف فرخی کی وفات کی خبر جس کی تصدیق ہونے کے باوجود دل ماننے کو تیار نہیں تھا۔

کسی کو اس خبر پر یقین بھی کیسے آسکتا تھا کہ ابھی ہی توروزنامہ ڈان میں انکا شاندار مضمون شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے افضال احمد سید کی منتخب کردہ فارسی غزلوں کے ترجمہ پر اپنی تنقید پیش کی تھی اور انکے قارئین اس کی گہرائی تک پہنچنے میں مصروف تھے۔ آصف فرخی کی عمر صرف 60 برس تھی۔ انہیں دل کا ایسا دورہ پڑا کہ ہسپتال میں طبی امداد ملنے سے قبل ہی وہ انتقال کر گئے۔ آصف  کئی جہتوں کی حامل شخصیت تھے۔ ایسی شخصیت جسے ہم جنوب ایشائی کرکٹ کی اصطلاح میں ہر جانب کھیل سکنے والا آل راونڈر کہتے ہیں۔ افسانہ نگاری اور ترجمہ کرنے کے حوالے سے انکی خدمات ہمارے ادب کا بیش قیمت حصہ ہیں۔ آصف فرخی ایک بہترین نقاد بھی  تھے۔

آصف  1959 میں معروف مصنف اور محقق ڈاکٹر اسلم فرخی کے ہاں کراچی میں پیدا ہوئے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ادب کی جانب انکا جھکاو انکو ورثے میں ملا. اپنی والدہ کے شجرہ سے انکا تعلق اردو کے ممتاز لکھاریوں ڈپٹی نذیر احمد اور شاہد احمد دہلوی سے جا ملتا تھا۔ انہوں نے سینٹ پیٹرک سکول کراچی سے میٹرک جبکہ ڈی جے سائنس کالج سے انٹرمیڈیٹ کیا۔ انہوں نے ایم بی بی ایس کی ڈگری ڈاؤ میڈیکل کالج سے حاصل کی۔

اعلیٰ تعلیم کے لئے انکا جذبہ انہیں ہارورڈ یونیورسٹی لے گیا جہاں انہوں نے پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز کیا جبکہ لندن سے انہوں نے پبلک ہیلتھ اکنامکس میں ایک شارٹ کورس کیا۔ وہ آغا خان یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے جبکہ اپنی موت  تک وہ حبیب یونیورسٹی کراچی میں پڑھا رہے تھے۔ انگریزی اخبارات میں کالم لکھنے کے علاوہ انہوں نے انٹرویوز کا ایک طویل سلسلہ بھی قائم کیا جو کہ انکی کتاب 'حرف من و تو' میں شائع ہو چکے ہیں۔ اسکے علاوہ انہوں نے آتش فشاں پر کھلے گلاب، عالم ایجاد، چیزیں اور لوگ، چیزوں کی کہانیاں، اسم اعظم کی تلاش، میرے دن گزر رہے ہیں، شہر بیتی، شہر ماجرا، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا اور دیگر کتابیں لکھیں۔ اسی طرح انتظار حسین کی سوانح حیات 'چراغ صاحب افسانہ'، آصف فرخی کی اپنے موضوع کے لئے محبت اور محنت کا ثبوت ہے۔
انہوں نے ساٹھ سے زائد کتب تحریر کیں جن میں افسانوں کے 6 مجموعے، ادبی تنقید پر مبنی 2 کتب اور متعدد تراجم شامل ہیں۔ انہوں نے کئی ناولوں کا ترجمہ کیا تاہم خود ایک بھی نہیں لکھا۔ آصف فرخی کا 'شہرزادے' کے نام سے ایک پبلشنگ ہاؤس بھی تھا جہاں سے دو دھائیوں کے لیے معروف ادبی رسالہ 'دنیا زاد' شائع ہوتا رہا۔ 'دنیا زاد' کی اشاعات گزشتہ سال بند کی گئی۔ وہ اورامینہ سید 2010 میں کراچی لٹریری فیسٹیول کے بانی تھے۔ کے ایل ایف کے مخفف سے جانے والا یہ فیسٹیول بعد میں اسلام آباد اور پھر دیگر شہروں میں نقل کیا گیا۔ گذشتہ دو سالوں سے وہ کراچی ادب فیسٹیول کا انعقاد کر رہے تھے۔

