35 سالہ راقیمہ کوئٹہ کے علاقے پشتون آباد کی رہائشی ہے۔ وہ گزشتہ کئی برسوں سے قلت آب کا سامنا کر رہی ہیں۔ اس کے گھر میں پانی کی ضرورت ٹینکر کے ذریعے پوری کی جاتی ہے اور ایک ٹینکر بمشکل ایک ہفتہ ہی چل پاتا۔ ہے ان کے گھر میں پانی کا سرکاری نلکا تو موجود ہے لیکن اس میں کئی سالوں سے پانی نہیں آتا۔ بعض اوقات بی بی راقیمہ گلی کے کونے پر واقع پڑوسیوں سے پانی مانگ کر لاتی ہے۔
بی بی راقیمہ بتاتی ہے کہ ''پانی نہ ہونے کی وجہ سے گھریلو کاموں بالخصوص برتن اور کپڑے دھونے سمیت بچوں کو نہانے جیسی ضروریات کیلئے پانی نہ ہونے سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ماہانہ 4 سے 5 ٹینکرز پانی استعمال ہوتا ہے۔ فی ٹینکر قیمت 15 سو سے 2 ہزار روپے میں خریدتے ہیں۔ محکمہ واسا کی جانب سے سرکاری نلکے سے کئی سالوں سے ایک بوند پانی نہیں آیا۔
بی بی راقیمہ کہتی ہے کہ اس سلسلے میں نہ صرف محکمہ واسا کے حکام کو بارہا آگاہ کیا بلکہ وزیراعظم کے سیٹزن پورٹل پر بھی شکایت کی۔ اس کے بعد واسا حکام حرکت میں تو آئے لیکن جلد ہی پورٹل پر جواب جمع کرکے خاموشی اختیار کرگئے۔
کوئٹہ کی 22 لاکھ آبادی پر مشتمل افراد کو یومیہ 54 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے جبکہ محکمہ واٹر اینڈ سینیٹیشن اتھارٹی ( واسا)اور کنٹونمنٹ کے علاقے میں ملٹری انجینئرنگ سروسز کی جانب سے 24.6 ملین گیلن پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔
واسا کے اعدادوشمار کے مطابق کوئٹہ شہر کو اس وقت 29.5 ملین گیلن پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ شہریوں کو پینے کا پانی فراہم کرنے کیلئے محکمہ واسا کے کوئٹہ میں کُل 405 ٹیوب ویلز قائم ہیں جن میں سے 51 ٹیوب ویلز غیر فعال ہیں جبکہ کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیسکو) کے حکام کی جانب سے محکمہ واسا کے متعدد ٹیوب ویلز کے بجلی کنکشنز بلوں کی عدم ادائیگی کے باعث منقطع کر دئیے گئے ہیں۔
محکمہ واسا کے ذمے اس وقت ایک ارب 10 کروڑ روپے واجب الادا ہیں۔ اس تمام صورتحال میں کوئٹہ کے شہریوں کو پینے کے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے اور شہر کی اکثریت آبادی پرائیویٹ ٹینکرز کے ذریعے پانی خریدنے پر مجبور ہے۔
صوبائی سیکرٹری برائے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ صالح ناصر پانی کے مسئلے کو سنگین قرار دیتے بتاتے ہیں کہ ''پانی کی فراہمی کیلئے بہتر مشینری اور پائپ لائن ضروری ہیں لیکن کوئٹہ شہر میں ٹیوب ویلز کی مشینری اور پائپ لائن انتہائی ناقص ہیں۔
محکمہ واسا کے اوسطاً 50 سے 60 ٹیوب ویلز ماہانہ خراب ہوتے ہیں جس کی مرمت کیلئے کم از کم 4 کروڑ کی رقم درکار ہوتی ہے جبکہ محکمہ واسا کو ٹیوب ویلز کی مرمت کی مد میں ہر تین ماہ بعد صرف 3 کروڑ روپے ملتے ہیں جس کے باعث ٹیوب ویلز کی مرمت کا کام سست روی کا شکار ہوتا ہے۔
بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ چاروں اطراف سے پہاڑوں میں گھری ہوئی وادی ہے۔ یہ صوبے کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ یہ وادی جنوب مشرق میں میاں غنڈی سے شمال مغرب میں بلیلی گیپ تک پھیلی ہوئی ہے۔
