اب بات نازک موڑوں اور دوراہوں سے کہیں آگے نکل چکی ہے۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ ہمارے آگے ایک گہری کھائی ہے جس کی طرف ہم سرپٹ دوڑتے چلے جا رہے ہیں۔ دل میں رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ آخر یہ سب کیا ہو گیا؟ کیوں آج ہماری ریاست کے تانے بانے بکھرتے چلے جا رہے ہیں؟ کیوں ہماری سیاست اور معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہیں؟ آخر اس سب کیے کرائے کا ذمے دار ہے کون؟
ان سوالوں کے جواب ڈھونڈتا ذہن پہلے جرنیلوں، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور سیاسی لیڈروں کو قصور وار ٹھہراتا ہے لیکن پھر خیال آتا ہے کہ یہ تو صرف بیماری کی علامتیں ہیں۔ ہمارے معاشرے کا اصل سرطان تو دہائیوں سے جاری طبقاتی جنگ ہے جو ہمیں اس بھنور کی گہرائیوں میں دھکیلتی چلی جا رہی ہے۔ آزادی کے بعد سے ایوب سے لے کر باجوہ تک، منیر سے لے کر بندیال تک اور بھٹو سے لے کر عمران تک اس جنگ کے سب ہی مہرے کم و بیش ایک جیسی غلطیاں بار بار دہرانے پر مجبور ہیں۔
کسی بھی معاشرے کی سیاسی اور معاشی ترقی کا انحصار وہاں کے مختلف طبقات کے درمیان توازن پر ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں طبقات کا یہ توازن کبھی آئین، کبھی قانون اور کبھی مشترکہ اخلاقی اقدار کی صورت میں نمایاں ہوتا ہے۔ ایسے معاشروں میں تمام طبقات کچھ بنیادی اصولوں پر متفق ہو کر اپنے اپنے مفادات کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں باہمی طبقاتی انتشار نے آزادی کے فوراً بعد ہی جڑیں پکڑ لیں اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ انتشار مزید گہرا ہوتا چلا گیا۔
پاکستان میں طبقات کے درمیان پہلی جنگ 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں دو حریف تھے۔ ایک طرف جاگیردار تھے تو دوسری طرف تنخواہ دار طبقہ تھا۔ جاگیردار طبقہ ان نوابوں، سرداروں اور پیروں پر مشتمل تھا جن کے آبا و اجداد نے 1857 کی جنگ میں انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔ ان خدمات کے بدلے میں انگریز حکومت نے انہیں جاگیریں عطا کر کے اپنے اپنے علاقوں میں اجارا داری قائم کرنے کی اجازت دی تھی۔ جاگیردار اشرفیہ نے اس اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے برصغیر کی سیاست پر اپنا سکّہ جمایا۔
دوسری جانب یو پی، بہار اور پنجاب کے چھوٹے بڑے مسلمان زمینداروں نے اپنے بچوں کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور جیسے تعلیمی اداروں میں بھیجا۔ انگریزی وضع کی تعلیم سے آراستہ ہو کر ان زمینداروں کی اولادوں نے انگریز کی بیوروکریسی اور فوج کا حصہ بننے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر، انجنیئر، بینکر، پروفیسر اور وکیل جیسے شعبے بھی اپنا لیے۔ اس طبقے کو معروف انٹلیکچوئل حمزہ علوی نے سالاریات کا نام دیا جبکہ اردو شاعر جون ایلیا نے انہیں علی گڑھ کے شرارتی لونڈے کہہ کر پکارا۔