میرا آصف فرخی کے کام سے تعارف ان سے  علیک سلیک ہونے سے ایک دھائی قبل ہی ہو چکا تھا جب میں نے انکے رسالے میں اٹلی کے فاشزم مخالف مرکزی خیال پر مبنی ترجمہ شدہ اگنازیو سیلونی کا لازوال ناول 'فونتامارا' پڑھا اور اس سے خوب لطف اندوز ہوا۔ تاہم میں حیران تھا کہ آصف فرخی نے اس پر ردعمل دیا ہوگا جب کئی سال بعد اگنایو سیلونی کے سی آئی اے کی ایما پر کیمونسٹ مخالف کانگریس میں شرکت اور پھر فاشسٹ پارٹی کے لئے پولیس کو مخبری کرنے کا کردار سامنے آیا۔

پھر 2000 میں بطور نچلے درجے کے سٹیٹ بینک ملازم کے طور پر کراچی میں سکونت اختیار کرنے کے دوران میں نے آصف فرخی کو کراچی کے مختلف فورمز پر سنا اور دیکھا بلکہ میرے لیئے تو کراچی کا نام آصف فرخی اور سبین محمود جنہیں انکے عروج پر ہی کاٹ ڈالا گیا، کے ناموں کا مترادف ہی ہوگیا تھا۔

اسی دوران سرگوشیوں میں کراچی کے ادبی حلقوں میں مبینہ گروپ بندی کی خبریں بھی سنائی دیتی رہتیں اور یہ ذکر بھی ملتا کہ آصف اس کا حصہ ہیں اور پھر یہ بھی کہ نہیں ہیں۔ جب میں لاہور واپس آیا تو ان سے میری ای میل پر گفت و شنید جاری رہی وہ اس حوالے سے اتنے شفیق واقع ہوئے کہ انہوں نے منٹو کی صد سالہ سالگرہ کے موقع پر شائع ہونے والی انکی تدوین کردہ کتاب منٹو کا آدمی نامہ مجھے ای میل کی۔

اس کتاب میں نہ صرف  منٹو کے کام کی جزیات کی عکاسی پر مبنی مدیر کے دو مضمون شامل تھےبلکہ فہمیدہ ریاض حمید شاہد عاصم بٹ،کشور ناہید سمیت میرے پسندیدہ مصنفین کے منٹو کے بارے میں تاثرات اور مشاہدات بھی اس کا حصہ تھے۔

فرخی کی انتظار حسین کے لئے گہری عقیدت کا اظہار اس امر سے ہوتا ہے کہ کہ انہوں نے اپنی کتاب کو انتظار حسین سے موسوم مضمون کے نام پر رکھا۔ مجھے گمان ہے کہ انہوں نے اپنے اشاعتی ادارے کا نام بھی انتظار حسین کی نظم شہرزادے کی موت سے اخذ کیا تھا۔

میں نے انکے روزنامہ ڈان میں 2013 سے لکھے جانے والے مضامین کو بھی باقائدگی سے پڑھنا شروع کیا۔ خاص طور پر سالانہ ادبی انعامات جس میں بکر ایوارڈ اور نوبیل انعام پر انکے تنقیدی مضامین۔ انکے ترقی پسندیدیت کی جانب انکے جھکاؤ کے نہ ہونے کے باوجود اور اس امر کو بھی مانتے ہوئے کہ ان سے ہر طرح کا اختلاف کیا جا سکتا ہے یہ ماننا ضروری ہے کہ انکی تنقید کا ہر کوئی انتظار کرتا اور کسی بھی ادبی صنف ہو انکے گہرے مشاہدات پر مبنی تنقید کو نظر انداز کرنا نا ممکن تھا۔

میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اپنے دو ادبی اساتذہ سے بھرپور استفادہ کیا۔ ادبی تنقید نگاری میں محمد حسن عسکری اور افسانہ نگاری میں انتظار حسین سے۔ وہ دونوں انکے ادبی نظریات کے حوالے سے کافی قریب تھے۔ عسکری صاحب کی طرح فرخی کو صرف اردور پر ہی نہیں بلکہ عالمی ادب پر ملکہ حاصل تھا جس کا اظہار انکے تراجم میں ہوتا ہے۔ اسکے ساتھ ہی انکے افسانے انتظار حسین کی طرح  تشبیہات سے مالا مال ہیں۔

تاہم ان دونوں شخصیات سے متضاد آصف فرخی کے ہاں ترقی پسند لکھاریوں کی تحریک کے حوالے سے مسدود نظریہ نہیں ہے جس کے تحت مثلاً عسکری صاحب کے ہاں ادب میں مبہمات کی ترویج دیکھی گئی اور جس نے انتظار حسین کو بھی انکے آخری ایام میں بدلا۔

آصف فرخی کی زندگی کے آخری 3 سے چار سالوں کے درمیان مجھے یہ اعزاز حاصل رہا کہ میں کسی نہ کسی موقع پر کسی نہ کسی ادبی میلے پر ان سے ملتا رہا۔ 2016 کی بہار میں ہمارے دوستوں ندا کرمانی اور علی رضا کی جانب سے منعقد کردہ لمز لاہور میں 'اربنزم، ایکسکلوژن اینڈ سوشل چینج' ان ساوتھ ایشیا کے عنوان سے ایک کانفرنس میں آصف فرخی اور میں رائٹنگ دی سٹی کے عنوان سے ہونے والے سیشن کے مقررین میں شامل تھے۔ جہاں آصف فرخی نے انتظار حسین کے ناول نیا گھر کا حوالہ دیتے ہوئے حیران کن طور پر شناختی سیاست اور رہائش کے درمیان گٹھ جوڑ کو واضح کیا۔ آصف فرخی کی اس پریزنٹیشن کے بعد میں نے اس ناول کو نئے زاویئے سے دیکھا۔

حال ہی میں میں نے اسلامک انٹرنیشنل ہونیورسٹی میں دوست ڈاکٹر شہراز دستی کی جانب سے انعقاد کردہ 'نیو ہارویسٹ آف اینگر: آ کیس سٹڈی آف ریڈنگ کنٹیمپرری اردو لیٹریچر آف پاکستان' کے عنوان کے تحت کانفرنس میں آصف فرخی کا مرکزی خطاب سنا۔ جہاں انہوں نے طلبا کو کئی پاکستانی ادیبوں کے بارے پڑھانے کا تجربہ حاضرین تک پہنچایا۔ میری آخری ملاقات اس سال فروری میں سرسری سی رہی جب انہوں نے شفقت کرتے ہوئے مجھے کراچی ادبی فیسٹیول میں رخشندہ جلیل کی کتاب جلیانوالہ باغ کی رونمائی کے موقع پر بطور پینلسٹ مدعو کیا تھا۔

