سراج تالپور اور شاہ رخ جتوئی کی سزا میں رعایت معاشرے کے چہرے پر زناٹے دار تھپڑ ہے

سراج تالپور اور شاہ رخ جتوئی کی سزا میں رعایت معاشرے کے چہرے پر زناٹے دار تھپڑ ہے
شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور سندھ کے دو بڑے گھرانوں کے چشم و چراغ ہیں۔ عرصہ دراز سے مقتول شاہ زیب کو قتل کرنے کے بعد بھی یہ دونوں نوجوان جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ایک بھرپور زندگی گزار رہے ہیں جہاں انہیں وہ آسائشات حاصل ہیں جن کے بارے میں اس معاشرے کا ایک شخص قید سے باہر رہ کر بھی حاصل کرنے کا تصور نہیں کر سکتا۔ ان دونوں نوجوانوں کو آج سندھ کی عدالت کی جانب سے ایک بڑا ریلیف دیا گیا اور ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس سے قبل جتوئی اور تالپور خاندانوں نے شاہ زیب کے والد سے معافی نامے پر بھی دستخط کروائے تھے جسے بعد ازاں عدالت نے مسترد کر دیا تھا اور انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ان دونوں مجرموں کو سزائے موت کی سزا سنائی تھی۔

اگر ایک اعلیٰ پولیس افسر دباؤ برداشت نہیں کر پایا تو عوام کی کیا مجال؟

مقتول شاہ زیب خان کے والد نے معافی نامے پر کس دباؤ کے تحت دستخط کیے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ البتہ قابل غور بات یہ ہے کہ مقتول شاہ زیب کے والد خود پولیس کے اعلیٰ افسر تھے اور اگر وہ اعلیٰ پولیس افسر ہوتے ہوئے بھی اس دباؤ کو برداشت نہیں کر پائے تو سوچیے ایک عام آدمی کس حد تک اپنے اوپر اپنے سے طاقتور اور بااثر افراد کا دباؤ برداشت کر سکتا ہے۔



شاہ زیب خان کے قتل کا واقعہ کیسے پیش آیا؟

شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کی بربریت پر مبنی کہانی کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ 24 دسمبر 2012 کی رات شاہ زیب اپنی فیملی کے ساتھ بہن کا ولیمہ اٹینڈ کر کے گھر آ رہا تھا کہ سراج تالپور نامی ایک نشے میں دھت نوجوان نے اس کی فیملی کی ایک لڑکی کو چھیڑنا شروع کیا۔ لڑکی کے بھائی، شاہزیب خان نے اسے منع کیا، جھگڑا ہوا اور تالپور کو مجبوراً وہاں سے جانا پڑا۔

تالپور اپنے دوست، شاہ رخ جتوئی اور دو مزید دوستوں کے لے کر ان کے گھر آیا، اور پھر سب کی آنکھوں کے سامنے شاہزیب خان کو شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھیوں نے سیدھے فائر کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا اور فرار ہو گئے۔ شاہزیب کا والد ڈی ایس پی تھا، مقدمہ چلا، ملزمان کو گرفتار کیا گیا، گواہ وغیرہ سب موقع پر موجود تھے، سیشن کورٹ کے جج نے شاہ رخ اور سراج کو پھانسی جبکہ دوسرے دو ساتھیوں کو معاونت کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی۔ لیکن پھر مقتول کی فیملی پر دباؤ ڈلنا شروع ہوا۔ انہیں دھمکیاں ملیں کہ اگر ہمارے بیٹے نہ رہے تو تمہاری بیٹیوں کو ایک ایک کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔

سندھ حکومت کے ذریعے استغاثہ کو کمزور کیا گیا

آہستہ آہستہ گواہ بھی غائب ہو گئے اور ثبوت بھی۔ بالآخر بیٹیوں کی زندگی بچانے کی خاطر شاہزیب خان کے والدین نے ایک معافی نامہ سائن کر کے عدالت میں جمع کروایا اور سزائے موت آخرکار معطل کر کے عدالت نے از سر نو مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا۔ تالپور اور جتوئی گھرانوں نے اپنے سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے سندھ حکومت کے ذریعے استغاثہ کو کمزورکیا۔ دوسری طرف عدالت میں دہشتگردی کی دفعہ قائم کرنے کے خلاف رٹ دائر کروائی گئی۔ نتیجتاً سندھ ہائی کورٹ نے ملزمان پر دہشتگردی کی دفع ختم کر دی۔ نئے سرے سے معافی نامہ جمع ہوا اور بالآخر چاروں ملزمان کو ضمانت پر رہائی مل گئی۔



مفلوج ریاستی رٹ اس قدر مضبوط نہیں ہے کہ تالپور یا جتوئی جیسے بااثر خاندانوں کو سزا دینے کی ہمت کر سکیں