برصغیر سے انگریزوں کی رخصتی کے بعد جاگیردار اور تنخواہ دار طبقات انگریز کی جگہ لینے کے لئے باہم دست و گریبان ہو گئے۔ طویل عرصے تک جاری رہنے والی اس جنگ کا نتیجہ بالآخر یہ نکلا کہ جنرل ایوب خان کی قیادت میں تنخواہ دار طبقے نے جاگیردار اشرافیہ کو کچھ یوں اکھاڑ پھینکا کہ آج دولتانے، ٹوانے اور ممدوٹ صرف تاریخ کی کتابوں میں ہی ملتے ہیں۔ نہ صرف تنخواہ دار طبقے نے جاگیردار طبقے کو شکست فاش دی بلکہ 1960 کی دہائی کے اواخر تک سرمایہ دارانہ اشرافیہ کو بنا کر جاگیرداروں کے مقابلے پر لا کھڑا کیا۔
تقریباً دو سو سال قبل برطانیہ میں آئے صنعتی انقلاب کی طرح یہاں بھی مختلف کاریگروں نے اپنے ہنر کو بڑھاوا دے کر انڈسٹری قائم کی۔ مثلاً کپڑا بُننے والوں نے ٹیکسٹائل ملز، رنگ سازوں نے ڈائننگ فیکٹریاں اور لوہے کی دیسی بھٹیوں میں کام کرنے والوں نے سٹیل ملز لگا لیں۔ اس کے ساتھ روایتی کاروباری برادریوں سے تعلّق رکھنے والے افراد نے صابن سے لے کر گھی اور کھٹ مٹھوں سے لے کر آٹے تک ہر طرح کی کنزیومر اشیا کی بڑے پیمانے پر پیداوار شروع کر دی۔ سرمایہ دار طبقے کے عروج سے تنخواہ دار طبقے کو تین فائدے پہنچے۔ پہلا یہ کہ سرمایہ دار طبقے نے اپنے پیسے کے زور پر جاگیردار طبقے کے اثر کو مزید کم کیا۔ دوسرا یہ کہ اس طبقے نے شہری اخلاقی اور سماجی اقدار کو پروان چڑھایا اور تیسرا یہ کہ نئے کاروبار کی بدولت تنخواہ دار طبقے کو دفتروں اور فیکٹریوں میں خوب نوکریاں ملیں۔
ایوب حکومت کی سرمایہ دار اور تنخواہ دار نواز پالیسیوں نے جہاں صنعتوں کو فروغ دیا، وہیں دوسری طرف زراعت اور شہری غربا کو نظر انداز کیا۔ صنعتوں میں معاشی استحصال سے تنگ آئے شہری مزدوروں اور زراعت سے منسلک دیہی افراد کا سرکار پر غصہ دن بدن بڑھتا چلا گیا، حتیٰ کہ اس غصّے نے عوامی تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ گلی محلوں میں ایوب کتا ہائے ہائے کے نعرے بلند ہوتے ہوتے ایوان صدر تک جا پہنچے اور بالآخر ایوب خان کو صدارت سے استعفیٰ دینا پڑا۔ 1970 کے عشرے کی شروعات تک ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب مخالف عوامی غصے کی قیادت مکمل طور پر سنبھال لی تھی اور اس طرح حالیہ پاکستان میں پہلی بار عوامی طبقے نے سیاست میں قدم رکھا۔
چونکہ ذوالفقار علی بھٹو پرانے جاگیردار سماج کا حصّہ تھے، اس لئے پورے ملک کی باقی ماندہ جاگیردار اور وڈیرہ اشرافیہ نے ان کا ساتھ دیا۔ اس طرح عوام اور جاگیرداروں نے مل کر تنخواہ دار اور سرمایہ دار طبقے کے خلاف محاذ کھول لیا۔ بھٹو نے زراعت کو خوب فروغ دیا اور عوام میں زمینیں اور سرکاری نوکریاں بانٹیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے تقریباً 1700 اعلیٰ سرکاری افسران کو فارغ کر کے تنخواہ دار طبقے کو کاری ضرب لگائی۔ نیشنلائزیشن کی پالیسی کی آڑ میں سرمایہ دار طبقے سے ان کی ملیں اور فیکٹریاں لے کر مزدور یونینوں کے حوالے کر دیں۔ لیکن تنخواہ دار طبقے کی نظر میں شاید بھٹو کا سب سے بڑا گناہ 1973 کا آئین تشکیل دینا تھا جس کی رو سے طاقت ہمیشہ کے لئے ووٹ دینے والی عوام اور ان کے ووٹوں سے ایوانوں میں بیٹھے وڈیروں اور جاگیرداروں کے ہاتھ میں آ جاتی۔
