دانشوروں کا خیال ہے کہ ہمارے ملک کا مسئلہ مالی بدعنوانی ہے، جب کہ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مسئلہ اخلاقی دیوالیہ پن ہے جس کی انتہا کو الحمداللہ ہم نے عبور کر لیا ہے۔ معاشرہ کی اخلاقی اقدار کسی بھی ملک و قوم کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔
یہ معاشرہ کی وہ بنیاد ہوتی ہے، جس میں ممالک اور اقوام کی خوش حالی اور فلاح و بہبود کا راز مضمر ہوتا ہے۔ بنیاد درست ہو تو معاشرہ بھی اچھا ہو گا اور خوش حالی اور فلاح و بہبود اس معاشرہ کو نصیب ہوں گی۔ اس کے برعکس جب اخلاقی اقدار کمزور ہوں گی، تو معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو گا اور خوش حالی و فلاح و بہبود جیسی نعمتیں اس ملک و قوم سے کوسوں دور چلی جائیں گی۔
جب ہم اپنے اردگرد کا جائزہ لیتے ہیں، تو مجموعی طور پر معاشرہ خرابی اور بگاڑ کا شکار ہے۔ جھوٹ، بددیانتی، وعدہ خلافی، لوٹ مار، قتل و غارت، لسانیت، عصبیت، فرقہ واریت وغیرہ وہ تمام خرابیاں ہیں جو اس معاشرہ کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی ہیں اور یہ علتیں معاشرے کے لئے ناسور بن چکی ہیں۔ ان کی وجہ سے ہمارا ملک و معاشرہ جس زبوں حالی کا شکار ہے، وہ ہم سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔
یہ وہ تلخ حقیقت ہے، جس سے ہم من حیث القوم واقف ہیں لیکن سدباب کہ لئے توجہ دینے کو تیار نہیں۔ معاشرہ کی اصلاح کے لئے سب سے پہلے معاشرہ کو سمجھنا ضروری ہے، تا کہ مریض کے مرض کی تشخیص کی جا سکے، تا کہ ادویات کا اثر بہتر ہو۔
افراد کے اجتماع کو معاشرہ تصور کیا جاتا ہے، دوسرے الفاظ میں کسی بھی جگہ اکٹھے رہنے والے افراد کو مجموعی طور پر معاشرہ کہا جاتا ہے۔ معاشرہ کی اکائی فرد ہے، افراد کا مجموعہ معاشرہ اگر بنیادی اکائی ہی خراب ہو گی تو معاشرہ بھی خراب ہو گا۔ اس لئے ہمیں بنیادی اکائی یعنی فرد کی تعلیم و تربیت اور اصلاح پر خصوصی توجہ دینی پڑے گی۔ ہمارے ہاں ہر شخص کو اس بات کا تو ادراک ہے کہ معاشرہ ٹھیک نہیں لیکن اس نے اس بات پر کبھی غر و فکر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ اس کا انفرادی اور اجتماعی کردار اس بگاڑ میں کتنا اہم ہے۔ اگر معاشرہ بگاڑ کا شکار ہے تو فرد اس سے بری الذمہ ہرگز نہیں ہے، معاشرہ کی اصلاح کے لئے اس سوچ کا من حیث القوم ہم میں پروان چڑھنا بہت ضروری ہے، یہی سوچ انشاء اللہ معاشرے کی اصلاح میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ معاشرے کی اصلاح کیلئے دین اسلام کی روشنی میں بیان کردہ معاشرتی احکام اور مسائل سے واقفیت بھی ضروری ہے، قرآن و حدیث میں جگہ جگہ معاشرتی احکام و مسائل بیان کئے گئے ہیں۔ قرآن کریم میں سورۃ الحجرات میں چند انتہائی اہم معاشرتی احکام مذکور ہیں، اس مناسبت سے یہ سورہ خصوصی اہمیت کی حامل ہے، ان احکامات کو ترتیب وار مختصر وضاحت کے ساتھ نیچے بیان کیا جا رہا ہے۔
کسی خبر پر بغیر تحقیق یقین کر کے اس پر عملی کارروائی کرنا:
