اقوام کی تاریخ میں ہر وہ دن اہم مانا جاتا ہے، جس سے کوئی نہ کوئی یاد جڑی ہوئی ہو جن میں کچھ یادیں تلخ بھی ہوسکتی ہیں اور کچھ خوشنما بھی مگر اس کا فیصلہ بھی قومیں اور تاریخ خود کرتی ہیں۔ کسی ادارے یا شخص کا اس میں کیا کام کہ وہ تاریخ کے کسی بھی ورق کو اپنی مرضی سے تبدیل کرے یا اسے حذف کر لے۔ ہاں اگر کسی ادارے یا سربراہِ ادارہ کو روشن تاریخ کے سنہرے اوراق لکھنے کا زیادہ شوق ہو تو وہ مسقبل پر نظر رکھے، حال کو روشن کرے تاکہ یہ ماضی میں بغیر تبدیل کیے ویسا ہی سنہرا ہو جیسا ہوا تھا۔
مگر افسوس کہ ہمارا مستقبل اللہ کے امان پر، حال ہنگامی صورت حال پر اور ماضی اداروں کی مرضی پر بنتا ہے۔ چودہ اگست ہماری یوم آزادی کا دن ہے۔ یہ آزادی ایک بڑی سامراج انگریز کے خلاف برصغیر کے لوگوں نے قربانیاں دے کر جدوجہد کر کے اور تحریکیں چلائیں تب جا کر اس انگریز کو بےدخل کردیا گیا جو برصغیر کو اپنی ایک کمپنی سمجھ کر لوگوں کو اپنا ملازم اور پھر غلام سمجھتے تھے۔ جب وہ انگریز بے دخل کر دیے گئے، برصغیر کو آزادی ملی تو برصغیر دو آزاد ملکوں کی شکل میں تبدیل ہوا (موجودہ پاکستان اور بھارت)۔ ان دو ملکوں میں کئی مذاہب، زبان اور تہذیبوں کے لوگ آباد ہیں۔ ظاہر سی بات ہے اگر جنگل میں بھی محض کسی ایک جانور کی حکمرانی ہو تو باقیوں کے وجود کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
خیر وہ تو جنگل ہے ملک میں سب کی برابری، حقوق، آزادی اور تحفظ ہی ملک کو سب کا ملک بنا سکتا ہے۔ ایسا ہونا چاہیے اور ایسا ہی ہوا، مسٹر محمد علی جناح نے ایسی خاموش، گمشدہ اور لاپتہ تاریخ میں ایک ایسی تقریر کی جو ملک کو سب کا ملک بنا سکتا تھا۔ بقول بی بی سی، جناح کے الفاظ ’’ﺁﭖ ﺁﺯﺍﺩ ﮨﯿﮟ۔ ﺁﭖ ﺁﺯﺍﺩ ﮨﯿﮟ ﺍپنے ﻣﻨﺪﺭﻭﮞ میں ﺟﺎنے کے لیے۔ ﺁﭖ ﺁﺯﺍﺩ ﮨﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺴﺠﺪﻭﮞ میں ﺟﺎنے کے لیے ﺍﻭﺭ ریاﺳﺖ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ میں ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺴﯽ بھی عبادت ﮔﺎﮦ میں ﺟﺎنے کے لیے۔ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ مذہب، ذات یا نسلے سے ہو، ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔‘‘
کسی بھی ریاست کے لیے اس سے اچھی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس کے سب شہری برابر ہوں، آزاد ہوں اور اپنی آزادی کو محسوس کریں مگر کسی خاص ادارے یا شخص کی ناپسندیدگی کی وجہ سے ملک کے بانی کے یہ الفاظ ہی غائب کر دیے جائیں اور وہ بھی اس ڈر سے کہ کہیں ہر شہری آزادی کو محسوس نہ کرے اور خود کو جداگانہ مذہب کے باوجود ریاست کا ایک برابر کا شہری تصور کرے تو وہاں انسان وہ بھی دوسرے درجے کے انسان اگر لاپتہ کردیے جائیں تو حیرانی کیسی؟
گیارہ اگست کی خاموشی اور گمشدگی ایسی کہ ریاست پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی جہدوجہد سے اور انگریزوں کی بے دخلی سے قائم ہوئی۔ اس میں شرمندگی کیا ہوگی؟ یا سلامتی کو کس خطرے کا سامنا ہوگا؟ کہ مملکت پاکستان میں برصغیر یا متحدہ ہندوستان کے علاوہ بھی علاقے شامل ہیں جو کبھی ہندوستان کا حصہ نہیں رہے ہیں لیکن آج پاکستان کا حصہ ہیں۔ جیسے بلوچستان جو بقول ریاست اپنی مرضی سے شامل ہوئی ہے تو مصیبت کیا ہے؟ گیارہ اگست کو چھپانے کے لیے بانی پاکستان کے الفاظ چھپائے جاتے ہیں، تو سمجھ سکتے ہیں کہ دوسری مذاہب کی نسبت مسلمانوں کی جدوجہد کی مارکنگ کہیں کم نہ ہو اور ہمارے مولانا جمعے کے خطبات کے منافی ان الفاظ سے ناراض نہ ہوں، مگر جو خطہ آج پاکستان کا اہم حصہ ہے جس کو پاکستان کا اہم ترین صوبہ بلوچستان کہا جاتا ہے، جہاں کے لوگوں نے انگریزوں کو متحدہ ہندوستانیوں سے پہلے بھگایا تھا، جہاں کے صحافیوں نے تحریک آزادی کے لیے اتنی ہی جدوجہد کی تھیں، قیدوبند اور موت کی سزائیں پائی ہیں جہاں سیاسی تحریکیں چلی ہیں اور تو اور جہاں متحدہ ہندوستان کی طرح مسلم لیگ بھی تھی، انگریزوں کے خلاف نوجوانوں نے مسلح جدوجہد بھی کی تھی اور مسلمان بھی تھے۔
تو اس خطے کی آزادی، یہاں کی تحریکیں مسلم لیگ کی فتح ، انگریزوں کی شکست سب کا سب گمشدہ اور لاپتہ کیوں؟ کیا صرف اس لیے کہ یہ سب چودہ اگست سے پہلے کیوں ہوا؟ کیا گیارہ اگست کی تاریخ ہی اتنی بری ہے کہ اس کے تمام کام دکھانے کے قابل نہیں؟ اس گیارہ اگست میں ایسی کونسی نحوست ہے جو منظر عام پر نہیں آ سکتی؟
اگر مطالعہ پاکستان کے لیے یہ تاریخ مضر صحت اور اسلام آباد کے لئے ناقابل تسلیم تو کم از کم بلوچستان کے صوبائی نمائندگان اس دن صوبے کی سطح پر اپنے آباؤ اجداد کی سیاسی، صحافتی اور مزاحمتی تحریک کی کامیابی اور انگریزوں سے آزادی کی دن تو منا سکتے ہیں۔ جس طرح کبھی سرحد نامی صوبہ ہوا کرتا تھا جسے کئی برس بعد پختونخواہ کی شناخت دے کر اس کی تشخص کو تسلیم کر لیا گیا، جس طرح وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کو ان کی شناخت دی گئی، جیسے اب گوادر کا پاکستان سے الحاق کا باقاعدہ دن منایا جاتا ہے، بالکل ویسے ہی اب کی جمہوری سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ تاریخ کو مسخ ہونے سے بچا کر اسے تسلیم کرلیا جائے، ورنہ یہ سوال ہمیشہ موجود رہے گا کہ گیارہ اگست لاپتہ کیوں؟