دنیا کے دیگر مالک کی طرح پاکستان میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ جرائم کی شرح میں اضاٖفہ ہوتا جارہا ہے۔ کچھ لوگوں نے جرائم کی شرح میں اضافے کو بے روزگاری، ناخواندگی، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت سے جوڑا ہے، اور اسی وجہ سے لوگ اپنی ضروریات پورا کرنے کے لیے جرائم کرنے پر مجبور ہیں۔
شہری مسلسل خوف اور عدم تحفظ کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ زیادہ تر لوگ یا تو خود سٹریٹ کرائمز کا شکار ہوئے ہیں یا کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو حال ہی میں شکار ہوا تھا۔ دن کی روشنی میں بھیڑ بھاڑ والے بازار میں جانا اتنا ہی غیر محفوظ ہے جتنا کہ رات کو ویران سڑک پر سفر کرنا۔ حفاظت کا فقدان معاشرے کی مجموعی فلاح و بہبود کو متاثر کر رہا ہے۔
پچھلے چند سالوں میں لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں ڈکیتی، چوری،ا ٖغوا، قتل اور گھروں پر حملے کی کارروائیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
پولیس چیف نے انکشاف کیا کہ لاہور کراچی کے مقابلے میں چھوٹا شہر ہے لیکن یہاں سالانہ 200,000 جرائم رپورٹ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس سال 2020ء میں کراچی میں سالانہ 45,000 جرائم ہوتے تھے لیکن سال 2021ء میں یہ بڑھ کر 84,000 جرائم تک پہنچ گئے تھے۔ جبکہ 2022ء کے پہلے تین مہینوں میں صرف کراچی میں 11,000 سے زائد چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں رپورٹ ہوئیں جو کہ جرائم سے نمٹنے اور شہریوں کے تحفظ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔ بہت سے لوگ سٹریٹ کرائمز اور چوری کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
کراچی میں حال ہی میں ایک ہی دن میں 4 وارداتیں ہوئیں۔ 12 جنوری 2022ء کو کلفٹن کے علاقے میں ڈاکوؤں نے ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر کو قتل کرکے 73 لاکھ روپے لوٹ لیے۔ ایک 28 سالہ شادی شدہ شخص کو بھی کشمیر روڈ پر مزاحمت پر ایک ڈاکو نے گولی مار کر ہلاک کر دیا اور جرائم کی دیگر وارداتوں میں سپر ہائی وے پر براق پٹرول پمپ کے قریب ڈکیتی کی کوشش میں مزاحمت کرنے پر 50 سالہ شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
صوبائی حکام کے مطابق ماہ رمضان کے دوران شہر میں کل 1600 موٹر سائیکلیں چھینی یا چوری کی گئیں۔ ایک ماہ کے دوران 1800 سے زائد موبائل فونز اور 121 فور وہیلر بھی چھین لیے گئے۔
فروری 2022 میں سماء ٹی وی سے وابستہ ایک صحافی کو جمعہ کی صبح کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں ڈاکوؤں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ جس پر گورنر سندھ عمران اسماعیل اور وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے بھی قتل کا نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل سے رپورٹ طلب کی تھی۔ انہوں نے سینئر پولیس افسر کو ہدایت کی تھی کہ قاتلوں کی جلد از جلد گرفتاری کو یقینی بنایا جائے۔
کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے شہر کی بگڑتی ہوئی جرائم کی صورتحال کے بارے میں کہا تھا کہ ''سٹریٹ کرائم میں اضافے کی ایک وجہ بالکل واضح ہے جو ملک کی موجودہ مالی صورتحال ہے۔ لیکن کوئی بھی بہانہ نہیں ڈھونڈ رہا ہے اور اس کے باوجود ذمہ داری ہماری ہے اور ہم اسے پورا کریں گے۔''
انہوں کا مزید کہنا تھا کہ حالات پر قابو پانے کے لیے کچھ حالیہ اقدامات کیے گئے، پولیس کو ضروری ہدایات دی گئی ہیں اور امید ہے کہ آنے والے دنوں میں بہتری نظر آئے گی۔