یہ وادی چِلتن، مہردار تکتو اور زرغون کے پہاڑی سلسلوں سے ملتی ہے۔ چلتن سطح سمندر سے 3,194 میٹر بلند ترین چوٹی ہے جبکہ وادی کی اوسط بلندی 1,680 میٹر ہے۔
دریائے بلیلی وادی کے بیچ میں بہہ رہا ہے۔ عام طور پر جنوب سے شمال کی سمت، اور بلیلی گائوں کے نزدیک ذیلی بیسن سے نکل کر دریائے پشین (پشین ذیلی طاس) میں جا ملتا ہے۔ آس پاس کے پہاڑوں سے چھوٹی چھوٹی نہریں دریائے بلیلی میں مل جاتی ہیں۔
محکمہ واسا کے ہائیڈرولوجسٹ حمید اللہ کہتے ہیں کہ کوئٹہ میں پانی کی ڈسچارج شرح 97 ملین کیوبک میٹر، ریچارج کی شرح 67ملین کیوبک میٹر ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کو 30 ملین کیوبک میٹر پانی کی کمی کا سامنا ہے۔
شہر میں جگہ جگہ کنکریٹ اور پختگی کی وجہ سے پانی کا ری چارجنگ ایریا کم ہو رہا ہے۔ وہ علاقے جو شہر کو ری چارج کر رہے ہیں، میں آباد کاری اور غیر قانونی ٹیوب ویلز کی تنصیب کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔
حمید اللہ کی جانب سے گذشتہ سال کوئٹہ ذیلی طاس میں پانی کی سطح میں کمی پر کی گئی تحقیق سے یہ بات اخذ کی گئی ہے کہ ''سال 2019-20ء کے دوران چونا پتھر اور آلیوئل ایکویفر میں پانی کی سطح میں کمی واقع ہوئی ہے۔
تحقیق میں انہوں نے پانی کی سطح میں کمی پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ کوئٹہ شہر میں زیر زمین پانی کے ریچارج کو مستحکم کرنے اور پانی کی قلت سے بچنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔
محکمہ ایری گیشن کے اعدادوشمار کے مطابق کوئٹہ شہر میں 1998ء میں زیر زمین پانی کی سطح 80 سے 120 فٹ جبکہ اب یہ سطح 450 سے لے کر 580 فٹ تک ہے۔ محکمہ واسا کے رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں زیر زمین پانی کا گراپ ایک ہزار سے 12سو فٹ تک گر چکا ہے۔
محکمہ آب پاشی کے رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں سالانہ بنیادوں پر پانی کا زیر زمین سطح 3سے 4میٹر تک گر رہاہے تاہم محکمہ واسا کے اعداد وشمار اس سے بالکل مختلف ہے محکمہ واسا کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل کے مرتب کئے گئے رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں سالانہ بنیادوں پر پانی کا گراپ 10سے 12میٹر تک گر رہاہے جو تشویشناک ہے ۔
محکمہ ایری گیشن کے رپورٹ '' کوئٹہ کے آبی وسائل کے ذخائر کا جائزہ 2020ء ''کے مطابق کوئٹہ میں ایک ٹیوب ویل سے فی سیکنڈ8.5لیٹرپانی نکالاجاتاہے جبکہ کل 2000ہزار ٹیوب ویلز میں 1850جو الویل ایکویفر میں واقع ہے سے 106کیوسک ،150جو چٹانی علاقوں میں لگائے گئے ہیں سے 15کیوسک اور دیگر سے 6کیوسک پانی نکالاجارہاہے ۔
محکمہ آب پاشی کے ڈائریکٹر برائے پلاننگ ومانیٹرنگ عبدالرزاق خلجی دعویٰ کرتے ہیں کہ کوئٹہ شہر میں پانی کی صورتحال خطرناک نہیں تاہم پانی کی زیر زمین سطح کو اوپر لانے کیلئے ری چارج طریقہ کارتبدیل کرنے کی ضرورت ہے ،شہر میں غیر قانونی ٹیوب ویلز ،ٹینکر مافیا کی ملی بھگت سے پانی کی قلت بڑھتی جارہی ہے ۔
