14 اگست کو پاکستان کا تہترواں یوم آزادی منایا جا رہا ہے۔ کرونا کی وبا کے دنوں میں آئے اس یوم آزادی پر ہدایات تو گھروں میں رہنے کی ہیں لیکن اس کی امید کم ہی ہے۔ لیکن شاید آج گھروں میں بیٹھ کر اس بابت غور کرنے کا وقت مل جائے کہ پاکستان کے یوم آزادی کے ارد گرد جو تنازعہ ہے وہ کیا ہے اور اس کی تاریخی بنیادیں کیا ہیں۔ ایک جانب تاریخ دانوں اور تاریخ پاکستان کے ماہرین کا ایک طبقہ ہے جس کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کا یوم آزادی 14 اگست کی بجائے 15 اگست ہے اور اس کے تاریخی شواہد بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ خاص کر ایک مشہور زمانہ ڈان اخبار کا تراشہ سوشل میڈیا پر بھی چلتا ہے جس پر آزادی کی خبر کے ساتھ 15 اگست کی تاریخ موجود ہے۔
دوسری طرف ریاستی بیانیے سے مطابقت رکھنے والے تاریخ دان ریاستی طاقت کو بھی اپنے ساتھ پاتے ہوئے اس شدت کے ساتھ 14 اگست بطور پاکستان کے یوم آزادی کے حق میں دلائل دیتے ہیں کہ ان کے بارے کئی بار ملی شدت پسندی کا بھی تاثر جاتا ہے۔
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے ابتدائی دنوں سے لے کر قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات اور اس کے بعد کے واقعات میں بہت سے معاملات اور واقعات ایسے رہے ہیں جو کم از کم اپنی واقعاتی حیثیت میں متنازع ہیں۔ تاریخ دان اور محققین یہ سمجھتے ہیں کہ ان متنازع معاملات پر ریاستی طاقت سے ہوئی بیانیہ سازی نے جہاں تاریخ کو مسخ کیا وہیں اس ملک کے ایسے مسائل جن کا حل حقائق کا درست تاریخی ادراک تھا ان میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید بگاڑ آیا۔
انہی میں سے ایک یوم آزادی کا معاملہ بھی ہے۔ جو کہ خود دو قومی نظریے کے تشخص کی عمارت کی بنیادوں میں چنی ہے۔
اب ملک کے سینیئر صحافی حامد میر نے اپنے کالم میں اسی موضوع پر قلم کشائی کی ہے۔ حامد میر نے اپنے کالم کے ابتدائیے ہی میں واشگاف انداز میں لکھا ہے کہ پاکستان کا اصلی یومِ آزادی 14 اگست ہے یا 15 اگست؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر بہت بحث ہو چکی اور بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ تحقیق یہی ثابت کرتی ہے کہ برطانوی حکومت کی دستاویزات کے مطابق ہندوستان کی طرح پاکستان بھی 15 اگست کو معرض وجود میں آیا لیکن پھر جولائی 1948 میں حکومتِ پاکستان نے یہ فیصلہ کیا کہ یومِ آزادی کی پہلی سالگرہ 15 اگست کے بجائے 14 اگست 1948 کو منائی جائے گی۔
اس حوالے سے یہ حقیقت قارئین کے علم میں لانا انتہائی اہم ہے کہ دراصل کسی بھی ملک کا معرضِ وجود میں آنا ایک قانونی معاملہ ہوا کرتا ہے۔ اس کی سرحدیں بھی ایک قانونی معاملہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افواج جتنا مرضی لڑ لیں، اصل فیصلہ بالآخر مذاکرات کی میز پر ہی ہوتا ہے اور جن سرحدوں پر اتفاق ہو جائے، وہی دنیا کے نزدیک قانونی طور پر سرحد تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کی مثال کشمیر تنازعہ سے لی جا سکتی ہے جہاں عملی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کا قبضہ ہے جب کہ آزاد کشمیر ایک علیحدہ حصہ ہے لیکن یہ تمام علاقہ اس وقت تک متنازع ہے جب تک کہ دونوں ملکوں کے درمیان کسی کاغذ کے ٹکڑے پر اس بابت کوئی معاہدہ نہیں ہو جاتا جو کہ دنیا کے سامنے قبول کیا گیا ہو۔ اسی طرح پاکستان کا وجود میں آنا بھی ایک قانونی معاملہ تھا۔
