فیض کے میلے میں بھی طبقاتی تقسیم؟

فیض کے میلے میں بھی طبقاتی تقسیم؟
فیض صاحب کی اولاد کو وہ وقت شاید ہی یاد ہو کہ فیض صاحب اس وقت بی اے کے طالب علم تھے جب ان کے والد صاحب کی وفات ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب ان کی فیملی انتہائی غربت کے دن گزارتی رہی اور ایک لمبا عرصہ یونہی چلتا رہا۔ کتاب Coming Back Home میں یہ بھی لکھا ہے کہ فیض صاحب سے جب ان دنوں کے حوالے سے پوچھا گیا تو کہتے ہیں کہ میں اس وقت بی اے میں تھا مگر مجھے والدہ سے پیسے مانگنا انتہائی ناگوار گزرتا تھا، میں نے ان کو خرچے کے لئے کبھی تنگ نہیں کیا۔ فرماتے ہیں کہ اگر جاننا چاہتے ہو کہ میں خالی پیٹ بھی کبھی سویا، تو ہاں ایسا کئی بار ہوا۔ میں دوستوں کے پاس بھی جانے سے کتراتا تھا حالانکہ وہ انتہائی اچھے بھی تھے۔

یہاں جالب صاحب کے وہ الفاظ بھی شامل کر کے اس بات کی تصحیح کر لیتے ہیں کہ فیض صاحب شروع سے ہی اپر کلاس فیملی سے تھے۔ جالب فرماتے ہیں کہ مجھ میں اور فیض میں فرق صرف اتنا ہے کہ وہ سکاچ وہسکی پیتے ہیں اور میں ٹھرہ پیتا ہوں۔ یہاں کلاس کے اختلاف کو جالب نے انتہائی خوبصورتی سے بیان کیا ہے مگر یہ بات بہت سی غلط فہمیوں کا سبب بھی بنتی ہے۔



اس بات کا جواب کوئی اور نہیں فیض خود ہی دیں گے۔ یاد رہے یہ وہ دور تھا جب فیض کا نام اور ایک مقام بن چکا تھا۔ فرماتے ہیں کہ میں کام کرنے والا آدمی ہوں۔ ماہوار کمانے پر اکتفا کرتا ہوں، نہ ہی کسی زمین کا مالک ہوں، حتیٰ کہ وہ گھر بھی کہ جس میں اس وقت رہ رہا ہوں۔ گاؤں میں کچھ زمینیں تھیں جو سب کی سب کسانوں میں بانٹ دیں۔ زندگی کا کوئی خاص ہدف نہیں ہے۔ بس یہی کہ میں بے وقعت زندگی نہیں گزارنا چاہتا۔ کسی ناکام کی زندگی گزارنے کے احساس سے مجھے خوف آتا ہے۔

یہاں میں اپنا مشاہدہ اور فیض میلے کو لے کر اپنے تجربات کو موضوع بنانے پر مجبور ہوں۔ اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ تنقید برائے تنقید نہیں ہوگی، ان رویوں پر نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے جن پر نظر ثانی کی ضرورت بھی ہے۔ فیض میلے پر جانے کا ارادہ بھی دائیں بائیں ہو چکا تھا، بس چائے کی میز پر بیٹھے دوست عمر سلیم یہ بات نہ کہتا کہ بھارت سے اس بار جاوید اختر اور شبانہ اعظمی جیسے خاص لوگ آرہے ہیں۔ (’خاص‘ لفظ محتاط رہتے ہوئے صرف احترام و محبت کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے)۔ میں آج کل چونکہ بےروزگار ہوں تو عمر نے حامی بھر لی کہ بے فکر ہو کر صرف چلنے کی تیاری کروں۔ خیر، جاوید کو تحفے میں پیش کرنے کے لئے حسن نثار کی کالے قول بھی لے لی گئی۔ پہلے صفحے پر یہ بات بھی ثابت ہو چکی کہ یہ کتاب جاوید کو ہی جانی ہے۔ ہمیں چونکہ دوسرے دن کے پہلے سیشن کا انتظار تھا سو ہم پہلے دن وہاں پہنچتے ہی سیشنز لینے کے ساتھ ساتھ فیض گھر کی انتظامیہ سے تعلقات اس وجہ سے بناتے رہے کہ ہمیں جاوید صاحب سے ملنے دیا جائے تاکہ ہم ان کو تحفہ پیش کر سکیں۔ کتاب تو ان تک نہ پہنچ سکی اور نہ ہی ہمیں ان تک جانے بھی دیا گیا۔