اپنے مفادات کو جاہل عوام اور کرپٹ جاگیرداروں سے محفوظ رکھنے کی خاطر تنخواہ دار طبقے نے ضیاء الحق کے مارشل لا کا بھرپور ساتھ دیا اور پھر یہ ہوا کہ فوج اور عدلیہ میں بیٹھے تنخواہ دار طبقے کے نمائندوں نے عوام کے نمائندے کو سولی پر چڑھا دیا۔ بھٹو کی جارحانہ وطن پرستی کے جواب میں تنخواہ دار طبقے نے مذہبی جنونیت کو فروغ دیا اور امریکی ایما پر افغان جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ 1980 کی دہائی میں امریکہ سے آئی دولت اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مہیا کی ہوئی نوکریوں کی بدولت تنخواہ دار طبقے نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹیز کو آباد کرنا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی ضیاء الحق حکومت نے سرمایہ دار طبقے کو ان کے بہت سے کاروبار واپس کیے اور آسان شرائط پر قرضے دے کر نئی صنعتیں لگانے کے مواقع بھی فراہم کیے۔
دولت اور سرکاری سرپرستی سے مالامال سرمایہ دار طبقے نے ملکی سیاست کی باگ ڈور سنبھال لی اور 1990 کی دہائی میں تنخواہ دار طبقے کے گٹھ جوڑ سے محترمہ بینظیر بھٹو کی عوامی سیاست کو تگنی کا ناچ نچا دیا۔ سرمایہ دار طبقے کے سیاسی سردار میاں محمد نواز شریف نے خود کو صرف سرمایہ داروں کا ہی نہیں بلکہ دکان داروں اور تاجروں سمیت پورے کاروباری طبقے کا قائد بنا کر پیش کیا۔ اس حکمت عملی کے نتیجے میں انہوں نے 1997 کے انتخابات میں جی ٹی روڈ کے تاجروں اور تنخواہ دار طبقے کی مدد سے بھرپور کامیابی حاصل کرنے کے بعد ایک مضبوط حکومت قائم کی۔
اقتدار میں آنے کے بعد نواز شریف نے ملک میں کاروبار کی ترویج کو تنخواہ دار طبقے کے مفادات پر ترجیح دی۔ 1998 میں ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد مقبولیت کے عروج پر پہنچے۔ نواز شریف نے پہلے جہانگیر کرامت اور پھر پرویز مشرّف کو آرمی چیف کے عہدے سے فارغ کر کے تنخواہ دار طبقے کو مزید ناراض کیا۔ افسوس کہ پرویز مشرّف کو ہٹانے والا وار نواز شریف پر الٹا پڑ گیا اور 1999 میں تنخواہ دار طبقے نے ایک بار پھر فوج کی مدد سے پاکستان کی تاریخ میں تیسری مرتبہ بالواسطہ طور پر حکومت سنبھال لی۔ مشرّف حکومت کی پالیسیوں کی بدولت امریکی وار آن ٹیرر کے ڈالروں کی ریل پیل کا سیدھا اور بھرپور فائدہ تنخواہ دار طبقے نے اٹھایا۔ بینکنگ، ٹیلی کمیونیکیشن، میڈیا اور ملٹی نیشنل کمپنیز سمیت دیگر شعبوں میں وسعت پیدا ہوئی اور ان میں بے تحاشہ نوکریاں پیدا ہوئیں۔ اس طرح تنخواہ دار طبقے کی مجموعی دولت اور اس طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تعداد میں دن دگنا رات چوگنا اضافہ ہوتا چلا گیا۔
