ناروے کے ادیب جون فوسے نوبیل انعام برائے ادب 2023 کے فاتح قرار

1990 کی دہائی میں جب بطور مصنف جون فوسے مشکل وقت کا سامنا کر رہے تھے تو انہیں ایک ڈرامے کا آغاز لکھنے کو کہا گیا۔ یہی پیش کش ان کی زندگی میں اہم موڑ ثابت ہوئی۔ ایک انٹرویو میں جون فوسے نے بتایا تھا کہ جس لمحے وہ یہ ڈرامہ لکھ رہے تھے انہیں تبھی احساس ہو گیا تھا کہ ڈرامہ نویسی کا فن میرے لیےہی وجود میں آیا ہے۔

ناروے کے ادیب جون فوسے نوبیل انعام برائے ادب 2023 کے فاتح قرار

2023 کے لیے ادب کا نوبیل انعام ناروے سے تعلق رکھنے والے ادیب اور ڈرامہ نویس جون فوسے نے جیت لیا ہے۔ سویڈش اکیڈمی کی جانب سے یہ اعلان جمعرات کے روز کیا گیا۔ مصنف کو 9 لاکھ 15 ہزار ڈالر بطور نقد انعام بھی دیے جائیں گے۔

نوبیل کمیٹی کے مطابق جون فوسے نے اپنے تخلیقی ڈراموں اور نثر کے ذریعے ایسے موضوعات پر آواز بلند کی جن پر عام طور پر بات نہیں کی جاتی۔ گویا انہوں نے بے زبان احساسات کو زبان دی ہے۔ اکیڈمی کا کہنا ہے کہ جون فوسے زبان اور ڈرامائی تکنیک کے ماہرانہ استعمال سے عام زندگی کے کرداروں کے ذریعے اضطراب اور ناطاقتی جیسے انسانی جذبات کا بھرپور اظہار کرتے ہیں۔

جون فوسے 29 ستمبر 1959 کو یورپی ملک ناروے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اب تک 40 سے زیادہ ڈرامے تحریر کیے ہیں۔ ڈراموں کے علاوہ جون فوسے ناول، کہانیاں، بچوں کی کتابیں، شاعری اور مضامین بھی تحریر کر چکے ہیں۔ ان کی تخلیقات کے دنیا بھر کی 50 سے زائد زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔

جون فوسے کا پہلا ناول Raudt, svart تھا جو 1983 میں شائع ہوا۔ ناول خودکشی کے موضوع کا احاطہ کرتا ہے اور ایک لحاظ سے پہلے ناول نے ہی ان کے آئندہ کے کام کا مزاج طے کر دیا تھا۔ Septology ان کا حالیہ ناول ہے جو نیم سوانحی نوعیت کا ہے اور تین حصوں پر مشتمل ہے۔ یہ ناول ایک ایسے انسان کی کہانی سناتا ہے جس کی ملاقات اپنی ذات کے ہی دوسرے ورژن سے ہو جاتی ہے۔ یعنی وہ اپنے ہم زاد سے ملتا ہے۔ مذکورہ ناول کے تیسرے حصے کو 2022 میں عالمی بُکر پرائز کے لیے بھی شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔

1990 کی دہائی میں جب بطور مصنف جون فوسے مشکل وقت کا سامنا کر رہے تھے تو انہیں ایک ڈرامے کا آغاز لکھنے کو کہا گیا۔ یہی پیش کش ان کی زندگی میں اہم موڑ ثابت ہوئی۔ ایک انٹرویو میں جون فوسے نے بتایا تھا کہ جس لمحے وہ یہ ڈرامہ لکھ رہے تھے انہیں تبھی احساس ہو گیا تھا کہ ڈرامہ نویسی کا فن میرے لیےہی وجود میں آیا ہے۔ وہ اس ڈرامے میں اس قدر محو ہو گئے کہ بجائے صرف آغاز لکھنے کے، انہوں نے سارا ڈرامہ نئے سرے سے لکھ مارا۔ اس ڈرامے کا نام تھا؛ Og aldri skal vi skiljast ، یعنی Someone is Going to Come جو 1994 میں پیش کیا گیا۔ یہ ایسا شان دار آغاز تھا جس نے آگے چل کر انہیں دنیا کے عظیم ترین ڈرامہ نویسوں کی فہرست میں شامل کر دیا۔ اب تک دنیا بھر میں ان کے تحریر کردہ ڈراموں کو 1000 سے زیادہ مرتبہ سٹیج پر پیش کیا جا چکا ہے۔

 نوبیل انعام ملنے کے اعلان پر جون فوسے نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس اعزاز پر وہ جذباتی ہونے کے ساتھ ساتھ کسی حد تک خوفزدہ بھی ہو گئے ہیں۔ ان کے مطابق یہ انعام ایک ایسے ادب کو دیا گیا ہے جو محض ادب رہنے پر اکتفا کرتا ہے۔

ادب کے نوبیل انعام کے فاتح کا فیصلہ 18 رکنی سویڈش اکیڈمی کرتی ہے اور عموماً اس مقصد کے لیے کسی مصنف کے زندگی بھر کے کام کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ نوبیل پرائز کو ادب کی دنیا کا سب سے بڑا اعزاز مانا جاتا ہے۔ 1901 سے 2023 کے دوران 115 مرتبہ اس انعام کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ 4 مرتبہ دو مصنفین کو مشترکہ طور پر فاتح قرار دیا گیا تھا۔ 17 خواتین مصنفین بھی نوبیل پرائز جیتنے والوں میں شامل ہیں۔ جون فوسے ناروے سے تعلق رکھنے والے چوتھے ادیب ہیں جنہیں نوبیل انعام دیا گیا ہے۔

یاد رہے گذشتہ سال ادب کا نوبیل انعام فرانسیسی مصنفہ اینی ایرنو کو دیا گیا تھا جبکہ 2021 میں یہ انعام تنزانوی نژاد برطانوی مصنف عبدالرزاق گرناہ کے حصے میں آیا تھا۔

خضر حیات فلسفے کے طالب علم ہیں اور عالمی ادب، سنیما اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ نیا دور کے ساتھ بطور تحقیق کار اور لکھاری منسلک ہیں۔