84 واں یوم پاکستان؛ ہمارے اصل مسائل کیا ہیں اور کیسے حل ہوں گے؟

آج کے پاکستان میں طوائف الملوکی، دہشت گردی، لاقانونیت اور افراتفری کی اصل وجہ ریاست پر بالادست طبقات، یعنی ملیٹرو جوڈیشل سول کمپلیکس، جاگیردار اشرافیہ، پیروں، امیر صنعت کاروں، سیاست دانوں اور بااثر تاجروں کا قبضہ ہے۔ ہماری معیشت ان مراعات یافتہ طبقات کے زیرنگیں ہے۔

84 واں یوم پاکستان؛ ہمارے اصل مسائل کیا ہیں اور کیسے حل ہوں گے؟

پاکستانیوں، خاص طور پر غریب اور کم مراعات یافتہ طبقے کے بے مثال مصائب اس وقت تک جاری رہیں گے، چاہے ہم کتنے ہی یوم پاکستان منائیں، جب تک کہ معاشرے کی تشکیلِ نو عدل اور انصاف کے اصولوں پر نہیں کی جاتی، یعنی آئینی جمہوریت کے وہ بنیادی عناصر جو آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آرٹیکل 3 میں بیان کیے گئے ہیں۔

23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور میں اپنے سالانہ اجلاس (22-24 مارچ 1940) میں قرارداد لاہور منظور کی جس نے بالآخر 14 اگست 1947 کو برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن (پاکستان) کی راہ ہموار کی۔ نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف ایک طویل جدوجہد۔ یہ یادگار دن اور پاکستان کے پہلے آئین کی منظوری کو پاکستان میں ہر سال یوم پاکستان کے طور پر منایا جاتا ہے۔

آج کے پاکستان میں طوائف الملوکی، دہشت گردی، لاقانونیت اور افراتفری کی اصل وجہ ریاست پر بالادست طبقات، یعنی ملیٹرو جوڈیشل سول کمپلیکس، جاگیردار اشرافیہ، پیروں، امیر صنعت کاروں، سیاست دانوں اور بااثر تاجروں کا قبضہ ہے۔ پاکستان کی معیشت ان مراعات یافتہ طبقات کے زیرنگیں ہے۔ ملیٹرو-جوڈیشل-سول کمپلیکس نا صرف ٹیکس دہندگان کی ادا کردہ رقوم سے بے شمار اور بے مثال ٹیکس فری فوائد حاصل کرتا ہے، بلکہ خود واجب الادا محصولات کی ادائیگی بھی نہیں کرتا۔

بے رحم زمیندار اور صنعت کار بالترتیب بے زمین کاشت کاروں اور صنعتی مزدوروں کا استحصال کر کے زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھا کرتے ہیں۔ بے ضمیر تاجر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ کرتے ہیں اور غریبوں اور مقررہ آمدنی والے طبقے کی محنت کی کمائی پر پلتے ہیں۔ رمضان جیسے بابرکت ماہ میں تو ان کی چیرہ دستیاں اور بھی عروج پر ہیں۔ اس پر مزید ظلم یہ کہ حکومت غریبوں پر ناقابل برداشت بالواسطہ ٹیکس لگاتی ہے اور امیروں اور طاقتوروں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔

یہ ہے آج کے پاکستان کا اصل مخمصہ، جہاں آج ہم 23 مارچ 2024 کو لاہور کی قرارداد اور پاکستان کے پہلے آئین کی منظوری کی یاد میں 84 واں یوم پاکستان منا رہے ہیں۔

اشرافیہ کا عوام دشمن اتحاد ہماری بہت سی برائیوں کی جڑ ہے۔ آپسی شادیوں کے ذریعے، اشرافیہ ایک دوسرے کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتے ہیں، اور ریاستی اداروں اور معاشی وسائل پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کا بندوبست بھی۔ سول بیوروکریٹس کے لیے زندگی اچھی پوسٹنگ، منافع بخش مراعات، غیر ملکی دوروں اور ترقیوں کے گرد گھومتی ہے۔

سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے افسران کو وفاقی اور صوبائی وزارتیں اپنی جانب کھینچتی ہیں۔ وہ یا تو وزرا کے رشتہ دار ہوتے ہیں یا ان کے قریبی دوست۔ وہ اپنے مفادات کو پورا کرتے ہیں، چاہے قانون اور ضابطے اس کی اجازت نہ دیں۔ اس نے سول سروسز کا پورا ڈھانچہ تباہ کر دیا ہے، جہاں ان کی اصطلاح میں 'سیاسی روابط' اب کامیابی کا پیمانہ اور آگے جانے والے کھیل کا نام ہے۔

ریاستی اداروں کے اندر پولرائزیشن، جانبداری اور سیاست کاری اپنے تباہ کن نتائج دکھا رہی ہے۔ امن و امان مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے اور دہشت گرد کسی بھی جگہ پر بلا امتیاز حملہ کرتے ہیں۔ ریاست بے تحاشہ ٹیکس لینے کے باوجود، عوام سے اپنی حفاظت کا انتظام خود کرنے کا کہہ رہی ہے، جبکہ ریاستی مشینری صرف حکمرانوں کی خدمت میں مصروف ہے۔ شہباز شریف نے دوسری مرتبہ وزیر اعظم کا حلف لینے کے بعد بھی اپنی ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ وہ بدستور بالادست ادارے کے خدمت گزار اور اقربا پروری کو فروغ دے رہے ہیں۔

ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی بہت سے اعلیٰ درجے کے افسران کو پوسٹنگ/پروموشن سے انکار کر دیا جائے گا، جن کے وہ میرٹ پر مستحق ہوں گے اور 'وفادار'، اگرچہ جونیئر ہیں، منافع بخش عہدوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔ اس کا آغاز تو ہو بھی چکا ہے۔ اشرافیہ کی طرف سے ایسی ڈھٹائیوں کی کوئی انتہا نظر نہیں آتی جو جمہوریت کے منتر کو گنگناتے رہتے ہیں لیکن آمرانہ انداز میں کام کرتے ہیں۔ شہباز شریف بھی اپنے آمرانہ رویوں کے لئے مشہور ہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

اشرافیہ کبھی بھی مساوات پر مبنی پاکستان بنانے میں دلچسپی نہیں لے گی۔ یہ حقیقت ماضی میں چوتھی بار وزیر خزانہ اسحاق ڈار، جو اب ماشاء الله وزیر خارجہ ہیں، کے پیش کردہ اور قومی اسمبلی سے منظور شدہ منی بجٹ [فنانس (ضمنی) ایکٹ 2023] سے عیاں ہے، جس میں بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے امیر اور طاقتور پر ایک بھی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ اس کے برعکس بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا، جس نے غریبوں کو مزید کچل دیا اور متوسط ​​طبقے پر اور بھی شدت سے بوجھ ڈالا۔

بیک وقت مقامی بینکوں اور غیر ملکی اداروں سے قرضہ جات قوم کو 'قرض کی جیل' کی تاریک کھائی میں دھکیل رہے ہیں۔ 20 مارچ کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی طرف سے 1.1 ارب ڈالر کی جاری پروگرام کی حتمی قسط ملنے کے سٹاف لیول ایگریمنٹ پر ایسے خوشی منائی گئی جیسے کہ 84 ویں یوم پاکستان کا پیشگی تحفہ مل گیا ہو۔ یہ ہے ہمارے اشرفیہ کی اخلاقی پستگی کی حالت۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی طرف سے اکٹھے کیے گئے تمام ظالمانہ ٹیکسوں کو اب محض سود یا قرضوں کی واپسی کی مد میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس سال جی ڈی پی کے 9 فیصد کے قریب مالیاتی خسارے میں قرضوں پر سود کی ادائیگی ہی 8.5 فیصد ہے۔ یہ معیشت پر سب سے بڑا، بلکہ نا قابل برداشت بوجھ ہے۔ تاہم، اشرافیہ اب بھی خوش ہے، کیونکہ وہ تمام تر فوائد اور مراعات، مفت پلاٹ، مفت کلب کی سہولیات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، یہ سب ٹیکس دہندگان کی طرف سے فنڈ کیے گئے ہیں۔ دوسری طرف عام لوگوں کو صحت اور تعلیم مفت فراہم کرنے کے لیے کسی قسم کی سیاسی رضامندی نظر نہیں آتی، ان حالات میں آئین میں درج دیگر ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کیا بات کی جائے۔