مسلم لیگ، انڈین نیشنل کانگریس اور سکھ برادری کے قانون ساز اسمبلی کے اراکین نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ بٹوارے کے جس مسودے پر اتفاق کیا، اسے 3 جون کا پلان کہا جاتا ہے اور اس معاہدے کے تحت بننے والے Indian Independence Act 1947 جس پر شاہی دستخط 18 جولائی 1947 کو کیے گئے، اس کے مطابق ہندوستان کو آزادی 15 اگست 1947 کو دی گئی تھی۔ لہٰذا یہاں سوال یہ نہیں ہے کہ آیا پاکستان 14 اگست کو آزاد ہوا تھا یا 15 اگست کو۔ یہ تو طے ہے کہ پاکستان 15 اگست 1947 کو آزاد ہوا۔ یہ بھی یاد رہے کہ 9 جولائی 1948 کو حکومتِ پاکستان نے جو ڈاک ٹکٹ جاری کیے ان پر بھی پاکستان زندہ باد کے ساتھ 15 اگست 1947 کی تاریخ درج تھی۔
سوال یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان نے اپنا یومِ آزادی 15 اگست کے بجائے 14 اگست کو منانے کا فیصلہ کیوں کیا؟
بعض سرکاری دستاویزات کے مطابق پاکستان کا یوم آزادی 14 اگست کو منانے کی تجویز پر پہلی دفعہ 29 جون 1948 کو وزیر اعظم لیاقت علی خان کی صدارت میں کابینہ کے اجلاس میں غور ہوا اور یہ تجویز قائد اعظم کی منظوری سے مشروط کی گئی اور پھر ایک اور دستاویز بتاتی ہے کہ قائد اعظمؒ نے 14 اگست کو یومِ آزادی منانے کی منظوری دے دی تھی۔
حامد میرکہتے ہیں کہ برطانوی مصنف ہیکٹر بولیتھو کی قائداعظمؒ کے بارے میں سوانح عمری 1954 میں شائع ہوئی تو اس میں بانی پاکستان کی زندگی اور کردار کے اہم گوشوں کو چھپا دیا گیا جس پر محترمہ فاطمہ جناح خوش نہیں تھیں۔
بعد ازاں سٹینلی وولپرٹ سمیت کئی محققین نے قائد اعظمؒ پر کتابیں لکھیں لیکن اس پہلو پر توجہ نہیں دی کہ قائد اعظمؒ نے 15 اگست کے بجائے 14 اگست کو یوم آزادی منانے کے فیصلے کی منظوری کیوں دی؟
اور اس حوالے سے طویل دلائل بھی حامد میر کے کالم کا حصہ ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ قائد اعظم انگریز سامراج کے خلاف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے انگریز کی کسی بھی نوکری کی آفر قبول نہیں کی حتیٰ کہ ہائی کورٹ کے جج بننے کی اور وزارت کی بھی نہیں۔ اسی طرح انہوں نے ماؤنٹ بیٹن کی پاکستان اور ہندوستان کا گورنر جنرل بننے کی خواہش نما تجویز بھی مسترد کر دی تھی۔ پھر یہ کہ 15 اگست دوسری جنگ عظیم میں برطانوی اتحاد کی جاپان اور دیگر دشمنوں پر فتح کی تاریخ تھی۔ جب کہ 14 اگست کشمیر ڈے کے حوالے سے منایا جاتا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اسے 15 سے 14 اگست کیا۔ اسی بنا پر حامد میر نے دلائل کو کھینچ تان کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ تبدیلی کسی عظیم تر قومی تشخص کے تحت ہوئی جو کہ صرف قائد اعظم کی نفسیات کا حصہ تھا۔ اس تجزیہ سے کوئی اختلاف کرے یا نہ کرے، بہر حال شواہد یہی ہیں کہ دستاویزی طور پر پاکستان کی تاریخ آزادی 15 اگست ہی بنتی ہے۔