کسی بھی خبر کو بغیر تحقیق کی زحمت کیے اس پر یقین کرنا اور اس پر عملی کارروائی شروع کر دینا ایک قبیح عمل ہے۔ اکثر اوقات پتا چلتا ہے کہ وہ خبر جھوٹ اور غلط تھی، لیکن اس وقت تیر کمان سے نکل چکا ہوتا ہے، اور ندامت ہوتی ہے، بہتر ہے کسی بھی خبر کو جنگل کی آگ کی طرح پھیلانے سے پہلے، اس کی مکمل چھان بین کر لیں، خاص طور پر آجکل کے سوشل میڈیا کے زمانے میں جب ہر چیز وائرل ہوتے دیر نہیں لگتی ہے۔ اس کی حالیہ مثالوں میں امان اللہ مرحوم کی قبر سے متعلق ویڈیو، کلثوم نواز مرحوم کی موت سے متعلق قیاس ارائیاں، لوگوں کے مسلک کے متعلق قیاس ارائی سے گریز کریں اس میں مشال خان کا قتل، سیالکوٹ کے دو بھائیوں کا قتل، چند اہم مثالیں ہیں۔
تنازعات کا خاتمہ کرانے میں مدد کریں:
معاشرے میں بسنے والے افراد کے درمیان اختلافات ایک فطری عمل ہے، اس صورت حال میں محض تماشائی بننے کے بجائے غیر جانب داری اور عدل و انصاف کے ساتھ صلح صفائی کروا کے اختلافات کو ختم کروانا ایک اہم معاشرتی ذمہ داری ہے۔ اگر ایک فریق دوسرے فریق کے خلاف ظلم پر اتر آئے تو مظلوم کی حمایت کرنا نہایت ضروری ہے۔
کسی انسان کا تمسخر اڑانا:
یہ ایک انتہائی مذموم معاشرتی عمل ہے، جس کے ساتھ سختی سے منع فرمایا گیا ہے، اسلام میں ہر شخص کی عزت نفس کا بہت خیال رکھا گیا ہے۔ ہر وہ عمل جس سے کسی انسان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے، اس سے منع فرمایا گیا ہے۔ اللہ نے مردوں اور عورتوں کو الگ الگ مخاطب کرکے اس عمل سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے، جس سے اس عمل کی ناپسندیدگی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ بیماری ہمارے معاشرے کے لئے سرطان بن چکی ہے، کسی انسان کی کمی اس انسان کی شناخت بنا دی جاتی ہے۔
طعنہ زنی :
طعنہ زنی ایک قبیح فعل ہے، ہمارے معاشرے میں برسوں پرانی باتوں پر آباواجداد اور خاندانی طعنے دے کر اذیت دینا نہایت پسندیدہ مشغلہ ہے، اور ہم اس پر نا صرف فخر محسوس کرتے ہیں بلکہ معاشرے کے لوگ داد بھی دیتے ہیں۔ اس سے راہ فرار اختیار کیجئے۔
بُرے القابات سے پکارنا :
کسی بھی انسان کو برے لقب سے پکارنا اور یاد کرنا دراصل ایک دوسرے کی عزت نفس سے کھیلنے کے مترادف ہے، یہ عمل عزت و احترام کے رشتے کا تقدس بھی پامال کرتا ہے جو معاشرے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ دوسروں کو ان کی جسمانی یا ذہنی کمی کی بنیاد پر القابات سے نوازنا دین اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے۔
انسانوں کے متعلق منفی سوچ اور بدگمانی:
انسانی سوچ اس کے افعال و اعمال میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے، انسان ہر معاملے میں پہلے اپنی عقل کے ذریعے سوچتا ہے اور پھر دل سے فیصلہ کرتا ہے اور آخر میں اپنے اعضاء و جوارح کے ذریعے اس کو عملی جامہ پہناتا ہے، اس لئے انسانی سوچ کا مثبت ہونا انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اس لئے اپنی زندگی میں جو بھی فیصلہ کریں اور جو بھی عملی اقدام کریں، اپنی سوچ ہمیشہ مثبت رکھیں۔ کیونکہ جس فیصلہ کی بنیاد منفی سوچ پر رکھی گئی ہو اس کے نتائج منفی ہونے کہ امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لئے منفی سوچ اور بدگمانی سے پرہیز کریں۔
ایک دوسرے کی ٹوہ اور جاسوسی :
