دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستانی میڈیا میں بھی ان دنوں کرونا وائرس ہی سب سے بڑا موضوع ہے۔ لیکن عام پاکستانی اور بیرونی دنیا دونوں نہیں جانتے کہ ملکی میڈیا ہاؤسز خود اس وائرس کے گڑھ بن چکے ہیں۔
جرمن خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق اب تک لاکھوں انسانوں کو ہلاک اور کئی ملین کو بیمار کر دینے والی کرونا وائرس کی عالمی وبا کے خلاف عام شہریوں کو باشعور بنانے میں پاکستان میڈیا بھی اپنی بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔ لیکن ذرائع ابلاغ کے پاکستانی کارکنوں کے بارے میں خود ان کے ہم وطن بھی لاعلم ہیں کہ یہ صحافی کن حالات میں کام کر رہے ہیں۔
عمومی اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی میڈیا کارکن بھی کرونا وائرس سے لگنے والی بیماری کووڈ 19 سے تقریباً اتنی ہی شدت سے متاثر ہوئے ہیں، جتنے کہ ملکی طبی شعبے کے کارکن۔ گذشتہ ڈھائی ماہ کے دوران پاکستان میں 60 سے زائد صحافی مصدقہ طور پر کرونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔
سرکاری نیوز ایجنسی اے پی پی سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی ظفر رشید بھٹی تو اپریل کے آخری ہفتے میں راولپنڈی میں کرونا وائرس کے خلاف اپنی زندگی کی جنگ ہار بھی گئے۔
ملکی صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، اسلام آباد اور چاروں صوبوں میں پریس کلبوں کے ذرائع کے مطابق اب تک درجنوں صحافیوں میں کرونا وائرس کی تشخیص ہو چکی ہے۔ ان میں سے کم ازکم 28 کوئٹہ، 22 اسلام آباد، 8 راولپنڈی، 6 پشاور اور باقی لاہور اور کراچی میں کرونا وائرس سے متاثر ہوئے۔
پاکستان میں صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے جرمن خبر رساں ادارے کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ صحافیوں کی تنظیموں کے کئی عہدیداروں کے ساتھ اپنی بات چیت کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں کہ ملک میں 20 ہزار کے لگ بھگ صحافیوں میں سے سینکڑوں کرونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملکی میڈیا انڈسٹری کی نمائندہ تنظیموں، میڈیا اداروں یا صحافیوں کی تنظیموں میں سے کسی نے بھی لازمی طور پر ہر صحافی کے طبی ٹیسٹ کی بات نہیں کی، اس لیے اب تک مصدقہ کیسز کی تعداد اصل سے بہت کم ہے، چونکہ ٹیسٹ کم ہوئے ہیں، اسی لیے صرف چند درجن صحافیوں میں ہی اس وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔
ایک خاتون صحافی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر جرمن خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ہمارے ہاں آج کے میڈیا سینٹرز دراصل کرونا سینٹرز بن چکے ہیں۔