توشہ خانہ کا ریکارڈ منظرعام پر آنے کے بعد ایک عجیب سی بحث شروع ہو گئی ہے۔ کچھ دوستوں کی رائے ہے کہ اس ریکارڈ کے منظر عام پر آنے سے پاکستان مسلم لیگ ن کی اندرونی لڑائی منظر عام پر آ گئی ہے، اس ریکارڈ کے سامنے لانے سے ایک ہاؤس آف شریف نے دوسرے ہاؤس آف شریف کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے۔
ویسے تو جب سے شریف فیملی سیاست میں آئی ہے، شریف فیملی کے درمیان اختلافات کی خبریں میڈیا میں موجود ہیں۔ مشرف دور میں بھی یہ شور رہا کہ شہباز شریف قبول ہے، نواز شریف قبول نہیں۔ بعد میں بھی متعدد مواقع پر ایسی خبریں آئیں کہ شہباز شریف اور نواز شریف کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں۔
لیکن ہر دفعہ ہم نے دیکھا کہ دونوں نے مل کر ہی کام کیا ہے۔ حال ہی میں جب شہباز شریف مفاہمت اور نواز شریف مزاحمت کی بات کر رہے ہیں تب بھی دوستوں کی رائے تھی کہ اب راستے جدا ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ آج جو لوگ ہاؤس آف شریف میں اختلافات کی بات کر رہے ہیں وہ تب یہ بھی کہتے تھے کہ نواز شریف کبھی شہباز شریف کو وزیر اعظم نہیں بنائیں گے لیکن پھر سب نے دیکھا کہ نواز شریف نے ہی شہباز شریف کو وزیر اعظم نامزد کر دیا اور وہ آج بھی نواز شریف کے نامزد کر دہ وزیر اعظم ہیں۔
نہ کبھی شہباز شریف نے نواز شریف سے بغاوت کی ہے اور نہ ہی نواز شریف نے کبھی شہباز شریف کو سیاست سے باہر کرنے کی کوئی کوشش کی ہے۔ شہباز شریف نہ صرف وزیر اعظم ہیں بلکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر بھی ہیں۔ اس لئے ایسی پوزیشن میں شہباز شریف ایسی کوئی حرکت کیوں کریں گے جو ان کے بھائی کو نقصان پہنچائے؟
جہاں تک توشہ خانہ کے ریکارڈ کا تعلق ہے تو اس میں ن لیگ کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ شہباز شریف نے آج تک توشہ خانہ سے کوئی تحفہ نہیں لیا ہے۔ مریم نواز نے بھی کچھ نہیں لیا ہے۔ ان پر پائن ایپل کے ایک ڈبے کا الزام ہے جو ایک مذاق ہے۔ مریم نواز نے بھی توشہ خانہ سے نہ تو کوئی گھڑی اور نہ ہی کوئی مہنگا تحفہ کبھی لیا ہے۔
جہاں تک نواز شریف کی گاڑی کا تعلق ہے تو یہ گاڑی کا الزام بھی مضحکہ خیز ہے۔ نواز شریف کو یہ گاڑی 1998 میں تحفے میں ملی تو انہوں نے توشہ خانہ میں جمع کروا دی تھی۔ بعد میں ملک میں مارشل لاء لگ گیا، وہ جلا وطن ہو گئے۔ یہ گاڑی 1999 سے 2008 تک سابق صدر پرویز مشرف کے استعمال میں رہی۔ اس دوران نواز شریف ملک میں بھی نہیں تھے۔ 2008 میں یہ گاڑی ناقابل استعمال ہو گئی اور واپس ٹرانسپورٹ پول میں بھیج دی گئی۔
اب اس گاڑی کو بیچنے کا فیصلہ ہوا تو اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے نواز شریف کو پیش کش کی کہ چونکہ یہ گاڑی آپ کو تحفے میں ملی تھی اس لئے آپ لے لیں۔ یہ گاڑی اس وقت ناقابل استعمال تھی، خراب کھڑی تھی، چنانچہ نواز شریف نے یہ گاڑی لے لی۔ لیکن یہ گاڑی آج بھی کوئی قابل استعمال نہیں، بس کھڑی ہے کیونکہ یہ اپنی عمر پوری کر چکی ہے۔
آپ آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ دیکھ لیں۔ شہباز شریف اور نواز شریف نے مل کر شاندار کھیل کھیلا۔ دونوں کا سیاسی تال میل قابل دید تھا۔ جس میں نہ صرف جنرل باجوہ کو شکست دی گئی بلکہ عمران خان کو بھی شکست دی گئی۔
پھر اسحاق ڈار کی واپسی سے لے کر مریم نواز کی واپسی سب ہی شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کی کامیابیاں ہیں۔ آج مریم نواز جس طرح سیاست کر رہی ہیں اگر شہباز شریف وزیر اعظم نہ ہوتے تو یہ ممکن نہیں تھا۔ اس لئے ہاؤس آف شریف نے متحد ہو کر جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، آج کسی بھی قسم کا اختلاف اس کو ضائع کر دے گا لہٰذا اختلاف دونوں کے مفاد میں نہیں ہے۔
جب ہاؤس آف شریف مشکل سے مشکل وقت میں اکٹھا رہا ہے، جب مفاہمت اور مزاحمت کے اختلاف میں بھی اکٹھے رہے ہیں تو آج الگ ہونے کا تصور بھی کیسے کیا جا سکتا ہے؟
ہاؤس آف شریف میں اختلافات کی خبروں میں مجھے تو کوئی صداقت نظر نہیں آ رہی البتہ توشہ خانہ کا ریکارڈ پبلک ہونے سے شاہد خاقان عباسی کا مستقبل واضح ہو گیا ہے۔ سلمان شہباز کے ٹوئیٹ نے واضح کر دیا ہے کہ اب شاہد خاقان عباسی کی ن لیگ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے مریم نواز کی واپسی پر استعفا کا ڈرامہ کر کے جو بدمزگی پیدا کی تھی اس کو کسی جگہ پسند نہیں کیا گیا تاہم اُس وقت شاہد خاقان عباسی کو جواب نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ بعد میں ری ایمجنگ نے بھی ن لیگ میں شاہد خاقان عباسی کے لئے مزید شبہات پیدا کر دیے۔
اب سلمان شہباز کے ٹوئیٹ نے منظر نامہ واضح کر دیا ہے کہ جو مریم کے خلاف بولے گا اس کی ہاؤس آف شہباز میں بھی کوئی جگہ نہیں۔ یہ سگنل بھی واضح ہے کہ دونوں ہاؤس آف شریف اکٹھے ہیں، باقی سب پراپیگنڈا ہے جو ہمیشہ جاری رہتا ہے۔