42 سالہ ثریا دن میں تین مرتبہ اپنے گھر سے 2 کلومیڑ کے فاصلے پر واقع سرکاری فلٹر سے پینے کا صاف پانی گیلن میں بھر کر لاتی ہیں۔ کیونکہ، گذشتہ سات ماہ قبل اُن کا 6 سالہ بیٹا بیمار ہو گیا تھا جس کی وجہ ڈاکٹر نے صاف پانی نہ پینا بتائی تھی۔ تب سے کوئٹہ کے علاقے کاسی روڈ پر کرائے کے گھر میں رہنے والی ثریا اپنے بیٹے کی خاطر گرمی ہو یا سردی، گیلن اُٹھائے پیدل فلٹر تک جاتی ہیں۔ کیونکہ، اُن کے شوہر شہر کے بازار میں ایک دکان پر سیلز مین ہیں اور وہ صبح جاتے اور رات کو آتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اُن کے گھر میں سرکاری نلکا تو موجود ہے لیکن اُس میں کئی کئی مہینے پانی نہیں آتا جس کی وجہ سے وہ ہر پندرہ دن بعد 1100 روپے میں پانی کا ٹینکر منگواتے ہیں جو پینے کے قابل نہیں ہوتا اور وہ اتنی سکت نہیں رکھتیں کے صاف پانی خرید سکیں۔ اسی لیے وہ سرکاری فلٹر کا پانی استعمال کرتی ہیں۔
کوئٹہ شہر میں پانی کا مسئلہ سنگین حد تک بڑھ چکا ہے، جس سے شہر کا ہر دوسرا فرد پریشان نظر آتا ہے۔
پانی کی قلت کے باعث سابق سرکاری آفیسر دوست محمد کوئٹہ کے علاقے بروری روڈ پر واقع اپنے آبائی گھر کو بیچنے کیلئے کسی اچھے گاہک کے انتظار میں ہیں۔ جس کے لیے اُنہوں نے علاقے کے مختلف پراپرٹی ڈیلرز سے رابطہ کر رکھا ہے، وہ مستقبل قریب میں پنجاب کے شہر فیصل آباد میں منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مہینے میں دو یا تین بار محلے میں بشمول اُن کے تمام گھر پانی کا ایک ٹینکر 1500 یا 2000 کا منگواتے ہیں۔ اُنہوں نے عیدالفطر اور عید الضحیٰ کے موقع پر پانی کا ایک ٹینکر 3500 کا بھی منگوایا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے علاقے میں سرکاری پانی کا آنا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ دوست محمد نے بتایا کہ کوئٹہ میں پانی کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے، اُنہیں پینے کیلئے صاف پانی کی بوتلیں خرید کر لانا پڑتی ہیں جبکہ جہاں پانی کا مسئلہ قدرے کم ہے، وہاں پراپرٹی کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ اس لیے اُنہوں نے اور اُن کے بچوں نے کوئٹہ سے فیصل آباد منتقل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
بلوچستان کا دارلحکومت کوئٹہ یومیہ 3 کروڑ گیلن سے زائد پانی کی قلت کا سامنا کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے پانی کی کمی کا سنگین مسئلہ جنم لے رہا ہے۔ شہر کو یومیہ 5 کروڑ گیلن سے زائد پانی کی ضرورت ہے جبکہ سرکاری محکمہ واسا یومیہ 2 کروڑ گیلن پانی کی ضرورت پوری کر رہا ہے۔
ماضی میں چھوٹا پیرس کہلانے والے کوئٹہ شہر کی کُل آبادی 50 ہزار نفوس پر مشتمل تھی جبکہ 2017 میں ہونیوالی مردم شماری کے مطابق کوئٹہ کی آبادی 26 لاکھ ہو گئی ہے۔
جامعہ بلوچستان کے شعبہ سوشیالوجی کے چیئرمین ڈاکٹر عالم ترین کے مطابق شماریات کے محکمے کے اعدادوشمار میں وہ لاکھوں لوگ شامل نہیں ہیں جنہوں نے رجسٹریشن اپنے علاقوں میں کی ہے۔ مگر وہ روزگار، صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات کی خاطر کوئٹہ میں رہائش پذیر ہیں۔
