پاکستانیوں نے ان گنت مصائب پر مشتمل 77 سال کا دردناک سفر برداشت کیا ہے۔ پاکستانیوں، خاص طور پر غریب اور کم مراعات یافتہ طبقے کے مصائب اس وقت تک جاری رہیں گے، چاہے ہم کتنے ہی یوم آزادی منائیں، جب تک کہ معاشرے کی تشکیل نو، عدل اور انصاف پر مبنی ان اصولوں پر نہ ہو، جن کا تذکرہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 3 میں کیا گیا ہے۔
77 ویں یوم آزادی سے صرف ایک ہفتہ قبل، سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ذریعے الیکشنز ایکٹ 2024 (دوسری ترمیم) کے ذریعے مخصوص نشستیں مختص کرنے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی غلطی کی اصلاح کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کے 9 رکنی اکثریتی فیصلے کی کھلی خلاف ورزی ایک انتہائی افسوس ناک عمل تھا۔ یہ آئین کے آرٹیکل 189 کی تذلیل کے مترادف ہے، جو ملک کو مزید انتشار اور آئین شکنی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ یہ امر انتہائی تشویش ناک بھی ہے، جب قوم پہلے ہی بے لگام دہشت گردی، لاقانونیت، معاشی بدحالی، ٹیکسوں کے بے مثال بوجھ اور بلند افراط زر کے باعث اشیائے خورونوش کی بڑھتی قیمتوں سے تنگ ہے۔
موجودہ سیاسی عدم استحکام اور سنگین معاشی بحران کوئی اچانک اور الگ تھلگ ہونے والا واقعہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ ملیٹرو-جوڈیشل-سول کمپلیکس، غیر حاضر زمینداروں، پیروں (روحانی رہنماؤں)، سیاست دانوں اور تاجروں کا گٹھ جوڑ ہے۔ ریاست اب ان کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ پاکستان کی معیشت ان مراعات یافتہ طبقوں کی خدمت کرتی ہے۔ ملیٹرو-جوڈیشل-سول کمپلیکس ناصرف ٹیکس دہندگان کے پیسے کی قیمت پر بے شمارٹیکس فری فوائد حاصل کرتا ہے، بلکہ اپنے اختیارات کا غیر قانونی استعمال بھی کرتا ہے۔ غیر حاضر زمیندار اور صنعت کار بالترتیب بے زمین کاشتکاروں اور صنعتی کارکنوں کا استحصال کر کے دولت کماتے ہیں۔
بے ایمان تاجر ضروری اشیا کی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ کرتے ہیں اور غریب اور مقررہ آمدنی والے طبقے کی محنت سے کمائی ہوئی آمدنی پر پروان چڑھتے ہیں، یہاں تک کہ عید جیسے پرمسرت موقعوں پر قیمتیں متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہو جاتی ہیں۔ اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں غریبوں پر جابرانہ، ناقابل برداشت بالواسطہ ٹیکس لگاتی اور انہیں بڑھاتی رہتی ہیں، جبکہ امیروں اور طاقتوروں کو بے مثال فوائد پہنچاتی ہیں۔ یہ آج کے پاکستان کا مخمصہ ہے جہاں 14 اگست 2024 کو 78 واں یوم آزادی منایا گیا!