ڈاکٹر عشرت حسین نے اپنی کتاب 'پاکستان؛ دی اکانومی آف این ایلیٹسٹ سٹیٹ' میں مشاہدہ کیا ہے کہ 'مشترکہ ترقی' کے مشرقی ایشیائی ماڈل کے بالکل برعکس، تیزی سے معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ غربت میں تیزی سے کمی اور زیادہ منصفانہ پاکستان میں ترقی کے ثمرات کی تقسیم، جبکہ پاکستانی اشرافیہ کا ماڈل سیاسی اور معاشی اختیارات ایک چھوٹے سے گروہ (طفیلیوں) کو دیتا رہا ہے۔ ڈاکٹر عشرت کے کام کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر خلیل احمد نے اپنی کتاب، 'پاکستان میں ریاستی اشرافیہ کا عروج (پاکستان میں ریاستی اولیگارکی کا عروج)' میں یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ پاکستان اس وقت اشرافیہ کی ملکیت ہے اور ان کے ہاتھوں وسائل کا استحصال کیا جاتا ہے، جبکہ اس پر حق تو پاکستانی عوام کا ہونا چاہیے۔

طاقتور ریاستی اہلکار امیروں اور طاقتوروں کے ساتھ مل کر نظام کا استحصال کرتے ہیں تاکہ خود کو بڑھاوا دیا جا سکے۔ مثال کے طور پر، ایف بی آر ایس آر اوز (قانونی ریگولیٹر آرڈرز) کے ذریعے معاشرے کے طاقتور طبقوں کو بہت بڑی دولت جمع کرنے کے لیے 'قانونی' طریقے اور ذرائع فراہم کرتا ہے، انہیں دی جانے والی چھوٹ اور رعایتیں اربوں روپے کی ہوتی ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسحاق ڈار کے دور میں ایف بی آر نے 2013-17 کے دوران اقتدار میں رہنے والوں کے فائدے کے لیے خاص طور پر شوگر اور سٹیل انڈسٹری کے لیے بہت سے سازگار نوٹیفکیشنز جاری کیے تھے۔

2012 میں جب گریڈ 19-22 کے افسران کو ٹرانسپورٹ الاؤنس کی اجازت دی گئی تھی، ایس آر او 569(I)/2012 کو 26 مئی 2012 کو جاری کیا گیا تھا (یہ ابھی تک مؤثر ہے) یہ بتاتے ہوئے کہ گریڈ 20-22 کے سرکاری افسران اس الاؤنس پر صرف 5 فیصد ٹیکس ادا کریں گے۔ طاقتور بیوروکریٹس سرکاری کاریں استعمال کرتے ہیں، اور نقد الاؤنس بھی حاصل کرتے ہیں اور اس پر ڈار صاحب کی مہربانی سے بہت ہی معمولی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

فنانس ایکٹ 2013 میں پی آئی اے کے پائلٹس کے فلائنگ الاؤنس کو تنخواہ کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا تا کہ اس پر زیادہ ٹیکس حاصل ہو، لیکن اسحاق ڈار صاحب نے طاقتور بیوروکریٹس کے ٹرانسپورٹ الاؤنس کے لیے ایسا سلوک نہیں کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اشرافیہ کس طرح ایک دوسرے کی حفاظت کرتے ہیں اور پی آئی اے کے پائلٹس جیسے پیشہ ور افراد صرف اس وجہ سے بدسلوکی کا شکار ہوتے ہیں کہ وہ ریاستی اشرافیہ کا حصہ نہیں ہیں۔

