کچھ دن قبل خواتین کا عالمی دن منایا گیا جس پر بہت سے لوگوں نے قلم اُٹھایا۔ ہم نے اس سال نہ لکھنے کا سوچا تھا کیونکہ ہم نے پہلے اس موضوع پر بہت لکھا، خواتین کے سارے مسائل کو چھیڑا، ان کے حقوق کی بات کی، آواز بلند کی مگر کچھ موضوعات ہوتے ہیں جس پر دل نہیں کرتا کہ لکھا جائے۔
آج اسی قسم کا ایک موضوع زیر بحث ہے جس پر میں بالکل بھی نہیں لکھنا چاہ رہا تھا۔ اس موضوع کو بہت اگنور کیا کیونکہ دل اور دماغ ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ بہت سوچا کہ اس پر قلم نہیں اٹھانا کیونکہ اس موضوع پر لکھنے کے لئے دل گردہ چاہیے اور میرا دل ساتھ ہی نہیں دے رہا تھا۔ دماغ سن ہو چکا تھا۔
جب خبر سنی کہ میانوالی میں ایک جانور نے سات دن کی بچی کے جسم میں پانچ گولیاں فائر کی ہیں جس کا قصور یہ تھا کہ وہ عورت تھی۔ سات دن کی بچی کو اتنی درندگی سےتو جانور بھی نہیں مارتا ہوگا جس طرح ایک باپ نے سگی اولاد کو جان سے ماردیا۔
ویسے میں اسے جانور کہہ رہا ہوں۔ یہ جانور بھی نہیں ہے کیونکہ میں نے خود جانوروں کو اپنے بچوں سے محبت کرتے دیکھا ہے۔ میں تو اسے بھیڑیا بھی نہیں کہہ سکتا کیونکہ بھیڑیا نہایت ہی فیملی اورئینٹڈ جانور ہے۔ یہ بدبخت بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے سات روزہ بیٹی کے اس معصوم جسم میں جو خود اپنی گردن اپنا سر سنبھالنے تک پر قادر نہیں، پوری پانچ گولیاں اتار دیتا ہے۔
میں سوچتا ہوں، تو میرے سامنے میری بیٹی آ جاتی ہے جو میرے سمیت سب فیملی کی جان ہے۔ میری بیٹی خُلا دو برس کی ہے۔ وہ سات دن کی بچی تو بہت چھوٹی ہوگی۔ اس کا نشانہ لینے کے لیے ٹھیک ٹھاک ارتکاز درکار ہوگا۔ کیا کوئی انسان ایسا بھی ہے جو سات دن کی بچی کے جسم میں پانچ گولیاں اتارنے کے لیے خود کو کمپوز کر سکے؟ یہاں انسانیت نہیں حیوانیت بھی شرما گئی ہوگی اور یہ سب بیٹے کی خواہش میں ہوا۔
پتہ نہیں یہ بیٹے کی خواہش کیوں اتنی شدید ہوتی ہے مگر اتنی بھی شدید کہ بیٹی پیدا ہونے پر سات روزہ معصوم پر پانچ فائر۔ آخری اطلاعات آنے تک وہ ظالم گرفتار کیا جا چکا ہے۔ پھر بھی سوچ آگے نہیں بڑھتی کہ ہم کس دور میں جی رہے ہیں۔ ہم اتنے سنگ دل ہیں کہ اپنی خواہشات کے لئے کوئی بھی قدم اٹھا دیتے ہیں۔ یہ حیوانیت سے آگے کے درجات میں بے حد سفاکیت ہے۔ یہ سفاکیت ہے۔ یہ حیوانیت سے بھی کئی درجے آگے کی بات ہے۔ جس معاشرے میں سات دن کی بچی کو سفاکیت سے قتل کیا جاتا ہے وہاں عورت کیا محفوظ ہوگی؟ یعنی اسلامی معاشرے میں فقط عورت ہونے کے باعث کن کن ذلالتوں سے نہیں گزارا جاتا ہوگا؟
مجھے فیمنسٹوں سے چڑ ہے لیکن میں اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ ہمارے معاشرے میں عورت کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے؟ اگر اپنی چڑیا نفرت میں کسی درست بیانیے کو غلط کہنا یا اس کے خلاف عمل کرنا درست ہے تو پھر اس بدبخت باپ نے بھی شاید ٹھیک ہی کیا کہ بیٹے کی چاہ میں بیٹی سے اس حد تک نفرت کی کہ اس کے زندہ رہنے کا حق تک چھین ڈالا۔
مگر یہاں میں فیمنسٹوں کا ساتھی ہوں وہ جو احتجاج کرتی ہیں ٹھیک کرتی ہیں کیونکہ اب یہ سات روزہ بچی خود اٹھ کر احتجاج نہیں کر سکتی ناں؟ اس سات سالہ بچی کو چھوڑیں، وہ تو اچھا ہے اس ظالم سماج جہاں جانوروں سے بھی بڑے درندے پھر رہے ہیں وہاں کیا اس کی ماں کے پاس اس کے لیے احتجاج کا ماحول میسر ہے؟
اگر جواب ناں میں ہے تو پھر آنے دیجیے سڑکوں پر ان کی جگہ ان کے لیے بولنے والوں کو۔ خوف کیا ہے؟ خطرہ کیا ہے؟ اگر آپ مطمئن ہیں اپنی تربیت سے تو کیا مسئلہ ہے؟ اور اگر آپ کو اپنی تربیت ہی پر شک ہے تو پھر بچا کس سے رہے ہیں آپ اپنی “رعیت” میں رہنے والی عورت کو؟ وہ تو پہلے ہی زبوں حالی کی جانب گامزن ہے۔ کیوں کہ ہر عورت کو معلوم ہے کہ اس کا خاوند، بھائی، باپ کیسا ہے وہ اگر ظلم کرتا ہے اس کا پیمانہ بیٹوں کے لئے الگ اور بیٹیوں کے لئے الگ ہے۔ اسے اپنے اردگرد منڈلانے والے گدھوں کا پتہ ہے تو اسے آواز اُٹھانے کا حق ہے۔
جب سات دن کی بچی کو پانچ گولیاں ماری جا سکتی ہیں تو میں فیمنسٹوں کا ساتھی ہوں اور میں پھر فیمنسٹ ہوں۔ جب تک معاشرے کی ہر خاتون باہمت نہیں ہو جاتی میں پوری قوت کے ساتھ ان کا ساتھی ہوں جس کے خلاف میں لڑنے سے بھی دریغ نہیں کروں گا۔ اور اس پر فخرمحسوس کروں گا کہ میں فیمنسٹ ہوں۔
مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں میڈیا سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