ماہرین کے مطابق کوئٹہ شہر میں سن 2000 سے قبل زیر زمین پانی کا لیول 400 سے 600 فٹ پر تھا جبکہ اب پانی کا لیول 900 سے 1200 فٹ پر چلا گیا ہے۔ جس تیزی سے زیر زمین پانی کا لیول گر رہا ہے اگر یہی رفتار جاری رہی تو آئندہ 10 سالوں میں لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق شہر میں چند ہی کلومیٹر کے فاصلے پر مختلف پلازوں اور گھروں میں کئی غیر قانونی بورنگ کی گئیں ہیں. جہاں سے 24 گھنٹے پانی نکالا جا رہا ہے۔ اگر پانی کی کمی اور بے دریغ استعمال پر حکومت نے جلد از جلد حکمت عملی نہیں اپنائی تو اگلے چند عشروں میں شہر صحرا کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اس وقت شہر میں ٹینکر مافیا کے ہاتھوں شہری یرغمال نظر آتے ہیں، جو اپنی مرضی کے مطابق پانی کے ٹینکر کا ریٹ مختص کر دیتے ہیں جبکہ شہر کے اکثر علاقہ مکینوں نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ علاقے کے سرکاری وال مین جو کہ محکمہ واسا کے ملازمین ہیں، ہر گھر سے ماہانہ 200 سے 500 لے کر علاقے کو پانی فراہم کرتے ہیں۔ پیسے نہ دینے کی صورت میں وال مین ٹینکر مافیا سے گٹھ جوڑ کر لیتے ہیں جس سے اکثر علاقوں میں پانی کا مصنوعی بحران بھی پیدا ہو جاتا ہے۔
شہر کو پانی فراہم کرنے والے ادارے واسا کے منیجنگ ڈائریکٹر اسلم مگسی کے مطابق شہر میں واسا کے 430 میں سے 50 ٹیوب ویلز زیر زمین پانی نہ ہونے کی وجہ سے خشک ہو چکے ہیں۔ اس وقت محکمے کے 380 ٹیوب ویلز میں سے شہر کو یومیہ 2 کروڑ گیلن پانی فراہم کیا جا رہا ہے اور کنٹونمنٹ بورڈ کی جانب سے شہر کو یومیہ ایک ہزار گیلن پانی اضافی مہیا کیا جا رہا ہے جبکہ کوئٹہ شہر کو یومیہ 5 کروڑ گیلن سے زائد ضرورت ہے۔ اُن کے مطابق اگلے دو ماہ میں کوئٹہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقعہ نواحی علاقے دشت سے شہری علاقے سریاب کیلئے پانی پہنچایا جائے گا، جس سے کسی حد تک شہر کے ایک حصے میں پانی کی قلت میں کمی آئے گی۔ ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ واسا کے ملازمین پر رشوت لینے کے الزامات کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں اور تمام علاقوں کے سپروائزار اور وال مین پر خاص نظر ہے۔ کسی بھی وال مین کے خلاف اگر جرم ثابت ہوتا ہے یا ثبوت ملتے ہیں تو محکمہ اُن کے خلاف سخت کارروائی کرے گا۔
یونیورسٹی آف بلوچستان کے آرتھ اینڈ انوائرمینٹل سائنسیز ڈیپارٹمنٹ کے فیکلٹی ڈین، دین محمد کاکڑ پانی کے مسئلے پر 2006 سے کام اور ریسرچ کر رہے ہیں۔ اُن کے مطابق اگر ہنگامی بنیادوں پر عملی اقدامات نہیں کیے گئے تو دس سالوں سے قبل ہی لوگ پیاس کے باعث شہر چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ وہ کوئٹہ میں پانی کے بحران کی شدت کا ذمہ دار صوبائی حکومتوں اور صوبے کے سرکاری ادارے واسا، پی پی ایچ آئی، ایرگیشن اور کنٹونمنٹ بورڈ کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان اداروں نے کوئٹہ کی زمین سے پانی تو نکالا ہے لیکن زیر زمین پانی کو ری چارج کرنے کی کوئی پلاننگ نہیں کی ہے، جبکہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے سن 1999-2000 میں ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں صوبائی دارلحکومت کو پانی فراہم کرنے کے ذرائع بتائے گئے تھے۔ اگر اُس پلان کے مطابق کام ہوتا تو آج پانی کا مسئلہ اتنا سنگین نہ ہوتا۔ ہر سال پی ایس ڈی پی میں پیسے تو رکھے جاتے ہیں مگر عملی کام نظر نہیں آتا۔