عبدالرزاق خلجی کہتے ہیں کہ زیر زمین پانی کے گراف میں بہتری کیلئے ہمیں اپنے تکنیک کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے اگر اس سلسلے میں فوری اقدامات اٹھائے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کوئٹہ میں اب نوشی اور آبپاشی کیلئے پانی کے سلگتے مسئلے کو کم کیاجاسکے ۔
سیکرٹری پی ایچ ای صالح ناصر کہتے ہیں کہ '' کوئٹہ شہر کنکریٹ میں تبدیل ہوگیاہے ۔سب باسین کوئٹہ میں7ایری گیشن نالیاں تھیں جو زیر زمین ری چارج دے رہی تھیںجو یا تو قبضہ ہوگئیں یا پھر کنکریٹ میں تبدیل کردی گئی ،ان 7ریزوائرنالوں میں سے صرف اب 3نالے رہ گئے ہیں 4نالے قبضہ کرلئے گئے جن پرگھروں کی تعمیر کردی گئی ہے جبکہ رہ جانے والے مری آباد نالہ ،جتک موڑ نالہ اورپشتون آباد نالہ تو موجودہیں لیکن کنکریٹ یا پھر سرے پر گھروں کی تعمیر کی وجہ سے زیر زمین ری چارج نہیں دے پارہی ہیں۔شہر میں سڑکوں کے کنارے درختوں کے ساتھ یا عام زمین پرٹف ٹائل لگادئیے گئے جس کی وجہ سے بارش سے ملنے والا ری چارج اب نہ ہونے کے برابر ہے ''
وہ مزید بتاتے ہیں کہ کوئٹہ شہر میں استعمال شدہ پانی کو قابل استعمال بنانے کیلئے سبزل روڈ پلانٹ کی فعالیت کیلئے 11کروڑ روپے کی رقم جاری کردی گئی ہے ری سائیکل شدہ پانی پینے کے قابل تونہیںالبتہ زراعت ودیگر ضروریات کیلئے استعمال کیاجاسکتاہے محکمہ واسا اب بھی کیسکو کی ایک ارب10کروڑ روپے کی مقروض ہے جبکہ پی ایچ ای 6ارب روپے ہیں ۔بجلی کی وولٹیج میں کمی بھی ٹیوب ویلز کی خرابی کاباعث بنتے ہیں ۔
کوئٹہ کی نشست پر منتخب ہونیو الے صوبائی وزیر مبین خان خلجی کوئٹہ میں پانی کی قلت کے مسئلہ کوانتہائی اہم قراردیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ''میں نے ذاتی حیثیت میں پی ایس ڈی پی میں کوئٹہ شہر کے پانی کے مسئلے کے حل کیلئے اقدامات اٹھانے کی درخواست کی تھی ۔شہر میں پانی کی زیرزمین سطح کیلئے مختلف ڈیمز کی منظوری دے چکے ہیں منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے بارش کا پانی ضائع ہوجاتاہے تاہم سرُپل پر 17کروڑ روپے کی لاگت سے ایک بند تعمیر کرنے جارہے ہیں ۔منگی ڈیم پر تیزی سے کام جاری ہے ،ہلک ڈیم 22ارب روپے کی لاگت سے تعمیر ہورہاہے جس کی تعمیر ہونے کے بعد پانی کے مسئلے میں ایک حد تک کمی آسکے گی ۔''
ماہرین کاماننا ہے کہ اگر پانی کے حوالے سے اچھی پالیسی مرتب کرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ اٹھائے گئے توآنے والے دنوں میں کوئٹہ کے شہریوں کو پینے کے پانی کے حصول میں بہت زیادہ مشکلات ہوں گی ۔
بی بی راقیمہ جیسی سینکڑوں کوئٹہ شہر کے گرد ونواح میں پرائیویٹ ٹینکرز کے ذریعے پانی منگوا کر اپنی ضروریات پورا کرنے پر مجبور ہیں شہری پانی کے ایک ایک بوند کو بہت ہی زیادہ احتیاط کے ساتھ استعمال کرتے ہیں ۔رات کے اوقات میں کوئٹہ شہر میں سڑکوں پر سب سے زیادہ پانی کے ٹینکرز دوڑتے نظرآتے ہیں ۔