ملیٹرو جوڈیشل سول کمپلیکس کا عوام دشمن اتحاد ہماری بڑی برائیوں کی اصل جڑ ہے۔ باہمی شادیوں اور رشتے داریوں کے ذریعے طاقتور مراعات یافتہ طبقات ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتے ہیں اور ریاستی اداروں اور معاشی وسائل پر مستقل کنٹرول قائم کرنے کا انتظام بھی۔ سول بیوروکریٹس کی زندگی اچھی پوسٹنگ، منافع بخش مراعات، غیر ملکی دوروں اور ترقیوں کے گرد گھومتی ہے۔
سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے افسران کو وفاقی اور صوبائی وزارتیں ناقابل یقین مراعات کے ساتھ منافع بخش عہدوں کے لیے طلب کرتی ہیں۔ نام نہاد سرکاری ملازمین گورا صاحبوں کی طرح برتاؤ کرتے ہوئے عوام کی بجائے اپنے سیاسی آقاؤں کے مفادات کی تکمیل کرتے ہیں، بعض اوقات قائم شدہ ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، اس طرح سول سروسز کے پورے ڈھانچے کو تباہ کر دیتے ہیں، جہاں 'سیاسی روابط' ہی اب کھیل کی کامیابی کی کنجی ہے۔
ریاستی اداروں کے اندر پولرائزیشن، جانبداری اور سیاست کاری اپنے تباہ کن نتائج دکھا رہی ہے جبکہ امن و امان مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ دہشت گرد آزادانہ طور پر کسی بھی جگہ پر بلاامتیاز حملہ کرتے ہیں۔ بے تحاشہ ٹیکس لینے کے باوجود لوگ اپنی حفاظت خود کرنے پر مجبور ہیں جبکہ حکومتی مشینری صرف حکمرانوں کی خدمت کرتی ہے۔
دوسری بار حلف اٹھانے کے بعد بھی وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا کیونکہ وہ ملک میں نام نہاد خادم اعلیٰ کا لبادہ اوڑھ کر اقربا پروری اور قبصہ پرستی کو فروغ دیتے رہتے ہیں۔ ایک بار پھر ان کے سابقہ اور موجودہ حکمرانی کے تحت، بہت سے اعلیٰ درجے کے افسران کو میرٹ کی بنیاد پر تقرریوں/پروموشنز سے محروم کیا گیا ہے یا انہیں ناقص بنیادوں پر سرپلس پول میں ڈال دیا گیا ہے، جبکہ 'وفادار'، جونیئر اور نااہل ہوتے ہوئے بھی، منافع بخش عہدوں اور مراعات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اشرافیہ کی طرف سے ایسی ڈھٹائیوں کی کوئی انتہا نظر نہیں آتی۔ وہ جمہوریت کے منتر کو گنگناتے رہتے ہیں، لیکن آمرانہ اور غیر ذمہ دارانہ انداز میں کام کرتے ہیں۔
ملٹری-جوڈیشل-سول کمپلیکس اور ان کے طفیلی طبقات کبھی بھی مساوات پر مبنی پاکستان بنانے میں دلچسپی نہیں لیں گے، جیسا کہ انہوں نے بارہا ثابت کر دکھایا ہے۔ اس کا ایک حالیہ ثبوت منی بجٹ (فنانس (سپلیمنٹری) ایکٹ 2023) تھا، جو چار بار وزیر خزانہ رہنے والے اسحاق ڈار اور اب ہمارے 39 ویں وزیر خارجہ ہیں، نے پیش کیا۔ اس نے بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے امیروں اور طاقتوروں پر ایک بھی ٹیکس نہیں لگایا۔ اس کے برعکس، بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا، جس نے غریبوں کو مزید کچل دیا اور متوسط طبقے پر مزید بوجھ ڈالا۔ مالی سال 2024-25 کے وفاقی بجٹ میں بھی یہی امیر نواز انداز اپنایا گیا، جس سے ناصرف نچلے اور متوسط طبقے کے تنخواہ دار افراد پر ٹیکس کا ناقابل برداشت بوجھ لادا گیا ہے، بلکہ مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ بھی ہوا ہے۔
بینکوں اور غیر ملکی قرض دہندگان سے بیک وقت بے سوچے سمجھے قرضے قوم کو 'قرض کی جیل' کی تاریک کھائی میں دھکیلتے رہتے ہیں۔ قرض کی خدمت ہی اب معیشت پر سب سے بڑا بوجھ ہے جو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ذریعہ جمع کیے گئے تمام ٹیکسوں کو جذب کرتا ہے اور یہاں تک کہ غیر ٹیکس محصول کو بھی۔ یہ سب کچھ ریاستی اشرفیہ (state oligharchy) کی آسائشوں پر بے پناہ اخراجات کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
اس سال مالیاتی خسارے کا تخمینہ بجٹ 2024- 25 میں 8.5 ٹریلین روپے ہے۔ اور قرض کی خدمت کی مد میں 9755 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اسحاق ڈار کی رہنمائی میں تیار کیے گئے بجٹ 2023-24 میں، قرض کی خدمت کے لیے مختص رقم 7.3 ٹریلین روپے تھی، لیکن بالآخر یہ 8160 ارب روپے تک تجاوز کر گئی۔
12 جولائی 2024 کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے ساتھ عملے کی سطح کے37 ماہ کے توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کے لیے تقریباً 7 بلین امریکی ڈالر معاہدے پر خوشی اور مسرت ہمارے حکمران اشرافیہ کے اخلاقی دیوالیہ پن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ وہ مزید مقروض ہونے کا جشن مناتے ہیں! 84 ویں یوم پاکستان سے صرف تین دن پہلے، 23 مارچ 2024، آئی ایم ایف کی پریس ریلیز جس میں 9 ماہ کے سٹینڈ بائی معاہدے کی کامیاب تکمیل کی تصدیق کی گئی تو جشن کا عالم تھا!