ملٹی نیشنل کارپوریشنز کا جال بچھنے اور مشرق وسطیٰ میں نوکریاں کھلنے کی وجہ سے تنخواہ دار طبقہ اب فوج یا بیوروکریسی جیسی سرکاری نوکریوں کا محتاج رہا اور نہ ہی سرمایہ دار سیٹھوں کا۔ 2000 کی دہائی کے اواخر تک اس طبقے کی خود اعتمادی اور تعداد میں اتنا اضافہ ہو گیا کہ اس نے جاگیرداروں، جرنیلوں اور سرمایہ داروں کی سیاسی قیادت قبول کرنے کی بجائے اپنے ہی طبقے کے درخشاں سپوت عمران خان کا انتخاب کیا اور اس انتخاب کو اپنا قدرتی اتحاد گردانتے ہوئے شجاع پاشا اور ظہیر الاسلام جیسے جرنیلوں نے عمران خان کے سیاسی مستقبل پر کام کرنا شروع کر دیا۔
دوسری جانب محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد والی پیپلز پارٹی سے ناامید ہو کر عوام نے نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا اور اس طرح 2013 کے انتخابات میں عوام-تاجر اتحاد کی بدولت نواز شریف اقتدار میں آ گئے۔ پہلے کی طرح اس بار بھی انہوں نے کاروبار نواز پالیسیوں کے ساتھ عوام دوست پالیسیاں متعارف کروا کر اپنے سیاسی اتتحاد کو اور مضبوط کیا۔ ان پالیسیوں کا فائدہ بلاواسطہ طریقے سے تنخواہ دار طبقے کو بھی ہوا لیکن اتنا نہیں ہوا جتنے فائدے کے وہ پرویز مشرّف کے زمانے میں عادی ہو چکے تھے۔ نواز شریف کی عوامی حمایت اور حکومت کرنے کی اعلیٰ صلاحیت سے یوں محسوس ہونے لگا کہ شاید ان کی حکومت اب اگلی دہائی تک قائم رہے گی۔
تو پھر ہوا یہ کہ نواز شریف کی مضبوط حکومت کو کمزور کرنے کے لئے تنخواہ دار طبقے نے عمران، فوج، میڈیا اور عدلیہ کے ذریعے پوری طاقت سے عوام-تاجر اتحاد کی مخالفت شروع کر دی۔ جہاں ایک طرف عمران خان فوج کی مدد سے ملک بھر میں دندناتے پھر رہے تھے، وہیں میڈیا ان کے چور ڈاکو لٹیرے والے بیانیے کو خوب ہوا دے رہا تھا۔ دوسری طرف ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کی عدالت ہر موڑ پر حیران کر دینے والی ڈھٹائی سے نواز مخالف فیصلے سناتی جا رہی تھی۔ رہی سہی کثر تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر پوری کر دی۔
عوامی حمایت کے زور پر تنخواہ دار طبقے سے ڈٹ کر لڑنے کی بجائے نواز شریف نے افہام و تفہیم کی سیاست کا رستہ اپنایا۔ وہ جی ٹی روڈ پر نکلے تو ان کی حمایت میں ہر پڑاؤ پر عوام کا سمندر امڈ آیا۔ لیکن وہ عدالت اور فوج پر سیدھا الزام لگانے کے بجائے 'مجھے کیوں نکالا؟' اور 'خلائی مخلوق' جیسی اصطلاحوں کے ذریعے عمومی باتیں کرتے رہے۔ جب بیمار بیوی کو بستر مرگ پر چھوڑ کر اپنی بیٹی کا ہاتھ تھامے لندن سے لاہور واپس آئے تو ان کے بھائی اور بھتیجے ایئرپورٹ پر ان کا استقبال کرنے کی بجائے ہزاروں کی تعداد میں جمع پر جوش عوام کو لاہور کی سیر کرواتے رہے۔ نواز شریف نے کبھی گوجرانوالہ کے جلسے میں جنرل باجوہ کو مورد الزام ٹھہرایا تو کبھی اس ہی جنرل باجوہ کو ملازمت میں توسیع دلوانے کے لئے اسمبلی میں ووٹ بھی ڈلوائے۔