اب دماغ خود بخود انکے 10 مئی کو لکھے گئے آخری کالم پر جا ٹکتا ہے۔ اور یہ تصور کرنا اب کچھ خوفناک ہے کہ انہوں نے کالم میں یہ سطور لکھیں۔ انہوں نے لکھا۔ 'اب تک جبکہ کوئی دوا دستیاب نہیں، مخصوص ویکیسن ابھی انتہائی دور ہے اور کرونا کے تیز ترین پھیلاو کو روکنے کے لئے عالمگیر طور پر تجویز کردہ لاک ڈاون معاشی پگھلاؤ میں تبدیل ہو رہا ہے اور بیماری کی شرح تا حال بہت زیادہ ہے۔ یہ پریشان کن دن ہیں۔ میڈیا میں چلنے والی کوئی بھی خبرآجکل بہت زیادہ اثر کرتی ہے خاص طور پر جب ہمارے پاس گہرائی میں حقائق جاننے کا وقت بھی بہت ہے۔ موت کی خبر خاص طور پر اسی موت کی خبر جو کرونا سے نہ ہوئی ہو، اسکی وقعت معمولی ہے۔ جب کہ اسوقت  تمام اخبارات اموات کی تفصیلات سے بھرے ہیں میں گوگل سرچ کا انتخاب کرتا ہوں۔ ہر ایک موت مجھے کسی نہ کسی صورت نڈھال اور محروم کر جاتی ہے۔

یہ حیرت انگیز ہے کہ پورا کالم بالی ووڈ ایکٹر عرفان خان اور رشی کپور کی موت پھر آئرش شاعر ایوان بولانڈ اور 24 سالہ ڈینش۔ فلسطینی شاعر یحیحیٰ حسن کی موت پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے پر مبنی ہے۔ تاہم فرخی اپنے کام کی تعریف نہ کر پائے۔ کیا یہ کالم انمول آصف فرخی کے ڈیتھ نوٹ کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔ ہم نہیں جان سکیں گے۔

حتیٰ کہ موت  کے معاملہ میں بھی فرخی نے عقلمندی سے چناؤ کیا۔  یکم جون ترقی پسند لکھاریوں کی تحریک کے ایک نمایاں افسانہ نگار خواجہ احمد عباس اور ایک زبردست نقاد خلیل الرحمان عظمی کا یوم وصال ہے۔ نہ جانے فرخی اپنے آپ کو ان دونوں کے درمیان پا کر کیسا محسوس کرتے ہوں گے؟ پھر انکے والد کی برسی بھی تو 15 جون کو ہی تھی؟ انہیں شاید اسے پالینے کی بھی جلدی تھی۔

آصف فرخی کی بے وقت موت نے اردو کو ایسے منجھے ہوئے آل راونڈر سے محروم کردیا ہے جو پویلین واپس لوٹنے سے پہلے سینچری بنانے کا حقدار تھا۔

ایک ہفتے قبل حیدر آباد میں اردو کے بڑے مزاح نگار مجتبیٰ حسین اور لاہور میں نثار عزیز بٹ کی فروری میں وفات کے بعد اردو ادب کے لئے اب تک کا  یہ سب سے بڑا نقصان ہے۔ اس سانحے نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک قد آور سفیر سے بھی بر صغیر کو محروم کر دیا ہے۔
انکے کام اور انکی مثال نے برصغیر میں سینکڑوں نوجوان خواتین و حضرات  لکھاریوں کو ادبی نکھار سے نوازا ہے۔ انہوں نے اپنے ترکے میں ہزاروں طلبا اور افسانہ نگاری، ترجمہ اور تنقید نگاری کے میدان میں توانائی سے بھرپور قابل ادیب چھوڑے ہیں۔ جن میں رخشندہ جلیل، سنیہال شنگھوئی، حارث خلیق، مہر افشاں فاروقی، رضا رومی، ناصر عباس نیئر اور حمیرا اشفاق شامل ہیں۔ غالب امکان ہے کہ ہم ان جیسا دوبارہ ضرور دیکھیں گے۔
اسکا یہ بھی مطلب ہے کہ آصف فرخی اب جہان بالا میں جا کر اپنے پسندیدہ اور محبوب انتظار حسین، حسن عسکری اور فہمیدہ ریاض کے ساتھ مل کر اپنے دل کی بات کرنے اور بغیر کسی دنیاوی بندشوں کے اپنا آدمی نامہ لکھنے میں آزاد ہیں۔ دعا ہے کہ وہ اپنا نوشتہ عقیل اپنے ساتھ جنت میں لے جائیں۔