Get Alerts

پاکستان میں حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں پر گرمی کے اثرات کے بارے میں ایک اہم  تحقیق کا آغاز

پیدائش کے وقت کم وزن اور قبل از وقت پیدائش میں اضافے کے واقعاتی ثبوتوں کی روشنی میں، ڈاکٹر حمل کے دوران گرمی کے اثر کا تعین کرنے کے لئے سندھ بھر میں اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق کا آغاز کر رہے ہیں۔

پاکستان میں حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں پر گرمی کے اثرات کے بارے میں ایک اہم  تحقیق کا آغاز

جنوری 2024 میں پاکستان کے صوبہ سندھ میں آغا خان یونیورسٹی (اے کے یو) کے محققین نے ماں اور بچے کی صحت پر شدید گرمی کے اثرات کی پیمائش کے لئے ایک پرعزم چار سالہ منصوبہ شروع کیا۔ دیگر ممالک میں موسمیاتی بحران، بڑھتی ہوئی گرمی اور حاملہ خواتین پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں مطالعہ کیا گیا ہے۔ لیکن، اب تک اس حوالے سے پاکستان میں تحقیق محدود ہے۔ اس حقیقت کے باوجود، کہ انسانی کارروائیوں کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی سے پورے جنوبی ایشیاء گرمی کی شدید لہر کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں۔ 

اے کے یو کےپیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر جے داس کہتے ہیں، “ہم موجودہ اعداد و شمار کو جوڑ رہے ہیں اور ساتھ ہی نئی تحقیق ان خواتین پر مرکوز ہے جو گرم مہینوں میں حاملہ تھیں۔ انہوں نے دی تھرڈ پول کو بتایا، “ہم ان نتائج کا موازنہ ان خواتین کے اعداد و شمار سے کریں گے جو معتدل موسم یا سردیوں کے موسم میں حاملہ تھیں”۔ جے داس، جو اس تحقیق کی قیادت کررہے ہیں، کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں “ہم نے موسمیاتی تبدیلی اور پاکستان میں صحت پر اس کے اثرات میں دلچسپی میں اضافہ دیکھا ہے”۔

برطانیہ میں قائم خیراتی ادارے ویلکم ٹرسٹ کی جانب سے فراہم کردہ فنڈز کے تحت اس منصوبے میں سندھ کے ٹنڈو محمد خان، تھرپارکر اور مٹیاری کے اضلاع کی 6000 خواتین سے ڈیٹا اکٹھا کیا جائے گا۔ اس منصوبے میں کراچی شہر کے کم آمدنی والے محلوں جیسے کھارادر، دھوبی گھاٹ اور کورنگی کی خواتین کو بھی شامل کیا جائے گا۔ پراجیکٹ کے ریسرچ مینیجر، محمد خان جمالی، دی تھرڈ پول کو بتاتے ہیں، “اوپر تلے بیک وقت بہت سے عوامل ہیں جو زچہ اور بچہ کی صحت پر اثرانداز ہوتے ہیں، لیکن موسمی شدّت یقینی طور پر ان میں سے ایک اہم وجہ ہے۔ جمالی کہتے ہیں، “مثال کے طور پر، گنجان شہری علاقوں میں چھوٹے فلیٹوں میں رہنے والی خواتین کو شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جب وہ چولہے کے سامنے کھڑی ہوتی ہیں، خاص طور پر اگر وہ حاملہ ہوں”۔ یہ مثالیں خواتین کو درپیش مختلف سماجی اور معاشی رکاوٹوں کو اجاگر کرتی ہیں، بشمول حمل کے دوران ان سے کھانا پکانے کی توقع، رہائش کے لئے محدود جگہ، اور ٹھنڈک کے ناکافی انتظامات۔ یہ تمام مشکلات بڑھتے ہوۓ درجہ حرارت کے پیش نظر مزید شدید ہو جاتے ہیں جو کہ موسمیاتی تبدیلی کے تخمینے کے مطابق 2100 تک سندھ میں 2-5 ڈگری تک بڑھے گا۔ 

یہ پروجیکٹ ان عوامل کے کردار کا تعین کرنے میں مدد کرے گا۔ دوران تحقیق اس میں حصہ لینے والی خواتین کو گھروں میں پہننے اور رکھنے کے لئے آلات دیے جائیں گے جو گھروں میں درجہ حرارت کی مانیٹرنگ کریں گے۔ داس کا کہنا ہے کہ یہ تجزیہ کہ گرمی کا دباؤ حاملہ خواتین اور ان کے حمل کی صحت پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے “موافق حل”  تیار کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ 

موسمیاتی تبدیلی کا خطرہ، زچگی کی بلند شرح اموات اور مردہ پیدائش

یہ منصوبہ ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب پاکستان کو موسمیاتی اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں آٹھویں درجے پہ رکھا گیا ہے۔ پانی کی کمی،  جو کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ بڑھنے والے مسائل میں سے ایک ہے، غیر متناسب طور پر خواتین کو متاثر کرتی ہے۔ پھر بھی انہیں اکثر فیصلہ سازی کے عمل سے باہر رکھا جاتا ہے۔ سندھ میں تھرپارکر جیسے پانی کی قلّت والے علاقوں میں خواتین کو حمل کے دوران بھی کھانا پکانے، پینے اور صفائی  سمیت دیگر گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کے لئے طویل فاصلوں سے اوسطاً 90 لیٹر پانی بھر کے لانے کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔

دنیا میں سب سے زیادہ نوزائیدہ اموات کی شرح والے ملک میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور پانی کی قلّت اضافی دباؤ ہیں۔ 2019 میں، ایک عالمی تحقیق سے پتا چلا کہ 33 فیصد مردہ پیدائشیں جنوبی ایشیا میں ہوئیں۔ پاکستان میں 2019 میں مردہ پیدائشوں کی تعداد اوسطاً 30.6 فی ہزار تھی، جو کہ سال 2000 میں 39.9 سے بہتر ہے، لیکن پھر بھی یہ 18.2 کی علاقائی اوسط، یا 13.9 کی عالمی اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔

حاملہ خواتین اور گرمی سے خطرہ

ندیم زبیری، وائس چیئر اور اے کے یو کے شعبہ امراض نسواں کے پروفیسر، کہتے ہیں کہ یہ “یہی وقت” ہے کہ زچگی اور حمل کی صحت اور موسمیاتی تبدیلی کے درمیان تعلق پر توجہ دی جائے۔ 

کراچی کے ایک کم آمدنی والے علاقوں میں واقع عطیہ کے تحت چلنے والے لیاری جنرل ہسپتال کی ماہر امراض نسواں اور ماہر امراضِ چشم صفیہ منظور کہتی ہیں، “ہم گرم موسم میں قبل از وقت پیدائش کے زیادہ کیسز دیکھتے ہیں۔” اے کے یو کے تحت ہونے والے مطالعے سے یہ  امید ہے کہ ہم اس قسم کے واقعاتی اعداد و شمار سے آگے بڑھیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ گرمی کا دباؤ حاملہ خواتین پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔

ایک لیڈی ہیلتھ وزیٹر ( ایل ایچ وی ) نصرت بانو،  جو تھرپارکر میں نرسنگ کی بنیادی دیکھ بھال اور زچہ و بچہ کی صحت کی خدمات فراہم  کرتی ہیں، بتاتی ہیں، “2023 میں، مارچ اور اپریل کے بیچ 6ہفتوں سے زائد، میں نے قبل از وقت پیدائش کی زیادہ تعداد دیکھی۔  زیادہ تر پیدائشیں آٹھویں مہینے میں ہوئیں۔ جن میں سے اکثریت زندہ نہیں بچ سکے۔ حالانکہ یہ مدت وہی ہے جب گرمی کی لہر عروج پر تھی، بہرحال آٹھویں مہینے میں پیدا ہونے والے بچے عام طور پر مرتے نہیں ہیں جب تک کہ دیگر عوامل موجود نہ ہوں۔ مجوزہ تحقیق اس بات پر روشنی ڈالنے کے قابل ہو گی کہ گرمی کی لہر کس طرح نوزائیدہ بچوں کی اموات میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، جوکہ پاکستان میں پیدائش کے پہلے 28 دنوں میں ہوتی ہیں۔”

زبیری بتاتے ہیں کہ گرمی کے تناؤ اور درجہ حرارت کے اتار چڑھاؤ کا حاملہ خواتین پر زیادہ اثر پڑتا ہے، کیونکہ جسم میں ہارمونل تبدیلیوں گزر رہا ہوتا ہے۔ 

جمالی کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس حوالے سے شواہد پر مبنی ڈیٹا کی کمی ہے، لیکن “اس بات کی تصدیق کرنے کے لئے کافی تجرباتی اور واقعاتی اعداد و شمار موجود ہیں” کہ ماں اور بچے کی صحت کے چیلنجوں میں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر شدید گرمی کے دنوں میں۔ 

جمالی کہتے ہیں، “مقامی کمیونٹیز اب ان نکتوں کو سمجھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ بچے پیدائشی طور پر کم وزن کے ساتھ یا شدید گرمیوں میں وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں،” جمالی امید کرتے ہیں  کہ یہ مطالعہ ماہرین کو” “آبادی کی سطح پر شدید گرمی کی لہر کے چیلنج اور اس کا تعلق حمل کے طبی اور جسمانی نتائج سے جوڑنے میں مدد دے گا”۔

وہ مزید کہتے ہیں، “یہ زدپزیر آبادیوں میں لاکھوں ماؤں اور بچوں کے لئے ممکنہ تخفیف کی حکمت عملیوں اور مداخلتوں کو وضع کرنے کے لئے گراں قدر معلومات فراہم کرے گا۔”

ڈائیلاگ ارتھ ایک کثیرالزبان پلیٹ فارم ہے جو ہمالیہ کے آبی بہاؤ اور وہاں سے نکلنے والے دریاؤں کے طاس کے بارے میں معلومات اور گفتگو کو فروغ دینے کے لئے وقف ہے.