تاہم، اشرافیہ مزید ادھار رقم کی فراہمی پر خوش ہے کیونکہ وہ فوائد اور سہولیات، مفت پلاٹ، غیر ملکی دورے، مفت کلب کی سہولیات سے لطف اندوز ہوتی رہے گی۔ اس تمام کا بوجھ ٹیکس دہندگان پر منتقل کر دیا جائے گا۔ دوسری طرف عام لوگوں کو صحت اور تعلیم کی مفت فراہمی کے لیے آئین میں درج دیگر ذمہ داریاں پوری کرنے کی بات بھی نہیں کی جائے گی۔
ڈاکٹر عشرت حسین نے اپنی کتاب، 'پاکستان: دی اکانومی آف این ایلیٹسٹ سٹیٹ' میں مناسب طریقے سے مشاہدہ کیا ہے کہ 'مشترکہ ترقی' کے مشرقی ایشیائی ماڈل، تیز رفتار اقتصادی ترقی پر مبنی، غربت میں تیزی سے کمی کے ساتھ، ترقی کے ثمرات کی زیادہ منصفانہ تقسیم، کے بالکل برعکس پاکستان میں اشرافیہ کا ماڈل سیاسی اور معاشی اختیارات اشرافیہ کے ایک چھوٹے سے گروہ کو دیتا ہے۔ ڈاکٹر عشرت کے کام کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر خلیل احمد نے اپنی کتاب، 'پاکستان میں ریاستی اشرفیہ کا عروج' میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے: 'پاکستان اس وقت اشرافیہ کی ملکیت ہے جبکہ اس کا تعلق عوام سے ہونا چاہیے جن کا بے رحمی سے استحصال کیا جاتا ہے'۔
طاقتور ریاستی اہلکار بدعنوان سیاست دانوں کے ساتھ مل کر عوام کا استحصال کرتے ہیں، تاکہ وہ مزید طاقت اور پیسہ حاصل کر سکیں۔ مثال کے طور پر، ایف بی آر ایس آر اوز (قانونی ریگولیٹر آرڈرز) کے ذریعے معاشرے کے طاقتور طبقوں کو بھاری دولت کمانے کے لیے 'قانونی' طریقے اور ذرائع فراہم کرتا ہے۔ پارلیمنٹ کے اقدامات کے ذریعے انہیں دی جانے والی چھوٹ اور رعایتیں اربوں روپے کی ہوتی ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ محمد اسحاق ڈار کے تحت 2013-17 کے دوران ایف بی آر نے خاص طور پر شوگر اور سٹیل کی صنعت کے لیے بہت سے سازگار نوٹیفکیشن جاری کیے تھے۔
2012 میں جب گریڈ 19-22 کے افسران کو لازمی منیٹائزڈ ٹرانسپورٹ الاؤنس کی اجازت دی گئی تھی، 26 مئی 2012 کو ایس آر او 569(I)/2012 جاری کیا گیا تھا جو ابھی تک لاگو ہے۔ اس کے تحت گریڈ 20-22 کے سرکاری افسران اس monetized الاؤنس پر صرف 5 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ طاقتور بیوروکریٹس سرکاری کاریں بھی استعمال کرتے ہیں اور الاؤنس بھی حاصل کرتے ہیں، جس پرمعمولی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس کے برعکس پرائیویٹ سیکٹر میں ان کے ہم منصب اس سہولت پر عام شرح پر ٹیکس ادا کرتے ہیں! اس ناانصافی کو ایک گذشتہ کالم میں اجاگر کیا گیا تھا۔ اب یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ آیا ایف بی آر کے نئے چیئرمین کا منصب حاصل کرنے والے راشد محمود لنگڑیال، جو وزیر اعظم شہباز شریف کی ذاتی پسند اور معتمد خاص ہیں، وہ اس امتیازی سلوک کو ختم کرتے ہیں یا ذاتی طور پر اس سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ فنانس ایکٹ 2013 میں ایئرلائن کے پائلٹس کے فلائنگ الاؤنس کو تنخواہ کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا لیکن اسحاق ڈار نے طاقتور بیوروکریٹس کے ساتھ ان کے ٹرانسپورٹ الاؤنس کے لیے ایسا سلوک نہیں کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اشرافیہ کس طرح ایک دوسرے کی حفاظت کرتی ہے اور پائلٹس جیسے پیشہ ور افراد کو غیر مساوی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ ریاستی اشرافیہ کا حصہ نہیں ہیں۔