افسوس کہ دھڑا بندی اور جوڑ تور کی سیاست کے عادی نواز شریف کو عوامی طاقت کے بل پر اپنا اور عوام کا حق لینا نہیں آیا۔ صد افسوس کہ ان کی بیٹی مریم کو نواز شریف کی صورت میں قدرت کی طرف سے عطا کردہ کرشماتی قیادت، عوامی مقبولیت اور خدا داد صلاحیت کے پیکر کا درست استعمال کرنا نہ آیا۔ جارحانہ حکمت عملی اپنانے کے بجائے چپ چاپ نواز شریف اور مریم جھوٹے مقدمات میں جیل کاٹتے رہے اور عمران، فوجی جرنیل اور اعلی عدلیہ کے جج مزید سفّاک ہوتے چلے گئے۔
2018 کے انتخابات سے قبل تنخواہ دار طبقے نے عوامی حمایت یافتہ نواز شریف کا بھرپور میڈیا ٹرائل کیا۔ سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کیے رکھا۔ ان کے پارٹی لیڈران کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور عدالتی ایکشن کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ اس سب کے باوجود انتخابات والے دن فوج کو آر ٹی ایس بٹھا کر ہی عمران خان کو جتوانا پڑا۔ لیکن اس کھلّم کھلا دھاندلی کا مقابلہ کرنے کی بجائے ایک بار پھر نواز شریف سر تسلیم خم کرتے ہوئے ان انتخابات کے نتائج کو قبول کر کے لندن روانہ ہو گئے۔
دوسری جانب عمران خان فوج اور عدلیہ کی معاونت سے وزیراعظم بن تو گئے لیکن ان کو اس عہدے کو نبھانا ہرگز نہ آیا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی آمرانہ مطلق العنّان طبیعت مزید آشکار ہوتی چلی گئی۔ جیسے جیسے عمران کی حیران کن فسطائیت اور نااہلی کا پردہ چاک ہوتا رہا، ویسے ویسے ان کو لانے والے جرنیلوں پر عمران حکومت کے فیصلوں کا بوجھ بڑھتا چلا گیا۔
اس دباؤ کے باعث جنرل باجوہ عمران خان سے خفا خفا رہنے لگے اور خود کو حکومتی فیصلوں سے دور رکھنے کے لئے عمران حکومت کے لئے اپنی حمایت میں تھوڑی کمی کرتے چلے گئے۔ جب کہ عمران اور تنخواہ دار طبقہ یہی توقع کرتا رہا کہ عمران کی 2018 والی حمایت ہی جاری رکھی جائے۔ ان کے ذہن میں یہ بات تھی کہ عمران خان جیسا بھی ہے، ان کا اپنا ہے اور اگر عمران کی سہولت کاری نہ کی گئی تو پھر وہی عوامی سیاست کرنے والے چور لٹیرے حکومت پر قابض ہو جائیں گے۔
جرنیلوں اور عمران کے بیچ بڑھتی چپقلش اور ان کی گرتی مقبولیت سے طاقتور ہونے والے نواز شریف کے لئے آگے کا راستہ بہت صاف اور واضح تھا۔ اپریل 2002 میں عمران حکومت گرانے کے بعد قومی اسمبلی تحلیل کر دی جاتی اور فوری طور پر نئے انتخابات کا اعلان کر دیا جاتا۔ اس طرح جس کا گند ہے وہ خود صاف کرے کے فلسفے کے تحت پیٹرول کی قیمت بڑھانے جیسے مشکل فیصلے جرنیلوں اور ان کی بنائی ہوئی عبوری حکومت کو کرنے دیے جاتے۔ پھر عوامی حمایت سے اقتدار میں آ کر معیشت کی تنظیم نو کی جاتی، عوامی دباؤ میں گھرے جرنیلوں کو دفاعی بجٹ میں کمی پر آمادہ کیا جاتا، پی آئی اے اور اسٹیل ملز جیسے تمام خسارے میں چلتے سرکاری اداروں کو بند کیا جاتا، بھارت سے تجارت کے راستے کھولے جاتے اور مجموعی طور پر عوام دوست اور کاروبار دوست پالیسیوں کا سہارا لے کر بگڑتی معیشت کو سمبھالنے کا ڈول ڈالا جاتا۔ اس طرح ایک دو سال کی مشکل کے بعد یقینأ فوج اور اشرافیہ کے نرغے سے آزاد ہوا ملک آہستہ آہستہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتا۔