دین محمد کاکڑ نے بتایا کہ 1987 میں کوئٹہ میں پانی 50 فٹ پر تھا جبکہ 150 فٹ پر پریشر سے پانی باہر آتا تھا جبکہ 2019 میں پانی کوئٹہ کے اکثر علاقوں میں 1250 فٹ سے بھی نیچے جا چکا ہے۔ 2016 میں شہر کی ضرورت یومیہ 36 ملین گیلن تھی جبکہ آج یومیہ 52 ملین گیلن بھی کم پڑ رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں اُن کی ریسرچ کے مطابق کوئٹہ کے ائیرپورٹ روڈ سے ملحقہ علاقے شخ ماندہ میں صرف ایک اسکوئر میٹر کی حدود میں 20 کے قریب غیر قانونی ٹیوب ویلز بنائے گئے ہیں، تو باقی شہر کا کیا حال ہوگا۔ ہم اپنے حصے کا پانی پی چکے ہیں جبکہ آنیوالی نسل کے حصہ کا پانی بھی ختم کر کے 1200 فٹ سے پانی نکال رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے زمین پر بوجھ بڑھ رہا ہے اور کوئٹہ کے اکثر علاقوں میں سالانہ 10 سینٹی میٹر سے 16 سینٹی میٹر تک زمین بیٹھ رہی ہے۔ اس سے زمین پھٹنے کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ صوبائی درالحکومت میں ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی بننے کی وجہ سے پانی کی فراہمی کیلئے عملی اقدامات بھی تیز نظر آرہے ہیں، جس سے کوئٹہ کینٹ اور ڈی ایچ اے کو پانی مل جائے گا لیکن شہر کے عام عوام کیلئے پانی کا مسئلہ مستقل حل ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اگر ابھی بھی حکومت معاملے کو سنجیدگی سے لے تو پانی کے بحران پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر و اپوزیشن رکن اسمبلی ثنا بلوچ کہتے ہیں کہ پانی کی صورتحال صرف کوئٹہ میں نہیں بلکہ پورے بلوچستان میں سنگین صورتحال اختیار کر جائے گی کیونکہ حکومت کی جانب سے کوئی سنجیدہ اقدامات نظر نہیں آ رہے۔ صوبے میں سیاسی سنجیدگی کا بھی فقدان ہے، پی ایس ڈی پی میں پانی کے حوالے سے منصوبے بن جاتے ہیں لیکن اُن پر عملدآرمد نہیں ہوتا۔ پانی کے مسئلے کے حل کیلئے 20 سے 30 سالہ مکمل جامعہ پالیسی درکار ہے اور اُس پالیسی پر عملدآرمد کرانے کیلئے ایک سنجیدہ حکومت اور قیادت کی ضرورت ہے۔ ورنہ صرف کوئٹہ ہی نہیں اگلے دس سال میں صوبے کے کئی اضلاع بری طرح متاثر ہوں گے۔
پانی کی سنگین صورتحال پر حکومت کا موقف دیتے ہوئے ترجمان حکومت بلوچستان لیاقت شاہوانی کا کہنا تھا کہ پی پی ایچ آئی، واسا اور ایرگیشن تین محکمے ایک ہی کام کر رہے ہیں اور شہر میں بہت جگہ پانی کی بورنگ کی گئی ہیں۔ جس سے پانی کا لیول نیچے جا رہا ہے آنیوالے دنوں میں حکومت ایک ایسا سسٹم لا رہی ہے جس میں ایک محکمہ ہی ٹیوب ویل پانی اور بورنگ کے معاملات دیکھے گا جبکہ کوئٹہ میں 170 ٹیوب ویلز کو فعال بننے جا رہے ہیں اور مانگی، کیچ اور برق عزیز ڈیم بنائے جا رہے ہیں تاکہ پانی کو محفوظ کیا جائے اس کے علاوہ 47 ہزار ایکڑ پر نولنگ ڈیم بنیں گے، جس سے پانی کی ضرورت پوری ہونے کے ساتھ 5.5 میگا واٹ بجلی بھی پیدا کی جائے گی اور ایک ڈیم بولان میں بھی بنایا جائے گا۔