مقتول شاہزیب کے والد نے 27 کروڑ روپے دیت کی مد میں تالپور اور جتوئی خاندانوں سے بھی وصول کیے۔ مقتول کے والد ایک پریکٹیکل اور حقیقت پسند آدمی تھے اسی لئے انہوں نے بیٹیوں کی زندگی بچانے اور ان کے مستقبل کے لئے بااثر قاتلوں سے معافی نامہ کے دستخط کے لئے 27 کروڑ روپے وصول کیے۔ صلح تو بہرحال ہونی ہی تھی کہ ہمارا پولیو زدہ نظام عدل اور ہماری مفلوج ریاستی رٹ اس قدر مضبوط نہیں ہے کہ تالپور یا جتوئی جیسے بااثر خاندانوں کو سزا دینے کی ہمت کر سکیں۔ تو پھر مقتول کے خاندان نے ان حالات میں اگر پیسے لے بھی لیے تو اسے ان کی عقلمندی کہا جانا چاہیے۔ بہت سے صحافی بھائیوں اور دانشور ساتھیوں کو اس بات پر مروڑ بھی اٹھے کہ ریمنڈ ڈیوڈ کیس کی مانند اس کیس میں بھی پیسہ لے کر قاتلوں کو کیوں معاف کیا گیا؟

شاہ زیب کے والد کے معافی نامے پر سوالات وہ لوگ اٹھا رہے ہیں جنہیں زمینی حقائق کا ادراک ہی نہیں

یہ نکتہ ان افراد کی جانب سے اٹھایا اور اجاگر کیا گیا جنہیں حقیقت میں وطن عزیز کی زمینی صورتحال کا ادراک ہی نہیں۔ جنہیں شاید معلوم ہی نہیں کہ پیسے اور تعلقات کے دم پر جب مقتولین کے ورثا کو ہر جانب سے دھمکیاں آتی ہوں ان کی بیٹیوں اور بچوں کے سکول کالج یونیورسٹی آنے کے اوقات کار معلوم ہونے سے لے کر ان کی تمام سرگرمیوں میں تعاقب کیا جاتا ہو تو والدین پر کیا بیتتی ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا بیوقوف والد یا والدہ ہوں گے جو اداروں اور ریاست کو طاقتوروں کے گھر کی لونڈی بنے ہوئے دیکھنے کے بعد اپنے مقتول لخت جگر کے لئے انصاف کے حصول کی خاطر اپنے زندہ بچوں یا بچیوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگانے کی غلطی کریں۔ وہ بھی ایک ایسے معاشرے میں جہاں مجموعی اکثریت کا مشغلہ تماش بینی کرتے ہوئے ہر قتل یا دہشت گردی کے واقعات کے بعد چائے اور کافی کی چسکیوں کے بعد ان واقعات کو زیر بحث لا کر وقت گزاری کرنا ہو۔

ہمارے سوشل میڈیا پر ٹسوے بہانے سے بدمعاشوں اور قاتلوں سے کسی بھی شخص کو تحفظ حاصل ہو سکتا ہے؟

بھلا آپ کے یا میرے ایک کالم لکھنے سے یا پھر نجی محفلوں میں اسے ڈسکس کرنے یا سوشل میڈیا پر ٹسوے بہانے سے بدمعاشوں اور قاتلوں سے کسی بھی شخص کو تحفظ حاصل ہو سکتا ہے؟ کیا محض لکھنے اور دعوے کرنے سے ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ لاہور میں مصطفیٰ کانجو کے ہاتھوں مارے جانے والے مقتول زین کی ماں نامعلوم سمت سے آنے والی گولیوں کے آگے اپنی بیٹیوں سمیت کھڑی ہو جائے؟



کیا شاہ زیب کا باپ اپنی زندہ بچنے والی بچیوں کی زندگی بھی داؤ پر لگا دیتا؟

کیا سوشل میڈیا پر ہماری نوحہ گری کے بعد مقتول شاہزیب کا باپ اپنی زندہ بچنے والی بچیوں کی زندگی بھی داؤ پر لگا دیتا؟ ہمیں تو وقت گزاری کے لئے اور سوشل میڈیا پر جذباتی سٹیٹس اپ لوڈ کرنے کے لئے اور اوراق سیاہ کرنے کے لئے مزید لاشیں مل جائیں گی، ان گنت مزید واقعات مل جائیں گے لیکن شاہ زیب کے والد کو نہ تو اس کا کھویا ہوا بچہ واپس مل پائے گا اور نہ ہی ہم میں سے کوئی اس کی زندہ بچ جانے والی بچیوں کے حصے کی گولی کھانے کے لئے اس کا ساتھ دینے جائے گا۔

ہزارہا لوگ جیلوں میں اس لئے سڑ رہے ہیں کہ ان کے پاس مقتولین کے ورثا کو للچانے کے لئے پیسہ نہیں؟