اس سب کے نتیجے میں نواز شریف کی پارٹی کو یہ نقصان ضرور ہوتا کہ شہباز شریف سمیت دیگر جرنیل پسند سیاسی لیڈر ان کی پارٹی سے الگ ہو جاتے لیکن ایسے لیڈروں کا حال بھی چوہدری نثار سے مختلف نہ ہوتا۔ آخر بینظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد بھی تو ان کے بہت سے انکلز ناراض ہو کر گمنامی کے اندھیروں میں گم ہو گئے تھے۔
مگر افسوس کہ اپنے بھائی کی دو دن کی وزارت عظمیٰ کی خاطر نواز شریف نے عوام اور ملک کی بلی چڑھا دی۔ انہوں نے جرنیلوں کی مدد سے ایسی حکومت بنانے کا فیصلہ کیا کہ جس نے آتے ہی عوام کا خون چوسنا شروع کر دیا۔ افسوس کہ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام کی چیخوں پر نواز شریف نے جرنل باجوہ کے احکامات کو ترجیح دی۔ اب چاہے اسے نواز شریف کی ناعاقبت اندیشی کہیے، غیرمعمولی برادرانہ شفقت یا پھر قائدانہ بزدلی؛ جرنیلوں کی حمایت زدہ اور عوام دشمن حکومت لے کر نواز شریف نے اپنی اور مریم نواز کی سیاست کے ساتھ ساتھ ملک کے مستقبل کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے۔
یہ بات سوچ کر دل لرز جاتا ہے کہ دھوکہ کھائی عوام نے نواز شریف سے کوئی دلاسہ نہ پا کر اب عمران خان کی فسطائی سیاست کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کم سے کم کراچی کی حد تک تاجر طبقہ بھی اب پوری طرح عمران کے ساتھ کھڑا ہے۔ عمران خان کی بے وزن تقریروں کا بے سر و پا غصّہ اب عوام کے اندر کے غصّے کا غمّاز بن چکا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صدیوں کے حریف تنخواہ دار اور عوامی طبقے کا اتحاد ہونا یقینأ اتنی طاقت رکھتا ہے کہ فوج، عدلیہ اور سرمایہ داروں کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام اداروں کو تہس نہس کردے۔ (پورے مضمون میں فوج اور عدلیہ کو بھی تنخواہ دار طبقہ ہی کہا ہے تو پھر یہاں کس تنخواہ دار طبقہ فوج اور عدلیہ کے خلاف کیسے متحد ہوگیا؟ یہ دیکھ لیں ایک بار)
ایوب خان سے لے کر راحیل شریف کے گن گاتے تنخواہ دار طبقے کو یک دم سب جرنیل غدّار نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اب وہ دن دور نہیں جب تنخواہ دار طبقہ بھی جنرل کیانی کے اسٹریلوی جزیروں اور اسلم باجوہ کے پاپا جان پیزوں پر اعتراض اٹھانا شروع کر دے گا۔ کبھی فوجی پراپیگنڈے کو سوشل میڈیا پر بڑھاوا دیتا نوجوان آج اسی فوج کے خلاف کھلم کھلا دشنام طرازی پر تلا بیٹھا ہے۔
تنخواہ دار طبقے کی حمایت سے محروم مستقبل کے طالع آزما جرنیل کے لئے حکومت پر بلا واسطہ قابض ہونا اب انتہائی مشکل ہو گیا ہے اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو اس فوجی ڈکٹیٹر کو عوام اور تنخواہ دار طبقے کی مخالفت جھیلنے کے لئے صدا حسیں کی طرح گولی اور بارود کا سفّاک استعمال کرنا پڑے گا۔
