لاپتہ صحافی مُدثر نارو کی والدہ اور کم سِن بیٹا سچل ایک بار پھر اپنے والد سے ملنے کی اُمید کے ساتھ اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے۔ اِس کے علاوہ لاپتہ افراد کے لیے جدوجہد کرنے والی آمنہ مسعود جنجوعہ، لاپتہ صحافی مُدثر نارو کی وکیل ایڈوکیٹ ایمان مزاری، کرنل (ر) انعام الرحیم اور دو لاپتہ نوجوانوں کے وکیل اور والد ایڈووکیٹ مُشتاق بھی کورٹ روم نمبر ون میں موجود تھے۔ چھ کیسز کی سماعت کے بعد جب اس مُقدمے کا نام پُکارا گیا تو سب روسٹرم پر پیش ہو گئے۔
صحافی اسد علی طور کے مطابق مُدثر نارو کی وکیل ایمان مزاری نے عدالت سے کہا کہ پچھلی تاریخ پر وزیرِ اعظم خود عدالت آئے تھے اور انہوں نے یقین دہانی کروائی تھی۔ اس کے جواب میں اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیرِ اعظم نے کمیٹی بنا دی تھی جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کمیٹی ستمبر سے بنی ہوئی ہے۔ یہ بتائیں کہ ایک ماہ میں کیا ہوا؟
اس سوال کے جواب میں اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سر آٹھ میٹنگز ہوئی تھیں۔ سب سٹیک ہولڈرز کو بُلایا تھا، آمنہ مسعود جنجوعہ اور بلوچ طلبہ کو بھی بُلایا تھا۔ اب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے حقائق رکھنے تھے تو اعظم نذیر تارڑ نے استعفیٰ دے دیا۔ چونکہ کمیٹی اعظم نذیر تارڑ کے نام سے بنی تھی اس لئے اُن کے مُستعفی ہونے کے بعد کمیٹی ختم ہو گئی تھی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ وزیر کے نام سے یہ کب سے ہونے لگا؟ وزارتِ قانون تو وہی ہے نا؟ اب ایاز صادق ہیں وزیرِ قانون، یہ کب سے ہونے لگا؟ ہائی کورٹ میں یہ کیس جسٹس اطہر من اللہ سُن رہے تھے لیکن وہ سُپریم کورٹ چلے گئے ہیں تو کیا یہ کیس بھی ختم ہو گیا؟ اس کے جواب میں اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت سے درخواست کی کہ سر تھوڑا وقت دے دیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے جواب دیا کہ آپ نے کیا وقت لینا ہے، ڈویژن بینچ میں سُن رہا ہوں اور یہاں بھی دو دو سال سے لاپتہ افراد کے مُقدمات زیرِ سماعت ہیں لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ بیوروکریسی والا کام مت کریں، یہ مُلک کے مُفاد میں نہیں ہے۔ آپ خود کو لاپتہ افراد کی جگہ رکھ کر سوچیں کہ اگر آپ کے گھر والوں میں سے کوئی یا آپ کا کوئی پیارا لاپتہ ہو جائے تو کیسا لگے گا؟ حکومت کو کہیں کہ صرف انسان بن کر سوچیں۔
دو لاپتہ نوجوانوں کے والد اور وکیل ایڈووکیٹ مُشتاق نے عدالت سے مخاطب ہو کر کہا کہ سر میرے بیٹوں کو اسلامک یونیورسٹی کے باہر سے اُٹھایا گیا، دونوں میں سے ایک بیٹے کی ایک ماہ کی بیٹی تھی جو اب چھ سال کی ہو گئی ہے۔ گھر جاؤں گا تو وہ پوچھے گی۔
پولیس کے نمائندے نے چیف جسٹس کے استفسار پر جواب دیا کہ سر یہ وقوعہ 2016 کا ہے اور تمام کوششیں مُکمل ہوچُکی ہیں۔ اشتہار بھی جاری کیے گئے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس بات پر پتہ نہیں ہنسنا چاہیئے یا رونا چاہیئے۔ آپ تفتیش کے اہل بھی ہیں؟ اشتہار دے دیا یہ کیا تفتیش ہے؟ آپ کو تفتیش کی الف ب کا بھی نہیں پتہ۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے پولیس کی نااہلی پر برہم ہو کر ایس ایچ او سبزی منڈی اسلام آباد کو طلب کر لیا اور کیس کو ڈویژن بینچ میں دیگر لاپتہ افراد کے کیسز کے ساتھ کلب کرکے فکِس کرنے کا حُکم دے دیا۔