جبکہ جماعت اسلامی، کراچی چیپٹر کے سربراہ حافظ نعیم الرحمن نے شہر میں جرائم میں اضافے کا ذمہ دار سندھ حکومت کو ٹھہرایا ہے۔ انہوں نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''سندھ حکومت عوام کے جان ومال کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔'' ''انہوں نے شہر کو تعلیم، صحت،سڑکوں اور پانی سے محروم کر رکھا ہے۔ اور اب یہاں جان و مال کا بھی تحفظ نہیں ہے۔''
اگر لاہور کی بات کی جائے تو گذشتہ چند ہفتوں میں لاہور میں جرائم بالخصوص سٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شہر کے کونے کونے میں قائم سکیورٹی کے باوجود ڈکیتی کی کارروائیوں میں کوئی کمی نظر نہیں آتی، جس سے لاہور پولیس کے آپریشنز ونگ کی ناقص کارکردگی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
لاہور میں جرائم کے سالانہ واقعات کی رپورٹ کے مطابق 2020 میں 120,000 اور 2021 میں 225,000 کیسز رپورٹ ہوئے۔ جبکہ 2022 کے پہلے چار مہینوں میں 80,000 سے زائد کیسز پہلے ہی رپورٹ ہو چکے ہیں۔ جرائم کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ملک کیلئے تشویش کا باعث ہے جہاں تک گھناؤنے جرائم کی تعداد کا تعلق ہے۔
اعداد شمار کے مطابق، صرف جنوری کے مہینے میں سٹریٹ کرائم کے تقریباً 200 واقعات رپورٹ کئے گئے۔ اس کے علاوہ ایک صحافی سمیت 26 افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ مشہور صحافی حسنین شاہ کو ڈیوس روڈ پر لاہور پریس کلب کے قریب قتل کر دیا گیا۔
کچھ آزاد پولیس ماہرین نے ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر یا ہیرا پھیری کو 'پیشہ وارانہ بیماری' قرار دیا ہے جو پولیس فورس کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ایف آئی آر کے اندراج سے قبلِ ادراک جرم کا ارتکاب ہوتا ہے اور ایسی صورت حال میں کسی ابتدائی تفتیش کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔
ایف آئی آرکا باقاعدہ اندراج ناصرف جرائم پر قابو پانے کیلئے موثر ثابت ہوتا ہے بلکہ اس سے پولیس حکام کی کارکردگی بھی بہتر ہوتی ہے۔ جرائم کے اندراج سے اعلیٰ حکام کو کسی بھی علاقے میں امن وامان کی صورت حال کا اندازہ لگانے اور جرائم کی شرح کو جانچنے کے لیے اقدامات کرنے میں مدد ملتی ہے۔
سخت حفاظتی انتظامات اور جرائم کے خلاف سرچ آپریشنز کے باوجود وفاقی دارالحکومت اسلام آباد بھی سٹریٹ کرائمز اور کمسن بچیوں کے اغوا کی وارداتوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ وفاقی پولیس کی ریکارڈ بک کے مطابق 2021ء میں ضلع بھر کے 22 تھانوں میں 13 ہزار سے زائد مقدمات درج ہوئے۔ 2020ء میں رجسٹرڈ کیسز کا تناسب 8,800 تھا۔ 2021ء میں ڈکیتی، سٹریٹ کرائم، چوری، کار چوری اور موٹر سائیکل چوری کے 6,500 سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ 2020ء میں یہ تعداد 1,087 تھی۔ 2021ء میں قتل کے 140 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ 2020 میں یہ تعداد 313 تھی۔
وقت کے ساتھ ساتھ سٹریٹ کرائم کی شرح میں کمی کی بجائے اضافہ، تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کیلئے ایک سوالیہ نشان ہے۔ اگرچہ حال ہی میں حکومت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر بڑھتے ہوئے جرائم پر قابو پانے کیلئے حکمت عملی بھی اپنائی، لیکن ہمیں ابھی تک ان حکمت عملیوں پر موثر عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کو ملک میں امن وامان کی بحالی اور شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے سنجیدگی سے یہ کام کرنا چاہیے۔