پاکستان کا مسئلہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ ان کی منصفانہ تقسیم، ان کے صحیح استعمال اور انتظام میں عدم دلچسپی، سماجی و اقتصادی ناانصافی کو روکنے کے لیے مؤثر انتظامی اور انصاف کے نظام کی عدم موجودگی ہے۔

مختلف مصنفین کی طرف سے بار بار یہ بات کہی جا چکی ہے کہ کوئی نیا ٹیکس لگائے بغیر یا موجودہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیے بغیر، صرف وفاقی سطح پر مجموعی محصولات کی وصولی 20 کھرب روپے (11000 ارب روپے براہ راست ٹیکس اور 9000 ارب روپے بالواسطہ ٹیکس) ہو سکتی ہے، اگر موجودہ ٹیکس خلا کو ہی پورا کر لیا جائے۔

اس سطح کی وصولی ممکن ہے، لیکن پہلے قدم کے طور پر ہمیں اپنی ریاستی مشینری میں اصلاحات کرنی ہوں گی۔ 'رہائشوں' کے طور پر ان کے زیر قبضہ مہنگی ریاستی جائیداد کو واگزار کروایا جانا چاہیے اور طویل مدتی لیز کے ذریعے ان کو تجارتی طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔ اس سے ریاست کو بہت فائدہ ہو گا اور وہ مہنگے قرضے ادا کر سکے گی، اس سے مالیاتی خسارہ بہت حد تک کم ہو سکتا ہے۔ سرکاری ملازمین کے لیے منصفانہ اور مناسب یکجا پے پیکج ہونا چاہیے۔ یہ اقدام بدعنوانی کو کم کرے گا، اشرافیہ کے احساس برتری کو دور کرے گا اور گورننس کو بہتر بنائے گا۔

سیاست دانوں اور تمام ریاستی کارکنوں کے لیے، ایک آزاد اور مؤثر احتسابی نظام وقت کی ضرورت ہے۔ بنیادی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے بغیر ہم ایک حقیقی جمہوری نظام قائم نہیں کر سکتے جس میں سب کے لیے سماجی و اقتصادی انصاف ہو، تیز رفتار ترقی لاکھوں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع کو یقینی بنائے، جن کی مایوسی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے کیونکہ اشرافیہ ان کے تئیں بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور ریاست کے خرچ پر آسائشوں سے لطف اندوز ہونا۔

اشرافیہ کا ننگا استحصال اور معاشرے کی غیر انسانی صورت حال لرزہ خیز واقعات کو جنم دے رہی ہے، جہاں لوگ بغیر کسی پچھتاوے اور توبہ کے معصوموں کی جانیں لے رہے ہیں۔ ہمیں اس رجحان کو ختم کرنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھنا ہو گا اور پاکستان کو صرف اشرافیہ کے لیے نہیں بلکہ عوام کے لیے بھی ایک مثالی اور انصاف پر مبنی جمہوریہ بنانا ہو گا۔

اب وقت آ گیا ہے کہ 84 ویں یوم پاکستان کے موقع پر پختہ عزم کیا جائے اور آئین کے آرٹیکل 3 پر عمل درآمد کے لیے قطعی اقدامات کیے جائیں، جس میں کہا گیا ہے؛

'مملکت استحصال کی تمام اقسام کے خاتمہ اور اس بنیادی اصول کی تدریجی تکمیل کو یقینی بنائے گی کہ ہر کسی سے اس کی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے گا اور ہر کسی کو اس کے کام کے مطابق معاوضہ دیا جائے گا'۔

مضمون نگار وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دونوں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور LUMS یونیورسٹی کی Visiting Faculty کا حصہ ہیں۔