دوسری جانب اگر عوام اور تنخواہ دار طبقے کے اتحاد کے زور پر اگرعمران خان جرنیلوں کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے تو حکومت میں آنے کے بعد وہ پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ اور مطلق العنّان سوچ کے حامل رہنما بن کر ابھریں گے۔ فوج، میڈیا اور عدلیہ جیسے تمام اداروں کو روندتے ہوئے عمران خان اپنے تمام حریفوں کو زندان میں ڈال دیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی نااہلی پر اٹھنے والی ہر آواز کو بے دردی سے کچل دیں گے اور ملک میں شدید گھٹن اور آسیب زدہ ماحول چھا جائے گا۔ ایسے میں عوام عمران کا ساتھ چھوڑ بھی دیں تو وہ شام کے صدر بشارالاسد کی طرح راکھ کے ڈھیر پر بھی اپنی حکومت قائم رکھیں گے۔
آج کل کے معروضی حالات سے لگتا یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح جنرل باجوہ مدّت ملازمت میں توسیع بھی لے لیں گے اور ایک مخلوط حکومت کے نتیجے میں شہباز شریف یا ظفر اللہ خان جمالی جیسا کوئی وزیراعظم بھی مسند پر بٹھا دیں گے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عوامی حمایت کے بغیر بننے والی ایسی کمزور حکومت عوام اور جرنیلوں کے بیچ میں پستی رہے گی۔ شہباز شریف کی موجودہ حکومت ہی کی طرح وہ مشکل فیصلے لے پائی گی اور نہ ہی اس سے معیشت سنبھالی جا سکے گی۔ دفاع اور حکومتی خرچوں میں کمی کرنے کی بجائے آئی ایم ایف سے قرض پر قرض لیتی حکومت اپنے غلط فیصلوں کا تمام بوجھ عوام پر تباہ کن مہنگائی کی صورت میں ڈالتی رہے گی۔ بھوک سے بلکتے عوام اب کی بار شاید ریاست بچانے کے کھوکھلے بہانے نہ سنیں اور قانون، سیاست اور ریاست کی طے کی ہوئی تمام کی تمام حدود پار کر لے۔ پھر ہمارے ملک میں جو ہو گا، وہ ناقابل بیان ہے۔
مختصراً یہ کہ اب ہر رستہ تباہی اور انتشار کی طرف جاتا دکھائی دیتا ہے اور کسی صورت بھی بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ آنے والی اس تباہی اور انتشار کا ذمے دار میں نہ تو فسطائی عمران خان کو گردانتا ہوں اور نہ ہی سفاک فوجی جرنیلوں کو۔ اس سب کا ذمے دار 'ووٹ کو عزت دو' کا نعرہ لگانے والا نواز شریف ہے کہ جس نے عوام کے اعتماد کو دھوکہ دیا۔ اس سب کا ذمے دار وہ نواز شریف ہے کہ جس کے پاس ملک کو اس بھنور سے نکالنے کا پورا پورا موقع تھا لیکن اس نے اپنے بھائی کو ایک عہدہ دلوانے کی خاطر ملک اور عوام کو اندھے کنوئیں میں دھکیل دیا۔ کسی اور سے نہیں، مجھے تو گلہ اس مریم نواز سے ہے کہ جس نے ملک و قوم کی بقا کی آخری امید بننے پر اپنے پاپا کی لاڈلی گڑیا بننے کو ترجیح دی۔
آخر میں اس امید کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ شاید ایک دو دہائیوں کے ناگزیر انتشار کے بعد ہمارے ملک کے مختلف طبقات کچھ بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ کر لیں اور ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ شاید سب کچھ لٹانے کے بعد ہی ہمیں عقل آ جائے۔۔۔ شاید!