میں ایک تعلیم یافتہ لکھاری تو نہیں ہوں لیکن آج مجبور ہو کر پہلی دفعہ قلم اٹھا کر کچھ لکھنا چاہ رہا ہوں اور یقیناً میرا دماغ اور ہاتھ اس دوران مسلسل کانپ رہے ہیں۔ میں اس وقت عمر کے 66 ویں سال میں ہوں اور کم از کم پچھلے 55 سال سے ملک کو نشیب در نشیب کھسکتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔
میں ان چند باقیات میں سے ہوں جس نے 14 سال کی عمر میں ملک کو دولخت ہوتے دیکھا اور اس واقعے کو کبھی بھُلا نہیں سکتا۔ جب 13 دسمبر 1971 کو اپنے مرحوم والد کے ساتھ راجن پور کے دور افتادہ علاقے میں سفر کرتے ہوئے ریلوے لائن کی ایک پُلی پہ حسرت سے لفظ 'پاکستان' لکھا تھا۔
میں، میری اہلیہ اور تین بچے سب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور شبانہ روز محنت سے ایک باوقار اور آرام دہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پچھلے چند ماہ سے اندرونی طور پر خوفزدہ ہوں کہ ملک کا کیا بنے گا۔ کافی سوچ بچار کے بعد آج پہلی بار اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہماری پولیٹیکل اور آرمی ایلیٹ کی پسند ناپسند اور ذاتی مفادات کی جنگ نے ہمیں انتہائی خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ 9 مئی اور اس کے بعد کے حالات، بیانات اور اقدامات نے تو حد ہی پار کر دی ہے۔
حقیقت کیا ہے؟
پاکستان کے 25 کروڑ عوام اور 6 لاکھ فوجی جوان و افسران ایک دوسرے کو جان سے بھی زیادہ عزیز سمجھتے ہیں اور یقیناً یک جان دو قالب ہیں۔ پاکستان میں ہر خاندان میں کوئی نہ کوئی فوجی یقیناً موجود ہے اور بعض خاندان تو نسل در نسل فوجی ہیں۔
1970 میں 'اِدھر ہم اُدھر تم' کا نعرہ سنا تھا اور ایسا ہوتے دیکھا بھی۔ وہ حادثہ یادِ ماضی بن کر رہ گیا۔ اس تلخ حقیقت کو دونوں ممالک کے درمیان حائل ہزاروں میل فاصلے نے اپنے اندر جذب کر لیا۔ چند ہفتے قبل ایک نیا نعرہ سنا؛ 'ہمارا پاکستان' اور یقیناً اس سے ایک نیا جذبہ اجاگر ہوا لیکن بدقسمتی سے کل واضح ہوا کہ 'ہمارا سے مراد صرف اور صرف ہمارا پاکستان تھا'۔ لہٰذا کل سے سوچ رہا ہوں کہ پھر میرا پاکستان کون سا ہے!
حاصلِ گفتگو
خدارا دونوں ایلیٹ طبقے غصے میں کہے گئے الفاظ کو بھلا کر عوام کا سوچیں ورنہ ایک ہی خاندان اور ایک ہی گھر کے اندر موجود فوجی اور غیر فوجی ایک دوسرے کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