ایک دوسرے کی کمزوریوں اور برائیوں کی جستجو سے پرہیز کریں، اس سے باہمی اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے ، اپنی کمزوریوں اور برائیوں پر نظر رکھتے ہوئے انکی اصلاح کی فکر کریں۔
غیبت کرنا :
کسی دوسرے مسلمان کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی بیان کرنا غیبت کہلاتی ہے۔ دین اسلام نے اس سے بہت سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔ اﷲ تعالی نے قرآن کریم کی اسی سورہ میں اس عمل کو دوسرے مردہ مسلمان کے گوشت کو کھانے سے تشبیہہ دی ہے۔ جناب رسول اکرم ﷺ نے اس کو زنا سے بھی بدتر گناہ قرار دیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ مرض ہمارے معاشرے کے خواص و عوام میں اس قدر عام ہوچکا ہے کہ اس کی برائی ہی اب دلوں سے ختم ہوچکی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا لمحۂ فکر ہے، اس لیے اس قبیح فعل کی برائی دل میں پیدا کرنا اور اس سے بچنا نہایت ضروری ہے۔
مساوات :
یہ ایک انتہائی اہم معاشرتی اصول ہے جس کو اس سورہ کے آخر میں بیان کیا گیا ہے اور یہی ماقبل میں مذکور معاشرتی برائیوں سے بچنے کا ایک آسان نسخہ بھی ہے۔ دراصل انسان جب غیبت، طعن و تشنیع اور عیب جوئی کرتا ہے، دوسروں کا مذاق اڑاتا ہے اور ان کو بُرے القابات سے یاد کرتا ہے تو اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے، اس لیے ان تمام معاشرتی برائیوں کو بیان کرنے کے بعد آخر میں مساوات کی تعلیم دی گئی ہے کہ بنی نوع انسان سب آدم و حوا علیھما السلام کی اولاد ہیں، کسی کو دوسرے پر رنگ، نسل، قوم قبیلے یا کسی اور سبب سے کو ئی فضیلت و برتری حاصل نہیں ہے۔ فضیلت و برتری کا ایک ہی معیار ہے اور وہ تقوی یعنی اﷲ تعالی کا ڈر اور خوف ہے۔
یہ تمام اہم معاشرتی احکامات اللہ تعالٰی نے بندوں کے لئے قرآن پاک میں اس سورہ میں بیان کیے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے کی برائیوں میں سے ایک بڑی برائی آپس کے اختلافات اور لڑائی جھگڑے ہیں۔ کسی بھی ذریعے اور رشتے سے باہم منسلک افراد کے درمیان نفرت، اختلافات اور لڑائی جھگڑے معمول کا حصہ ہیں، میاں بیوی کا رشتہ ہو، قرابت داری کا رشتہ ہو، مالک اور ملازم کا رشتہ ہو، کاروباری رشتہ ہو وغیرہ، ان سب رشتوں میں جڑے ہوئے افراد کے مابین اختلافات اور لڑائی جھگڑے کثرت کے ساتھ دیکھنے کو ملتے ہیں اور اسی وجہ سے جلد یا بہ دیر یہ رشتے ختم ہوجاتے ہیں اور اگر باقی بھی رہتے ہیں تب بھی الفت اور محبت کا عنصر تو بہرحال مفقود ہوتا ہے۔
اگر ہم پس پردہ اس کے اسباب اور وجوہات پر غور کریں تو ہمیں اس سب کے پیچھے بنیادی اور کلیدی کردار ان مذکورہ معاشرتی احکام سے رُوگردانی کا نظر آئے گا۔ اس لیے اگر ہم معاشرے کی اصلاح چاہتے ہیں، معاشرے سے اختلافات اور لڑائی جھگڑوں کا خاتمہ اور اس میں امن و محبت اور سکون و اطمینان دیکھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں قرآن و حدیث میں ذکر کردہ ان معاشرتی احکام کو اپنانا ہوگا، اور بات پھر وہی ہے کہ یہ معاشرے میں بسنے والے ہر فرد کی ذمے داری ہے۔ کیوں کہ افراد ہی سے معاشرہ بنتا ہے، اگر ہم سب نے معاشرتی و اخلاقی اقدار سے متعلق احکامات پر عملدرآمد شروع کر دیا تو حقیقی فلاحی معاشرہ تشکیل پائے گا۔