وہ تو بھلا ہو اس وقت کی عدالت کا جس نے اس معافی نامے کو مسترد کیا اور ان دونوں بااثر مجرموں کی سزا برقرار رکھی۔ چونکہ یہ دیت اور قصاص کا قانون عقیدے سے جڑا ہوا ہے اس لئے اس پر نہ تو کوئی خاص تنقید سنائی دے گی اور نہ ہی اس قانون کے سقم کی جانب کوئی توجہ دلائے گا۔ یہ قانون جس طریقے سے بااثر افراد کو قتل کرنے کی سہولت مہیا کرنے کے بعد باآسانی مقتول کے ورثا کو للچا کر یا ڈرا دھمکا کر معافی نامے اور صلح کے لئے مجبور کرتا ہے اس کی مثال ریمنڈ ڈیوس کیس میں بھی سامنے آئی اور شاہ زیب قتل کیس میں بھی۔ یعنی اگر قتل کرنے والا مالدار اور بااثر ہے تو وہ باآسانی دیت کی رقم دے کر جتنے مرضی قتل کرتا پھرے اس کو سو خون معاف اور دوسری جانب ہزارہا لوگ جیلوں میں ساری زندگی اس لئے سڑیں کہ ان کے پاس پیسہ نہیں جس کے دم پر وہ مخالفین کو دبا سکیں یا للچا سکیں؟



اگر ریاست ہماری حفاظت نہیں کر سکتی تو ریاست کا مقصد کیا ہے؟

شاہ زیب کے قاتلوں کو یوں قانون سے رعایت مل جانا اس معاہدے پر بھی بنیادی سوالات کھڑے کرتا ہے جس کے تحت ریاست اور عام شہری ایک دوسرے کے ساتھ ایک حلف یا عہد نامے سے جڑے ہوتے ہیں۔ بطور شہری اگر ریاست میرے جان و مال کا تحفظ کرنے سے انکاری ہے یا ناکام ہے تو پھر ایسی ریاست میں میرا کیا عمل دخل اور کیونکر مجھے اس میں دلچسپی ہو سکتی ہے؟ ریاست اگر عدل کا نظام ہی وضع نہ کر پائے اور عام شہریوں کو بااثر افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دے تو پھر ریاست کے پاس کیا جواز بچتا ہے کہ وہ معاشرے میں عدل اور مساوات کی باتیں کرے؟ ٹالسٹائی نے کہا تھا کہ ‏‏مملکت سرمایہ داروں کی جماعت کا نام ہے جو محتاجوں اور ضرورت مندوں سے اپنی املاک محفوظ رکھنے کے لئے اتحاد کر لیتی ہے۔ ٹالسٹائی کا یہ قول کم سے کم ہماری ریاست پر بالکل ٹھیک اترتا ہے۔

تالپور اور جتوئی یا دیگر بدمعاش خاندان اس نظام سے جڑے ہوئے ہیں اور اس نظام کو قائم رکھنے میں ہی ایسے مکروہ انسانوں کا فائدہ ہے

خیبر پختونخوا میں ڈیرہ اسماعیل خان میں بچی کو برہنہ کرنے کا واقع ہو یا اسلام آباد میں سر عام ایک بیرسٹر کی تاجی کھوکھر کے غنڈوں کے ہاتھوں موت، لاہور میں مصطفیٰ کانجو کے ہاتھوں ہلاک ہونے والا زین یا کراچی میں قتل ہونے والا شاہ زیب، ان سب کے قاتلوں کے تعلقات اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے سیاسی افراد کے ساتھ نکلتے ہیں۔ ملک ریاض ہو یا علیم خان ایسے قبضہ مافیا بھی سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی پر پنپتے ہیں۔ اس چیچک زدہ سماج کا گھناؤنا چہرہ پہچاننا کچھ اتنا مشکل نہیں ہے۔ تالپور اور جتوئی یا دیگر بدمعاش خاندان اس نظام سے جڑے ہوئے ہیں۔ اور اس نظام کو قائم رکھنے میں ہی ایسے مکروہ انسانوں کا فائدہ ہے۔ جمہوریت یا آمریت کی بحث کرنے سے پہلے بہت ضروری ہے کہ ہم پہلے بااثر لوگوں کے ہاتھوں یر غمال بنے نظام اور ریاست کو درست کرنے پر غور و فکر کریں۔ وگرنہ ہو سکتا ہے کہ اگلی دستک آپ کے در پر ہو یا اگلی کال بیل آپ کے گھر کی بجے اور نشے میں دھت کوئی تالپور، شاہ رخ جتوئی یا مصطفیٰ کانجو آپ کے بچوں کو بھی اڑا دے۔ ریاست کو یرغمال بنانے والی اس مکروہ اشرافیہ سے جان چھڑوانے کے لئے اپنی اپنی سیاسی اور عقائد کی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر عمل کی ضرورت ہے، مذمت کرنے سے کوئی فرق نہیں پکڑنے والا۔ ضروری ہے کہ سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیے جانے کے خلاف بھرپور اور منظم مہم کا آغاز کریں۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