پیر کوہ میں پانی کی قلت، ہیضے کے مرض سے مرنے والوں کی تعداد 20 سے تجاوز کر گئی

پیر کوہ میں پانی کی قلت، ہیضے کے مرض سے مرنے والوں کی تعداد 20 سے تجاوز کر گئی
پیر کوہ میں پانی کی قلت اور ہیضے کی مرض سے بیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

مقامی صحافیوں کے مطابق پانی کی قلت اور اس سے جنم لینی والی ہیضے کے مرض سے 20 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ دی بلوچستان پوسٹ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران درجنوں افراد بی ایچ یو پیرکوہ لائے گئے تھے۔ جن میں بیشتر کی حالت تشویش ناک ہے اور 19 سالہ خاتون اور 2 بچوں سمیت مزید 3 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

پیر کوہ میں پانی کی قلت کب سے ہے;

مقامی ذرائع بتا رہے ہیں کہ 17 اپریل سے پانی کی قلت آئی ہے۔ پانی کی قلت سے پیدا ہونے والے امراض میں سے ایک ہیضے کی وبا ہے جس سے بیشتر لوگ متاثر ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق اب تک اس مرض سے مرنے والے لوگوں کی تعداد 20 سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ بتا رہے ہیں کہ اس مرض سے متاثر خواتین اور بچوں کی شرح زیادہ ہے تاہم نوجوان اور بوڑھے لوگ بھی اس مرض سے متاثر ہیں۔

پانی کی قلت کی وجہ سے مال و مویشی بھی بے حد متاثر ہیں۔ مقامی لوگوں کی طرف سے سوشل میڈیا میں شائع کی گئی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گائے، بکریاں سمیت مال مویشی مر چکے ہیں۔

مقامی لوگوں کا موقف;

ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ہارون بلوچ نے رابطہ کرنے پر بتایا تھا کہ 17 اپریل سے جاری پانی کی قلت اور ہیضے کے مرض نے حالات کو سنگینی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتی لا توجہی کی وجہ سے اب تک 20 سے زائد افراد مرد،خواتین اور بچے سمیت ہلاک ہوئے ہیں اور کیسز کی شرح 40 سے 50 فیصد روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے کی وجہ سے اب تک 5ہزار سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر ہارون بلوچ بتاتے ہیں کہ پانی کی قلت اور حکومتی سنجیدگی نہ ہونے کی وجہ سے مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک بورنگ لگانے کی کوشش کی تھی تاہم زیرِ زمین پانی نہ ہونے کی وجہ سے مقامی لوگوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

ہارون بلوچ کے مطابق یہاں پانی کا انحصار تالاب کے پانی پر ہے۔ اس مسئلے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے 2017 میں اُس وقت کے صوبائی وزیر سرفراز بگٹی نے ڈیرہ بگٹی سے پیرکوہ تک کروڑوں کی لاگت میں واٹر سپلائی پروجیکٹ کی منظوری کروائی تھی جس سے صرف چار تالابیں ہی بن پائیں تھیں اور ڈیرہ بگٹی میں اس پروجیکٹ کو پایہِ تکمیل تک پہنچایا گیا ہے۔

انہوں نے مزید بتاتے کہا کہ پیر کوہ میں بنیادی صحت مرکز ضرور ہے لیکن یہاں بنیادی سہولیات اور ڈاکٹر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کی وجہ سے مریضوں کو ڈیرہ بگٹی کی سول اسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔ مقامی لوگوں نے 14 مئی کو حکومتی خاموشی کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس مسئلے پر حکومتی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ مقامی لوگ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ہماری نقل و حمل پر حکومت توجہی سے مانیٹر کرتی ہے مگر پیر کوہ پانی کی قلت پر حکومت بالکل خاموش ہے۔

حکومت کیا کہتی ہے؟

جمعہ کے صبح جیو نیوز کی مارننگ شو میں بات کرتے ہوئے ترجمان حکومت بلوچستان فرح عظیم شاہ نے بتایا تھا کہ اب اس مسئلے پر کافی حد تک قابو پایا جا چکا ہے۔ انہوں نے بار بار ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اب حالات ہمارے کنٹرول میں ہیں۔

مگر اس کے برعکس مقامی لوگوں نے ترجمان حکومت بلوچستان فرح عظیم شاہ کی بیان کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلوچستان حکومت کا بیان سچ کو چھپانے کے علاوہ کچھ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بیان سے واضح ہے کہ حکومتی سنجیدگی نہ ہونے کے برابر ہے۔

وزیر اعلی بلوچستان میر عبدلقدوس بزنجو کی طرف ابھی تک اس مسئلے پر کوئی بیان نہیں آیا ہے اور نہ ہی وزیراعلی ہاؤس کی طرف سے وزیر اعلی کی دورہِ پیرکوہ سے متعلق کوئی بیان سامنے آیا ہے۔

تاہم سیکریٹری ہیلتھ بلوچستان آغا صالح ناصر نے کل پیرکوہ کا دورہ کرتے ہوئے میڈیا نمائندگان سے بات چیت کرتے ہوئے حالات کی سنگینی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ وبا کی باعث متاثرہ مریضوں کی تعداد میں روزانہ 50 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔

پیر کوہ کہاں واقع ہے؟

پیر کوہ بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی سے 20 کلومیٹر دور ایک سب تحصیل ہے جس کی آبادی لگ بھگ 43 ہزار ہے۔

بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی تحصیل پیلاوغ، سوئی اور ڈیرہ بگٹی پر مشتمل ایک قبائلی ضلع ہے۔ حکومتِ پاکستان کی طرف سے دو ہزار ستارہ میں کیے گئے مردم شماری کے مطابق ڈیرہ بگٹی کی کُل آبادی 312,603 نفوس پر مشتمل ہے جس میں مردوں کی تعداد ایک لاکھ چھپن اور خواتین کی تعداد کی ایک لاکھ اڑتالیس ہزار بتائی گئی تھی۔ اعداد و شمار کے مطابق 67 فیصد دیہی جبکہ 32 فیصد لوگ شہری علاقوں میں آباد ہیں۔ اعداد و شمار سے پتا چلتا کہ ہے کہ پیر کوہ کی کل آبادی 43 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔

ڈیرہ بگٹی میں خواندگی کی شرح ملک کے انتہائی کمترین سطح پر شمار ہوتا ہے جہاں مردوں کی خواندگی شرح 41.5 فیصد جبکہ خواتین کی شرح خواندگی 9.35 فیصد ہے۔

ڈیرہ بگٹی معاشی،تعلیمی اور صحت کی شعبے میں بھی انتہائی پسماندہ ہے۔ یاد رہے سوئی گیس کی پیداوار ڈیرہ بگٹی کی تحصیل سوئی سے ہوتا ہے لیکن گیس کی فراہمی آج تک سوئی،ڈیرہ بگٹی سمیت بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں نہیں ہے۔

1952 میں دریافت ہونے والے سوئی گیس کی آخری معاہدہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی دورِ حکومتی میں ہوا تھا۔ اُس وقت کے وزیراعلی بلوچستان نواب ثنا اللہ زہری کی موجودگی میں ہونے والے معاہدہ کے مطابق سوئی میں تعلیم صحت اور دیگر بنیادی سہولیات کے لیے بیس ملین روپے مختص کیے گئے تھے۔

یوسف بلوچ ایک اردو کالم نگار اور طالب علم ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