پاکستان کا مسئلہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ ان کی منصفانہ تقسیم اورصحیح استعمال اور انتظام میں عدم دلچسپی، سماجی و اقتصادی ناانصافی کو روکنے کے لیے مؤثر انتظامی اور انصاف کے نظام کی عدم موجودگی ہے۔ مختلف مصنفین کی جانب سے بارہا اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کوئی نیا ٹیکس لگائے بغیر یا موجودہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیے بغیر، صرف وفاقی سطح پر مجموعی محصولات کی وصولی 20 کھرب روپے (11000 ارب روپے براہ راست ٹیکس اور 9000 ارب روپے بالواسطہ ٹیکسز) ہو سکتی ہے اگر موجودہ ٹیکس خلا (gap) کو پُر کر لیا جائے۔
اس سطح کی وصولی ممکن ہے لیکن پہلے قدم کے طور پر ہمیں اپنی انتظامی مشینری اور عدلیہ میں اصلاحات لانی ہوں گی۔ 'رہائش گاہوں' کے طور پر ان کے زیر قبضہ مہنگی ریاستی جائیداد کو طویل مدتی لیز کے ذریعے تجارتی طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔ ان کے فوائد اور مراعات سے رقم کمائی جائے۔ ان کے لیے یکجا پے پیکج، منصفانہ اور مناسب، بدعنوانی کو کم کرے گا، اشرافیہ کے مضبوط احساس کو دور کرے گا اور گورننس کو بہتر بنائے گا۔
سیاست دانوں اور تمام ریاستی عہدیداروں کے لیے ایک آزاد اور مؤثر احتسابی نظام ضروری ہے۔ بنیادی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے بغیر ہم ایک حقیقی جمہوری نظام قائم نہیں کر سکتے جو سب کے لیے سماجی و اقتصادی انصاف کو بڑھا سکے، لاکھوں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع کے ساتھ تیز رفتار ترقی کو یقینی بنائے، جن کی مایوسی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے کیونکہ اشرافیہ ان کے تئیں بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور خود ریاست کے خرچ پر آسائشوں سے لطف اندوز ہونا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نادار افراد کا وحشیانہ استحصال اور معاشرے کی غیر انسانی صورت حال ایسے لرزہ خیز واقعات کو جنم دے رہی ہے جہاں لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں یا بے گناہوں کو بغیر کسی پچھتاوے اور توبہ کے قتل کر رہے ہیں۔ ہمیں اس رجحان کو تبدیل کرنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھنا ہو گا اور پاکستان کو عوام کے لیے ایک حقیقی جمہوری ملک بنانا ہو گا نہ کہ اشرافیہ کی جاگیر۔
وقت آ گیا ہے کہ پختہ عزم کیا جائے اور آئین کے آرٹیکل 3 کو نافذ کرنے کے لیے قطعی اقدامات کیے جائیں، جو کہتا ہے؛ 'ریاست ہر قسم کے استحصال کے خاتمے اور بنیادی حقوق کی بتدریج تکمیل کو یقینی بنائے گی کہ ہر ایک سے اس کی صلاحیت کے مطابق کام لیا جائے گا اور ہر ایک کو اس کے کام کے مطابق اجرت دی جائے گی'۔