https://www.youtube.com/watch?v=SBbewZHZAuU

ہوا کچھ یوں کہ جاوید اختر سیشن مکمل کر کے جب بیک سٹیج ایک کمرے میں گئے تو فیض کی بیٹی محترمہ منیزہ صاحبہ نے یہ اعلان کیا کہ صرف وہی لوگ ان سے مل سکتے ہیں جو جاوید اختر کی باہر سٹال پر لگی کتب خرید سکتے ہیں، جاوید اس پر آٹو گراف دے دیں گے۔ میں خالی جیب نہ ہی وہ کتاب خرید سکتا تھا اور نہ ہی یہ بات ہضم کر پا رہا تھا کہ فیض صاحب کے نام پر منعقدہ اس میلے میں یہ کن رویوں کی ترویج ہو رہی ہے۔ منیزہ کو میں نے اپنے ہی لوگوں سے بہت تلخ اور باہر سے آئے مہمانوں کے ساتھ بالکل مختلف پایا۔ میں خود سے یہ سوال کرتا بھی شرم محسوس نہیں کرتا کہ کیا میری کلاس اس زمانے کی نظر میں اونچے لوگوں سے ملاقات کے بیچ حائل ہے؟ کیا واقعی جاوید صاحب بھی میلے کچیلے ان سے محبت کرنے والے لوگوں کی بجائے قد کاٹھ کے لوگوں میں بیٹھنا پسند کرتے ہیں؟ یہ تضاد ان کے الفاظ اور عمل میں واضح دکھائی دیا۔ ہمیں یہ بتایا گیا کہ ان کو پاکستان میں کسی سے نہیں ملنا۔

میں منیزہ کی اس بات کو لے کر اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر ایسا ہی ہے تو پاکستانی جاوید اختر کو یوٹیوب کی بدولت دیکھ ہی لیتے ہیں۔ پاکستان آنے کا مقصد کیا ہوا؟ لیکن وہ خیال یوں زائل ہوا کہ جس حسن نثار کی کتاب میں تحفے میں دینے لایا تھا، موصوف اسی شام اسی حسن نثار سے رات کے کھانے پر ملاقات کو گئے ہوئے تھے۔ مجھے تب سمجھ آئی کہ میرے ہاتھ میں موجود کتاب بھی میری ہی کلاس سے تعلق رکھتی تھی۔ اہم شکلیں، شہرت اور نام ہی ہوتے ہیں، مشہور ہونے کے بعد والا انسان اس سے پہلے کے انسان سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ اس تناظر میں ہمارا جاوید اختر سے ملنے کا خیال واقعی ایک غیر مناسب بات ہی تھی۔



یہی نہیں، علی اکبر ناطق صاحب جو دہلی میں جاوید صاحب کو ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے اپنے شعر سناتے رہے محترمہ منیزہ صاحبہ کے رویے کا نشانہ بنے۔ گارڈ نے یہ تک خیال نہیں کیا کہ ادیب اس تحقیر کے ہرگز حقدار نہیں ہوتے۔ منیزہ نے انہیں دور سے ہی واپس جانے کا اشارہ کر دیا جس پر وہ فیض صاحب سے یہ سوال کرنے پر حق بجانب ہیں کہ فیض صاحب یہ لوگ آپ جیسے کیوں نہیں ہیں۔ ناطق صاحب نے اس سب کا اظہار انتہائی دکھ کے ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے سے کیا بھی تھا۔

فیض میلے پر طبقاتی حقیقت تو ہر طرف رقص کرتی ہی رہی۔ اس بات نے مجھے وہاں موجود لوگوں کی ترجیحات پر بھی سوچنے پر مجبور کیا کہ کسی بھی سیشن میں بیٹھے لوگوں کی تعداد سے زائد تو باہر بیٹھے ڈھول پیٹنے والے نے جمع کر رکھی تھی۔ اس بات سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معافی کا طلبگار ہوں مگر حقیقت یہی ہے جو بیان کر دی گئی۔

دوسرے دن ہی یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کامریڈ عمار علی جان کو بولنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس سیشن میں تین لوگوں نے بولنا تھا۔ کامریڈ عصمت رضا شاہجہان، ایک باہمت پشتون خاتون، ڈاکٹر عاصم سجاد اختر اور ڈاکٹر عمار علی جان۔ کہا یہ گیا کہ فیض گھر والوں کو اوپر کہیں سے پیغام آیا ہے کہ عمار کو بولنے نہیں دیا جانا۔ ایک منٹ۔ کیا واقعی یہ فیض میلہ تھا؟ وہ فیض جو ساری زندگی زبان بندی کے خلاف نعرہ بلند کرتے رہے۔



1955 میں جیل سے رہائی کے بعد بھی عام انسان کی آواز بننے والے، ان کے ساتھ کھڑے رہنے والے فیض آج اپنی اولاد سے شرمندہ تو ہونگے۔ طبقاتی فرق بےشک ایک common phenomenon ہے، حتیٰ کہ مارکیٹ میں رہنا، پیسے بنانا بھی، لیکن اس کو فیض صاحب کے نام کا برینڈ بنا دینا اصولی طور پر ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ ویسے میلہ سجالینا آج کل کافی مقبول طریقہ کاروبار ہے۔

الحمرہ کی گیلری میں فیض صاحب کی چیزوں کی نمائش کے دوران جب ان خطوط اور ٹیلی گرامز پر پہنچا جو قید و بند اور ملک بدری پر ایلس کو لکھے تھے تو افسردہ سا ہو گیا۔ سلیمہ ہاشمی سے کچھ اسی سے متعلق پوچھنے ہی والا تھا کہ رک گیا، شاید کہ میرا خاموش رہنا ہی بہتر تھا۔

سلمان درانی لاہور میں مقیم صحافی ہیں۔ بیشتر قومی اخبارات، اور آن لائن آؤٹ لیٹس پر رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل @durraniviews ہے۔